تحریکِ لبیک پاکستان: کیا سوشل میڈیا پر پابندی سے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں رک سکتی ہیں؟

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


سوشل میڈیا، تحریک لبیک

پاکستان میں وفاقی حکومت نے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر قابو رکھنے کے لیے جمعے کو کئی گھنٹوں کے لیے تمام بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پابندی لگا دی۔

ملک بھر میں صبح تقریباً 11 بجے سے لے کر شام چار کے کچھ بعد تک صارفین کو ان سوشل میڈیا سروسز تک رسائی میں مشکل ہوتی رہی۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے ماضی میں مختلف اوقات میں مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بیک وقت چھ بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹس فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، ٹک ٹاک شامل ہیں یہاں تک کہ میسجنگ ایپس واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کو بھی بند کر دیا گیا۔

حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں یہ ویب سائٹس جمعے کے روز صبح 11 بجے سے لے کر دوپہر تین بجے تک بند رہیں گی۔

وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ یہ پابندی کالعدم جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے جمعے کی نماز کے بعد کسی ممکنہ پُرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے لگائی گئی اور مستقبل میں حکومت کوشش کرے گی کہ ایسا نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیے

کیا حکومت کا تحریک لبیک پر پابندی کا طریقہ کار درست ہے؟

سعد حسین رضوی، دیگر ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی، قتل کے مقدمے درج

تحریک لبیک کی وائرل ویڈیو اور فوجی اہلکار: مشتعل ہجوم کے سامنے کیسا رویہ رکھنا چاہیے؟

پاکستان میں انٹرنیٹ پر قدغنیں

ماضی میں بھی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا ویب سائٹس تک عوام کی رسائی محدود کرنے کے لیے متعدد بار کوششیں کی جا چکی ہیں۔ گذشتہ سال حکومت کی جانب سے ’غیر اخلاقی مواد‘ کے پھیلاؤ کو وجہ بناتے ہوئے پہلے بیگو لائیو اور پھر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی۔ گذشتہ سال مئی میں بھی صارفین نے شکایت کی تھی کہ اُنھیں ٹوئٹر اور زوم تک رسائی میں دشواری کا سامنا تھا۔

اس کے علاوہ نیٹ بلاکس کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اگست اور ستمبر 2020 کے مہینے میں انٹرنیٹ تک رسائی مختلف مواقع پر بند کر دی گئی تھی۔

اس سے قبل 2018 میں بھی ایسے ہی واقعات دیکھنے میں آئے تھے جس میں سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کی ویب سائٹ کا بند ہوجانا بھی شامل ہے۔

سنہ 2017 میں نومبر کے مہینے میں ٹیلی کام اداروں کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں سوشل میڈیا ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر جُزوقتی پابندی دیکھنے میں آئی تھی۔

سوشل میڈیا، تحریک لبیک

کیا پابندیاں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روک سکتی ہیں؟

حکومت کی جانب سے تحریکِ لبیک پر انسدادِ دہشتگری ایکٹ 1997 کے تحت پابندی عائد کی گئی۔ اس قانون کے تحت کسی شخص، میڈیا یا پلیٹ فارم کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کالعدم تنظیم کے پیغام کو عام کرنے میں معاونت فراہم کرے یا ان کے نظریے کی اشاعت کرے۔

تحریکِ لبیک پاکستان نہ صرف بطور تنظیم بلکہ ان کے نظریے کی تقلید کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔ جب حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو عارضی طور پر معطل کیا گیا تو اس وقت بھی کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کے حق میں ٹرینڈ ٹوئٹر پر سرفہرست ٹرینڈز میں سے تھا۔

اس کے علاوہ گذشتہ تین روز میں پُرتشدد مظاہروں کے لیے تحریکِ لبیک پاکستان کی قیادت سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں تک پیغامات پہنچاتی رہی۔ اسی دوران تنظیم کے نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں جن میں انھوں نے کارکنوں کو پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کی۔

اسی دوران تنظیم اپنے فیس بک پیجز کے ذریعے مظاہروں کی براہ راست کوریج بھی کرتی رہی۔ تحریک لبیک پاکستان کے بانی مولانا خادم رضوی کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کو گذشتہ سال پاکستان حکومت کی درخواست پر بند کر دیا گیا تھا تاہم تنظیم کے کارکن اب بھی ٹوئٹر پر سرگرم ہیں اور آئے روز تحریک کے حق میں متعدد ٹرینڈ بھی چلائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ تحریکِ لبیک پاکستان کے دو آفیشل یوٹیوب چینلز ہیں جبکہ متعدد چینلز ایسے بھی ہیں جو تنظیم کے آفیشل تو نہیں ہیں لیکن تحریک کے قائدین کی ویڈیوز باقاعدگی سے شیئر کرتے ہیں۔

پاکستان میں آزادی انٹرنیٹ پر کام کرنے والے اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نفرت انگیز مواد پھیلانے اور تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن حکومت نے ماضی میں کبھی اس قسم کی تنظیموں کے خلاف ان قوانین کا اطلاق نہیں کیا بلکہ زیادہ تر یہی دیکھنے میں آیا کہ ان قوانین کا استعمال صحافیوں اور حکومت اور ریاست کے ناقدین کے خلاف کیا جاتا ہے۔

’اگر حکومت شروع دن سے ہی ان تنظیموں کے خلاف ان قوانین کے تحت کارروائی کرتی تو آج سوشل میڈیا پر اس قسم پابندی کی نوبت نہیں آتی۔‘

اسامہ خلجی کا کہنا ہے جب تحریک لبیک پاکستان کے بانی و سابق سربراہ مولانا خادم رضوی کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھا تب بھی ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا ہر شیئر کی جاتی تھیں۔ اسامہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے تمام صارفین کو سوشل میڈیا سے محروم کر کے کالعدم تنظیموں کو تشدد پر اکسانے سے روکا نہیں جاسکتا اور اس کے لیے حکومت کو جامع حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔

سوشل میڈیا، تحریک لبیک

ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پھیلاؤ سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے دوران انھیں تحریک لبیک پاکستان کے سوشل میڈیا پر متعدد ایسے پیجز اور پوسٹس ملیں جو نفرت اور تشدد پر اکسانے کے زمرے میں آتی ہیں اور رپورٹ میں ان کا ذکر بھی موجود ہے۔

مگر وہ کہتے ہیں کہ اِن تنظیموں کا سوشل میڈیا پر مکمل خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ آپ تنظیم پر تو شاید پابندی لگا دیں لیکن شخصیات کو ان کے پیغامات اور نظریے کو پھیلانے سے روکنا ایک مشکل کام ہے۔

اسامہ اور ہارون دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کمپنیز بھی الزام سے بری نہیں۔ حکومت کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹس اور پلیٹ فارم کو غلط استعمال ہونے سے روکیں جیسے ہم نے امریکی کانگریس پر حملے کے بعد دیکھا تھا، تاہم ان کمپنیوں کے پاس ایسے افراد اور ٹیکنالوجی کی کمی ہے جو اُردو پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں میں موجود نفرت انگیز مواد کی نشاندہی کریں اور اس کے خلاف کارروائی کریں۔

اس سلسلے میں بی بی سی نے فیس بک سے رابطہ کیا اور اُن کے سامنے ان فیس بک گروپس پیجز اور اکاؤنٹس کی نشاندہی کی جو تحریکِ لبیک پاکستان کے نام پر یا کسی دوسرے نام سے لوگوں کو مظاہروں کے لیے متحرک کرنے میں مصروف عمل تھے اور پوچھا کہ فیس بک نے ان کے خلاف کیا کاروائی کی۔

اس کے جواب میں فیس بک کا کہنا تھا کہ وہ حالات کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں اور وہ اس مواد کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیں گے جو ان کے ضوابط کے خلاف ہے۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی تحریکِ لبیک پاکستان اور خادم حسین رضوی کو خطرناک افراد اور تنظیموں کی فہرست میں شامل کر چکے ہیں اور ان کی جانب سے نفرت آمیز مواد کے پھیلاؤ کی جانچ پڑتال کرتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب انسداد دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے تحریکِ لبیک پاکستان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی فہرست تیار کر لی ہے جو کہ جلد ایف آئی اے کو کارروائی کے لیے دے دیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp