انڈیا کا اجرک پور: آباؤ اجداد کے قدرتی ڈائی والی اجرک بنانے کے فن کو زندہ کرنے کی کہانی

نیاز فاروقی - بی بی سی، نئی دہلی


اجرک

اجرک پور میں آپ کا خوش آمدید ہے۔ انڈین ریاست گجرات کے بھوج شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو دہائی پرانا یہ گاؤں اجرک کے کاروبار کے لیے مشہور ہے۔

اس گاؤں کے باشندوں کے آباؤ اجداد، جو کہ سندھ سے آئے تھے، صدیوں سے اس کاروبار سے منسلک ہیں اور تقریباً پورا گاؤں آج بھی اسی صنعت سے جڑا ہے۔

اجرک بنانا تقریباً 5000 سال پرانا ہنر مانا جاتا ہے جو کہ پاکستان کے سندھ اور انڈیا کے کچھ اور باڑمیر علاقوں میں محدود ہے۔ انڈیا میں روایتی طور پر اسے مسلم مالدھاری نامی ایک چرواہا برادری پہنتی تھی لیکن اب اس کی مارکیٹ ایک حد تک بین الاقوامی ہو چکی ہے۔

یہ 14 مراحل پر منحصر کپڑے رنگنے (خاص طور پر نیل سے) اور بلاک پرنٹنگ کا ایک فن ہے جس میں عمدہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگرچہ تاریخی طور پر اس میں قدرتی ڈائی کا استعمال ہوتا تھا، لیکن گذشتہ کئی دہائوں سے اس کاروبار سے جڑے سبھی افراد کیمیکل ڈائی کا استعمال کر رہے تھے جو کہ کپڑے کو چمکدار رنگ تو دیتے تھے لیکن صحت اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ تھے۔

گاؤں کے زیادہ تر افراد تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور انھیں اس کے نقصانات کا صحیح علم نہیں تھا۔

یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ گاؤں کے بزرگ اسماعیل کھتری اور ان کے کنبے کی ملاقات اس کاروبار پہ تحقیق کرنے آئے کچھ لوگوں سے ہوئی۔ بیرونی دنیا کے رابطے سے انھیں معلوم ہوا کہ قدرتی رنگ سبھی کے لیے بہتر ہیں، خواہ وہ تاجر ہوں یا صارفین۔

یہ بھی پڑھیے

ہندوستانی ململ جس کی شہرت تجارت کا ذریعہ بھی بنی، غلامی کا طوق بھی

’اجرک صوبے کی نہیں ایک تہذیب اور ورثے کی پہچان ہے‘

پوپ کو اجرک دینے والے نوجوان کا پادری بننے کا فیصلہ

اجرک

کھتری کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہوا کہ ’عالمی ادارہ صحت کو پتہ چلا ہے کہ جلد کے کینسر جیسی بیماریاں رنگ کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ لہذا انھوں نے تجویز دی کہ اگر اس کینسرسے بچنا ہے تو لوگ سفید کپڑا پہنیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں بھی احساس ہوا کہ جب پہننے والے کو اتنا نقصان ہوتا ہے تو بنانے والے کو کتنا نقصان ہوتا ہو گا، کیوںکہ ہم تو رات دن اسی رنگ کے ساتھ کھیلتے تھے۔‘

کھتری کا کہنا ہے کہ محققین نے پتا لگایا کہ ’پہلے زمانے میں کون سے کپڑے استعمال ہوتے تھے۔ مصر میں ممیوں کے اوپر لپٹے کفن ڈائی کیے ہوئے اور پرنٹیڈ تھے اور اس میں قدرتی ڈائی کا استعمال کیا گیا تھا۔‘

اس کے علاوہ انھیں 2000 قبل مسیح کے قریب موہنجو داڑو کے ’پریسٹ کنگ‘ جیسی کہانیوں سے بھی توثیق ملی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ‘پریسٹ کنگ’ کی مورتی پر شال نما اجرک پرنٹ بنا ہوا ہے۔

کھتری کو احساس ہوا کہ انھیں خود اپنے اور کاروبار دونوں کے لیے اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ کار کی طرف واپس رخ کرنا ہو گا جو کہ قدرتی ڈائی پر منحصر تھا اور جس میں سبزی کے روغن اور قدرتی معدنیات جیسی اشیا کا استعمال ہوتا ہے۔

لیکن ان تبدیلیوں کو متعارف کرنے سے پہلے ہی کیمیائی ڈائی کے منفی اثرات ان تک پہنچ چکے تھے، تاہم مقامی لوگوں میں ابھی اس سے متعلق بیداری نہیں آئی تھی۔

کھتری کا کہنا ہے کہ کاسمیٹک رنگوں کی وجہ ان کے کاروبار سے منسلک لوگوں میں چند اموات بھی ہوئیں تھیں حتیٰ کہ خود انھیں بھی مثانے کا کینسر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انھیں کیتھریٹر مثانا لگوانا پڑا۔

اجرک

حالات کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی بیداری نے انھیں بدلنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم کیمیکل ڈائی کو کم کرتے گئے اور قدرتی ڈائی کو بڑھاتے گئے۔ ہم لوگوں کو سمجھاتے تھے جس سے خود بخود بات پھیلتی گئی اور قدرتی ڈائی کا بازار بڑھتا گیا۔ اس سے نہ صرف ہمیں، بلکہ پورے سماج کو فائدہ ہوا۔‘

اجرک کے کاروبار میں کیمیکل ڈائی کا استعمال کیوں ہوتا ہے؟

کیمیائی ڈائی نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن سستے اور چمکدار بھی ہوتے ہیں جسے لوگ پھیکے قدرتی رنگوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ کھتری کا کہنا ہے کہ ‘1840 کے آس پاس میں کیمیائی ڈائی بننے لگی اور اس کے بعد رنگ کی دنیا میں اور ترقی ہوتی گئی اور اس کے اندر اور کیمیکل ڈالا جانے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں جلد کے کینسر کے معاملات بڑھ گئے۔‘

ان کے کاروبار میں کیمیائی رنگوں کے پنپنے کی ایک تاریخی وجہ بھی تھی۔

کیمیائی رنگ متعارف ہونے سے پہلے انڈین نیل جو کہ اعلیٰ معیار کا تھا اور بہتر پیداوار دیتا تھا، کا غلبہ تھا۔ لیکن برطانوی نیل کے کاشتکار اپنے ملک میں اس کی برآمدگی کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔

کھتری کے مطابق ’انگریزی کاشتکاروں نے نیل کی برآمدگی پر حکومت سے پابندی عائد کروا دی۔ پھر اس کی سمگلنگ شروع ہو گئی۔ انھوں نے ایک اور قانون عائد کرایا جس میں نیل کی سمگلنگ کے لیے پھانسی کی سزا قرار دی گئی۔‘

اسی دوران سائنسدانوں نے کاسمیٹک رنگ بنا لیا۔ لیکن 1950 کی دہائی میں قحط کے بعد مقامی طور پر اس کے استعمال میں مزید اضافہ ہوگیا کیوں کہ قدرتی ڈائی کا فن پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو کیمیائی رنگ کے مضر اثرات جیسے جلد کا کینسر کو سمجھنے میں دہائیاں لگ گئیں۔

اجرک

لیکن اگر قدرتی رنگ کے اس فن کو سکھانے کے لیے ان کے والد ضد نہیں کرتے تو شاید کھتری اس سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جاتے اور کیمیائی ڈائی کے وجہ سے ان کی تجارت بھی زوال کی طرف گامزن ہوتی۔ کھتری کا کہنا ہے کہ ‘والد نے مجھے قدرتی رنگ سکھایا کہ کیا معلوم کبھی کام آ جائے۔’

اور یہ کام آیا اور بہترین طریقے سے آیا۔

فی الحال ان کے گاؤں، جو کہ 2001 میں ایک شدید زلزلے کے بعد نئے سرے سے دوسری جگہ تعمیر کیا گیا تھا، میں کاروبار عروج پر ہے۔ کھتری بتاتے ہیں کہ ‘ابھی ہمارے گاؤں میں 50 یونٹس ہیں اور ان میں سے 90 فیصد میں قدرتی ڈائی کا کام چل رہا ہے۔ اور تقریباً 500 لوگ ان کارخانوں میں کام کر رہے ہیں۔’

ان کا اندازہ ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے باوجود بھی اس چھوٹے سے گاؤں میں تقریباً نو کروڑ روپے کا سالانہ کاروبار جاری ہے۔

بین الاقوامی طور پر قدرتی ڈائی کے فائدے سے متعلق بیداری سے ان کے کاروبار میں توسیع آئی ہے۔ ایک وقت میں ان علاقوں میں بہتر معیار کے وجہ سے سندھ سے اجرک کی سمگلنگ ہوتی تھی جو کہ کچھی اجرک کے اوسطاً 14 سٹیج کے مقابلے 21 سٹیج پر مبنی ہے۔ ساتھ ہی سندھی اجرک روایتی طور پر کچھی اجرک کے برعکس چمکدار ہوتی ہے۔

قدرتی ڈائی والی اجرک کو دوبارہ زندہ کرنے میں اور کیسی مشکلات آئیں؟

20 سال قبل ایک شدید زلزلے میں کھتری کا گاؤں پوری طرح تباہ ہو گیا تھا جس میں ان کے گاؤں میں تقریباً 50 افراد جبکہ ان کے اپنے کنبے کے ہی 8 افراد کی موت ہوئی تھی۔

سرکاری اعداد و شمارہ کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں گجرات میں 13805 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر آنے والا یہ زلزلہ اس خطے میں گذشتہ کم از کم 100 برسوں کے دوران سب سے زیادہ شدید تھا۔

اجرک

کھتری کو احساس تھا کہ کاروبار کے فروغ کے لیے اسے تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ لیکن ریکٹر سکیل پر سات سے زائد پیمانے کے اس زلزلے نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب تو ہر طرف انھیں موت اور تباہی دکھ رہی تھی۔

گاؤں والے ان دنوں کی یاد تازہ کرنے سے عموماً گریز کرتے ہیں۔ لیکن کھتری قبیلے کی ایک عورت بتاتی ہیں کہ ’ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ہلاک ہوا تھا، ہر گھر میں ماتم تھا۔‘

کھتری کے سامنے اب آپشن تھا کہ یا تو وہ اپنے نقصانات پر ماتم کریں یا ایک نئی شروعات کریں۔ انھوں نے گاؤں کو الوداع کہہ کر نئی جگہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ سندھ سے ہجرت کے بعد نو پیڑھیوں سے ان کا کنبہ اسی گاؤں میں رہائش پذیر تھا۔ گاؤں میں مشہور قصوں کے مطابق ان کے قبیلے کو مقامی حاکم راجہ راؤ بھڑمل نے 17ویں صدی میں مدعو کیا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کھتری برہمن تھے لیکن بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

کھتری قبیلے کے عبدالجبار کنبے کے مطابق راؤ نے انھیں ‘زمین تحفے میں دی تھی۔ ہمیں آزادی تھی کہ ہم اپنی رہائش کی جگہ کا انتخاب خود کریں۔ ہم پہ کوئی ٹیکس عائد نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان ڈھڈا ذات سے ہے اور ان کے آباؤ اجداد نے ان کے پرانے گاؤں کو اس لیے منتخب کیا تھا کیونکہ وہاں سے ایک دریا بہتا تھا۔

اجرک

لیکن صدیوں بعد پھر سے ہجرت ایک بڑا چیلنج تھا۔ پہلے تو ایک ایسی جگہ تلاش کرنے کی ضرورت تھی جہاں کے لوگ انھیں قبول کریں۔ پھر شہر کا قریب ہونا بھی اہم تھا تا کہ بازار، ہسپتال اور تعلیمی ادارے جیسے بنیادی سہولیات دستیاب ہوں۔

اپنے پرانے گاؤں سے تقریباً 40 کلومیٹر دور انھیں آخرکار اپنے ہی ضلع کچھ میں ایک ایسی زمین ملی جسے اس کے مالکان بیچنے پر راضی تھے اور جو ان کے قبیلے والوں کے گھر اور کارخانے بنانے کے لیے کافی تھا۔ یہ کسی نہر یا ندی کے قریب نہیں تھی لیکن یہاں بورویل لگانے کے لیے زمین کے اندر پانی کی سطح بہتر تھی اور پانی صاف بھی تھا۔

کھتری کہتے ہیں کہ ‘آس پاس کے گاؤں والوں کی مخالفت سے بچنے کے لیے ایک عوامی سماعت بھی بلائی گئی۔’

کھتری بتاتے ہیں کہ ‘فیصلوں کو جمہوری بنانے اور تنازعات سے گریز کرنے کے لیے ہم نے گاؤں میں 10 افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ہر قبیلے سے ایک شخص شامل تھا۔ ہم معاملات پر غور کرتے اور اگر وہ تنازعہ کا باعث بننے والا ہوتا تو پورے گاؤں کا ایک عام اجلاس طلب کرتے۔’

لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ گاؤں میں کس کی زمین کہاں ہو گی ایک اہم مسئلہ تھا۔ مفاد کے تصادم سے بچنے کے لیے یہ طے ہوا کہ لاٹری نکالی جائے گی جس سے یہ طے ہو گا کہ کون سا خاندان کہاں رہے گا اور اس کی ورکشاپ کہاں ہو گی۔

ماحولیاتی ضروریات کو نظر میں رکھتے ہوئے کچھ علاقے کو صنعتی عمل کے لیے مختص کیا گیا اور باقی کو رہائشی اور اجتماعی جگہ قرار دیا گیا۔

جب گاؤں کو آباد کیا جا رہا تھا تو کھتری اور ان کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس میں وہ خامیاں نہ ہوں جو ان کے پرانے گاؤں میں تھیں اور جو زلزلے کے دوران زیادہ تر ہلاکتوں کی ایک وجہ بنیں تھی۔

چنانچہ نئے گاؤں کے دروازوں اور باونڈریوں پر روایتی پتھر کے ٹکڑے نہیں رکھے گئے، زلزلے کی صورت میں فرار ہونے کے لیے سڑکیں وسیع بنائی گئیں اور لوگوں کے مجموعی طور پر جمع ہونے کے لیے کھلی جگہیں چھوڑی گئیں۔

نئے گاؤں کا نام گاؤں والوں کے کاروبار پر رکھا گیا۔ اجرک پور میں آپ کا خوش آمدید ہے!

اجرک

انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کی شالینی گپتا جو کھتری کے فن پہ تحقیق کر رہی ہیں اور فی الحال اسی گاؤں میں قیام پزیر ہیں، ان کے فن سے بہت متاثر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘ایک گاؤں میں اس طرح کی واضح منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرنا نایاب ہے۔’

قدرتی ڈائی نے ایک سردرد تو ضرور کم کیا لیکن کھتری نے مستقبل کے بارے میں سوچنا بند نہیں کیا تھا۔ اور وہ مستقبل پانی کی بلاتعطل دستیابی پر منحصر ہے خاص طور پر جب کہ اس علاقے میں تاریخی طور پر پانی کی قلت رہی ہے۔

اس کے حل کے لیے گاؤں والوں نے پانی بچانے کے لیے ایک فلٹر بنایا جس میں چارکول، ریت اور پتھر کی پرتوں سے پانی گزرتا تھا اور پانی میں لوہے کے مقدار کو کم کرتا جاتا تھا۔ یہ ایک کارگر طریقہ تھا لیکن مشکل بھی تھا کیوں کہ اس میں چارکول کو مختصر وقفوں میں تبدیل کرنا پڑتا تھا۔

کھتری اب پانی کو ری سائیکل اور اس میں لوہے کی مقدار کم کرنے کے لیے پورے گاؤں کے لیے ایک ‘کامن ایفلواینٹ ٹریٹمینٹ پلانٹ’ لگا رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ مہیشور شرما کہتے ہیں کہ یہ ‘ایک دن میں 1.5 لاکھ لیٹر سے زیادہ پانی صاف کر سکتا ہے۔’ وہ بتاتے ہیں کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے، انڈیا میں اس طرح کا کوئی گاؤں نہیں ہے جہاں اس طرح کا پلانٹ لگا ہو۔

لیکن یہاں کے لوگوں کے لیے حکومت سے اس کی منظوری لینا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

کھتری کو خدشہ تھا کہ شاید انھیں پھر سے نوکر شاهی کی اسی طرح چکر کاٹنے ہوں گے جیسا کہ انھیں اپنے نئے گاؤں کی زمین خریدنے کے بعد اس کے کاغذات کے لیے کاٹنے پڑے تھے اور جس میں انھیں تقریباً 10 سال لگ گئے تھے۔

‘ہم زمیندار نہیں ہیں، ہمیں بلاک پرنٹنگ کرنا تو اچھی طرح آتا ہے، کیسے بھی کپڑے پر ہم رنگ چڑھا دیں گے لیکن زمین کے معاملے میں ہم تھوڑے کچے تھے۔’

لیکن افسران کے ردعمل نے انھیں حیرت زدہ کر دیا۔ افسران یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ ایک گاؤں میں انڈسٹریل ایفلوینٹ پلانٹ کیوں لگانا چاہتے ہیں۔ کھتری نے انھیں ماحولیاتی نظریے سے اپنے گاؤں کو بہتر بنانے کی کوشش کے بارے میں بتایا۔ ‘جب انھوں نے یہ سنا تو کہا کہ بہت اچھا۔ آپ کا خیرمقدم ہے، خوش آمدید۔ آپ کی تجویز منظور کی جاتی ہے۔’

آج اجرک پور خود کفیل ہے، ماحولیاتی نظریات سے اپنے کاروبار کو بہتر بنا رہا ہے، اور اپنی وراثت اور روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ایک علاقہ جہاں پانی کی شدید قلت ہے اور کسی بھی وقت زلزلہ آنے کا ڈر رہتا ہے، یہ خدشات مستقبل کو غیر یقینی بناتے ہیں۔

لیکن تب تک یہ بحث جاری رہے گی کہ اجرک کا اصلی نام کہاں سے آیا (عربی سے یا مقامی زبان سے) اور سندھ کی اجرک بہتر ہوتی ہے یا کچھ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp