وفاقی کابینہ میں پھر تبدیلیاں: شوکت ترین وزیرِ خزانہ اور فواد چوہدری دوبارہ وزیر اطلاعات مقرر


حکومتی فیصلے کے مطابق حماد اظہر سے وزارتِ خزانہ کا قلم دان واپس لے کر انہیں وزیرِ توانائی مقرر کیا گیا ہے۔ جب کہ شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کا قلم دان دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)

وزیرِ اعظم عمران خان نے کابینہ میں ایک بار پھر رد و بدل کیا ہے اور حماد اظہر سے وزارتِ خزانہ کا قلم دان واپس لے کر شوکت ترین کو خزانہ اور ریونیو کی وزارت سونپ دی ہے۔

وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی تصدیق وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کی ہے۔

حکومتی فیصلے کے مطابق حماد اظہر سے وزارتِ خزانہ کا قلم دان واپس لے کر انہیں وزیرِ توانائی مقرر کیا گیا ہے۔ جب کہ شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کا قلم دان دیا گیا ہے۔

عمر ایوب سے وزارتِ توانائی کا چارج واپس لے کر انہیں وفاقی وزیرِ اقتصادی امور بنا دیا گیا ہے۔ جب کہ شبلی فراز کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور فواد چوہدری کو وزارتِ اطلاعات کا قلم دان دیا گیا ہے۔

تین ہفتے قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے عبد الحفیظ شیخ کو وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے حماد اظہر کو ‏نیا وزیر مقرر کیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا تھا کہ وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو مہنگائی کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔ ‏ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے وزیرِ اعظم عمران خان مطمئن نہیں تھے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے شوکت ترین کو اپنی معاشی ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن شوکت ترین نے بعض نیوز چینلز پر انٹرویوز میں کہا تھا کہ ان کا نام نیب کے بعض کیسز میں شامل ہے۔ نیب ‏کیسز کے فیصلوں تک وہ کوئی وزارت نہیں سنبھالیں گے۔ شوکت ترین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور میں بھی وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی ٹیم میں بار بار تبدیلیوں کے حوالے سے تجزیہ کار فرخ سلیم نے کہا کہ بار بار ایک ہی کام کرنا مختلف نتائج نہیں دے سکتا۔ ان کے مطابق گزشتہ 32 ماہ میں ایف بی آر کے چیئرمین چھ بار، بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین چار بار، سیکریٹری کامرس چار بار، پنجاب کے آئی جی پولیس چھ بار، فنانس سیکریٹری تین بار، وزیرِ اطلاعات چار بار، وزیرِ خوراک چار بار، وزیرِ صنعت چار بار اور وزیرِ خزانہ بھی چار بار تبدیل ہو چکے ہیں۔

پی ٹی آئی دورِ حکومت میں اس سے قبل اسد عمر، حفیظ شیخ اور حماد اظہر وزیرِ خزانہ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ ان میں سب سے مختصر عرصے کے لیے یہ ذمہ داری حماد اظہر کے حصے میں آئی جنہیں 29 مارچ کو ہی وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔

حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی وزارتِ خزانہ کا منصب اسد عمر سے لے کر عبد الحفیظ شیخ کو دیا گیا تھا جو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں وزیرِ نجکاری کے علاوہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ رہے تھے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے تین سالہ دور میں چوتھی مرتبہ کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس سے قبل آخری بار گزشتہ سال دسمبر میں کی گئی تبدیلیوں میں مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو وزیرِ خزانہ کا قلم دان سونپا گیا تھا۔ جب کہ شیخ رشید کو وزیرِ داخلہ بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو وزیرِ انسداد منشیات اور اعظم سواتی کو وزیرِ ریلوے کا عہدہ دیا گیا تھا۔

اس سے پہلے وفاقی کابینہ میں گزشتہ برس اپریل میں تبدیلیاں کی گئی تھیں جس کے تحت خسرو بختیار کو وفاقی فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا کر اقتصادی امور، حماد اظہر کو اقتصادی امور کی جگہ وزارتِ صنعت جب کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امام کو وزارتِ غذائی تحفظ دی گئی تھی۔

وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے دوسری مرتبہ یہ وزارت سنبھالی ہے۔ ان سے یہ وزارت واپس لے کر فردوس عاشق اعوان کو دی گئی تھی۔ البتہ کچھ ہی عرصہ بعد انہیں ہٹا کر شبلی فراز کو وزیر بنایا گیا اور اب ایک بار پھر فواد چوہدری حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیں گے۔

سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ میں کابینہ میں بار بار تبدیلیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حماد اظہر تین سال میں تیسرے وزیرِ خزانہ تھے۔ انہیں وزیرِ خزانہ بنے تین ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں ہٹا کر چوتھا وزیرِ خزانہ شوکت ترین کو بنا دیا گیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کوئی یہ تو بتا دے کہ حماد اظہر کو ہٹانے کی وجہ کیا بنی؟ ان کے بقول وزارتِ خزانہ کو تو مذاق بنا دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ تبدیلی سرکار کابینہ میں ایک بار پھر تبدیلی کر کے سمجھتی ہے ملک تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلی کی سونامی چائے کے کپ میں طوفان بن چکی ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ وزارتیں وزیر تبدیل ہونے سے نہیں چلتیں۔ حکومت، وزیرِ اعظم اور پارٹی کے وژن اور پالیسی سے چلتیں ہیں۔

انہوں نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ وہ اپنی 22 سال کی جدوجہد میں کچھ ہوم ورک ہی کر لیتے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments