کیا واقعی عدالتی حکم کے مطابق رمضان میں چینی 80 روپے فی کلو میں مل رہی ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


چینی

کراچی کے ضلع وسطی کی رہائشی فرحین صدیقی گذشتہ برس کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے ایک نجی سکول میں ملازمت کر رہی تھیں۔ کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو ان کی ملازمت بھی چلی گئی۔ ان کے شوہر نجی ڈیلوری کمپنی کی موٹر سائیکل سروس کے ذریعے روزگار کماتے ہیں۔

گھر کا سودا سلف وہ خود خریدتی ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں انھوں نے جب مہینے بھر کا راشن خریدا تو انھیں چینی 98 روپے فی کلو کے حساب سے ملی۔

فرحین نے بتایا کہ چینی کی قیمت میں ہر ماہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے چینی کم مقدار میں خریدنی شروع کر دی ہے تاکہ ان کے ماہانہ بجٹ میں اس کا خرچہ پورا ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں چینی کے بحران کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے؟

پاکستان میں چینی کی قیمت پر سٹہ کیسے اور کہاں کھیلا جاتا ہے؟

کیا چینی کمیشن جہانگیر ترین کی وطن واپسی کو کڑوا بنا سکتی ہے؟

اپریل کے شروع میں چینی کی خوردہ قیمت 98 روپے فی کلو تھی جو رمضان میں کراچی شہر کے گلی محلوں کی دکانوں میں 100 روپے فی کلو کے حساب سے بک رہی ہے۔

کراچی کے علاقے ہارون جو بحریہ سوسائٹی میں ایک دکاندار ہیں، انھوں نے چینی کی خوردہ قیمت 100 روپے فی کلو بتائی۔ دکاندار کے مطابق ہول سیل میں چینی کی قیمت خرید 96 روپے ہے۔

ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چینی کی خوردہ قیمت 100 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ لاہور میں مقیم انگریزی اخبار سے منسلک صحافی عامر نوید چوہدری کے مطابق لاہور شہر میں چینی کی خوردہ قیمت 110 روپے تک جا پہنچی ہے۔

رمضان میں چینی کی قیمت کا 100 روپے اور اس سے تجاوز ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں شوگر ملز کو پابند کیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں 80 روپے فی کلو کے حساب سے چینی مارکیٹ میں سپلائی کریں اور پنجاب حکومت نے ریٹیل سطح پر اسے 85 روپے فی کلو پر بیچنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

چینی

مگر کیا شوگر ملز چینی 80 روپے فی کلو کے حساب سے فراہم کر رہی ہیں جن کے اپنے تخمینے کے مطابق چینی کی پیداواری لاگت اس وقت 90 روپے فی کلو کے لگ بھگ آ رہی ہے؟

ایک طرف تو اس سلسلے میں چینی کے کاروبار سے وابستہ افراد اور شوگر ملوں کے نمائندے اس سے اختلاف کرتے ہیں تو دوسری جانب عدالتی معاملات پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلوں پر عمل درآمد ماضی میں نہیں ہوا اور ان کی نظر میں اس کا امکان ابھی بھی نہیں ہے۔

پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی عدالت کی جانب سے چینی کی قیمت مقرر کرکے اس کی فروخت اس قیمت پر مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہوں۔

اس سے قبل 2009 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں ایک عدالتی بنچ نے چینی کی فی کلو قیمت 40 روپے فی کلو مقرر کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے مقرر کردہ قیمت پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور چینی کی قیمت 40 روپے کی بجائے اس سے دگنی قیمت پر بکنے لگی۔

عدالت کی مقرر کردہ قیمت کے بعد چینی دوبارہ 40 روپے فی کلو تک نہیں آسکی اور اب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس کی 80 روپے فی کلو فروخت کے احکامات پر چینی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔

چینی کی صنعت کا عمومی جائزہ

چینی

چینی کی صنعت کا عمومی جائزہ لیا جائے تو ملک میں اس سال مارچ کے مہینے میں کرشنگ سیزن کے اختتام تک 55 سے 57 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے بتایا کہ ملک میں اس کرشنگ سیزن میں چینی کی پیداوار 55 لاکھ ٹن سے زائد رہی۔ ان کے مطابق پیداوار کے یہ اعداد و شمار شوگر ایڈوائزری بورڈ کے جاری کردہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ اگر حکومت ہماری تجویز کو مان لیتی چینی کی پیداوار 63 لاکھ ٹن ہو سکتی تھی۔ ہم نے ملک میں کرشنگ سیزن کے آغاز سے پہلے ساڑھے تین سے چار لاکھ ٹن خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کیا تھا تاہم ہمارا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔‘

انھوں نے بتایا اسی طرح چینی کی پیداوار اور زیادہ ہو سکتی تھی اگر خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والا گنا گڑ کی تیاری میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ سکندر کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں ڈیڑھ لاکھ ٹن تک گنا گڑ کی تیاری کے لیے استعمال ہوا۔

شوگر درآمد کنندہ وحید میمن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’چینی کی پیداوار 57 لاکھ ٹن تک رہی جب کہ ملک میں اس کی کھپت 55 لاکھ ٹن ہے۔ پچھلے سال کا 50 ہزار ٹن سٹاک بھی اس میں شامل کیا جائے تو پاکستان میں کھپت سے زیادہ چینی موجود ہے۔‘

سکندر خان نے چینی کی ایکس مل ریٹ کا بتاتے ہوئے کہا کہ مختلف شوگر ملوں کا ایکس فیکٹری ریٹ مختلف ہوتا ہے تاہم اگر اوسطاً نکالا جائے تو یہ 90 تک آ رہا ہے یعنی مل اس قیمت پر چینی مارکیٹ میں بیچ رہی ہے۔

کراچی کی ہول سیل مارکیٹ جوڑیا بازار میں چینی کے تاجر وسیم غفار کا کہنا ہے کہ انھیں 90 روپے فی کلو کے حساب سے چینی مل رہی ہے۔ اس میں لیبر، ٹرانسپورٹ اور ٹیکسوں کے اخراجات شامل کرکے ہول سیل میں اسے 93 سے 94 روپے فی کلو میں بیچا جا رہا ہے جو پرچون میں کہیں 98 اور کہیں 100 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔

چینی کی قیمت میں اضافہ کیوں ہوا؟

گڑ

ملک میں چینی کی قیمت کیوں بڑھی ہے، اس کے بارے میں شوگر امپورٹر وحید میمن نے بتایا کہ حکومت گنے کی ایک امدادی قیمت مقرر کرتی ہے جس پر شوگر ملوں کو کاشتکاروں سے گنا خریدنا ہوتا ہے۔

’موجودہ سال کے کرشنگ سیزن میں شوگر کی امدادی قیمت 200 روپے فی من مقرر کی گئی تھی تاہم شوگر ملوں نے یہ گنا تین سو روپے فی من سے زائد قیمت پر خریدا۔ ‘

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شوگر ملیں زیادہ پیداوار کر کے اسے زیادہ قیمت پر بیچنا چا رہی تھیں جس میں مستقبل کے سودے اور افواہوں پر چینی کی قیمت بڑھانے والے مافیا کا عمل دخل تھا جو اس شعبے میں سٹے کے ذریعے چینی کی قیمتوں کو بڑھاتی رہتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر شوگر ملوں نے زیادہ مہنگے داموں گنا خریدا تو اس میں ان کا قصور تھا کیونکہ حکومت نے تو گنے کی قیمت کم مقرر کی تھی۔ اب مہنگا گنا خریدنے سے پیداواری لاگت بڑھی ہے تو اس کی حکومت ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ ساری ذمہ داری شوگر ملوں کی ہے جو زیادہ اور بڑھتی قیمت کی افواہوں پر زیادہ مہنگا گنا خرید رہی تھیں۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ شوگر ملوں نے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ امدادی قیمت سے زیادہ قیمت پر گنا خریدا ہے۔

چینی

انھوں نے کہا کہ یہ گنا تین سو سے چار سو روپے زائد کی قیمت پر خریدا گیا ہے جب کہ حکومت نے گنے کی امدادی قیمت دو سو روپے فی من مقرر کی تھی۔ شوگر ملوں کی جانب سے زیادہ گنا خرید کر اضافی پیداوار حاصل کر کے چینی کی قیمت بڑھانے کے خیال کو انھوں نے مسترد کیا اور اس بات سے انکار کیا کہ افواہوں کے ذریعے مصنوعی بحران پیدا کر کے مستقبل میں چینی کی زیادہ قیمت حاصل کرنے کی ساری باتیں بے بنیاد ہیں۔

سکندر نے بتایا کہ شوگر ملوں نے مہنگا گنا مڈل مین کی وجہ سے خریدا جو چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں سے اسے خرید کر ذخیرہ کر رہے تھے اور شوگر ملوں کو اپنی ضرورت کے لیے ان سے گنا خریدنا پڑا جو مہنگے داموں ملا۔

انھوں نے کہا کہ ’جب مہنگا گنا ملے گا تو سستی چینی کیسے فراہم کی جا سکے گی۔‘

انھوں نے چینی کے شعبے میں ملوں کے کارٹل کی بھی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہر کوئی مسابقت کے دوڑ میں ہے اور ہر ایک اپنی پیداواری لاگت کو دیکھتے ہوئے ایسی قیمت پر چینی فروخت کرتا ہے جو اس کی پیداوار کو مسابقتی بنائے۔

سکندر خان سے جب شوگر سیکٹر میں سٹے بازوں کے کردار کے بارے میں استفسار کیا گیا ہے تو انھوں نے کہا کہ سٹہ کیا ہے۔ انگریزی میں یہ فاروڈ بکنگ ہوتی ہے جیسے سٹاک مارکیٹ اور دوسری اجناس کے شعبوں میں فارورڈ بکنگ ہوتی ہے اسی طرح اس شعبے میں بھی ہوتی ہے لیکن اسے غلط رنگ دیا گیا ہے۔

کیا 80 روپے فی کلو میں چینی فراہم ہو رہی ہے؟

چینی کا بحران

سکندر خان نے عدالت کی جانب سے 80 روپے فی کلو میں چینی کی فراہمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چیزوں کی قیمتیں عدالتی احکامات پر نہیں، رسد و طلب کے اصول پر طے ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا اگر چینی کی قیمت بڑھی تو اس میں کچھ بد انتظامی کو بھی دخل تھا جیسے کہ اگر حکومت شوگر ملوں کو کرشنگ سیزن سے پہلے خام چینی درآمد کرنے کی اجازت دے دیتی تو چینی کی قیمت مستحکم رہتی۔

انھوں نے کہا انتظامی فیصلوں کے ذریعے چینی کے سٹاکس اٹھا کر لے جانے سے چینی کی قیمت کو ایک مخصوص نرخ پر نہیں بیچا جا سکتا۔ انھوں نے کہا جب چینی مہنگی پیدا ہو گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شوگر ملیں سستے داموں چینی فروخت کریں۔

وسیم غفار نے اسی روپے فی کلو پر چینی فراہم کرنے کے عدالتی حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ چیزوں کے نرخ مارکیٹ فورسز طے کرتی ہیں نہ کہ عدالتی اور انتظامی احکامات کے ذریعے انھیں مقرر کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو چار روز تو اتنظامیہ کے ذریعے اسے نیچے لایا جا سکتا ہے لیکن یہ عمل دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔

اس بارے میں وحید ممین نے کہا اگر انڈیا سے چینی درآمد ہوتی تو وہ 70 روپے فی کلو میں ملک میں درآمد ہوتی جو اخراجات کے ساتھ 80 روپے فی کلو میں دستیاب ہو سکتی تھی تاہم حکومت نے یہ سمری مسترد کر دی ہے۔

انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے سستی چینی بیچنے کے لیے انتظامی حربے استعمال کرنے کی وجہ سے اس وقت کراچی کی اناج منڈی سے چینی غائب ہو چکی ہے۔

عامر نوید نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں چینی کے چار مختلف نرخ چل رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کے بچت بازار میں یہ 65 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، یوٹیلٹی سٹور پر 67 روپے فی کلو جو حکومت رعایتی نرخوں پر انھیں فراہم کر رہی ہے، بڑے سٹوروں پر 85 روپے فی کلو اور اوپن مارکیٹ میں یعنی عام دکانوں پر یہ 100 روپے فی کلو سے بھی زیادہ پر بک رہی ہے۔

عدالت کی جانب سے چینی کی قیمت مقرر کرنا کیا صحیح ہے؟

شوگر

عدالت کی جانب سے چینی کی قیمت مقرر کرنے پر ممبر سندھ بار کونسل حیدر امام رضوی نے کہا ان کے خیال میں عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلے نہیں ہونے چاہیے کیونکہ یہ معاشی اور انتظامی فیصلے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا عدالتیں عوامی مفاد میں ان درخواستوں پر فیصلے تو سنا دیتی ہیں جو چیزوں کے نرخ سے متعلق ہوتے ہیں تاہم ان پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ انھوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں چینی اور پٹرول کی قیمتوں مقرر کرنے کے عدالتی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان پر عمل نہیں ہو سکا۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی کارروائی پر رپورٹ کرنے والے انگریزی اخبار کے رپورٹر حسنات ملک نے بھی عدالتی احکامت کے ذریعے چینی کی قیمت مقرر کرنے کو صحیح قرار نہیں دیا۔

انھوں نے کہا عدالت کی نیت پر تو شک نہیں ہو سکتا تاہم پرائس کنٹرول عدالت کا کام نہیں۔ انھوں نے کہا اصل میں حکومتوں کی رٹ اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے اپنا کام کرانا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

حسنات نے کہا لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا اطلاق صرف پنجاب میں ہوتا ہے اس لیے اگر اس نے چینی کی قیمت مقرر کر بھی دی ہے تو اس کا اثر ملک کے دوسرے صوبوں میں چینی کے نرخوں پر نہیں پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp