آئی اے رحمٰن: ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا


کچھ منظر ہیں جن سے ایک نامکمل کہانی ترتیب پاتی ہے۔

سنہ 1980 ء کی دہائی کے آخری اور 1990 ء کے ابتدائی چند سال۔ ایک طالبعلم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر واقع گلبرگ میں بطور والنٹیر اپنا نام درج کروانے کے لئے فارم حاصل کرنے جاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد کسی دوست سے ذکر ہونے پر اس کی خاطر فارم کے حصول کے لئے دو ایک بار پھر اسی دفتر میں جانا ہوتا ہے۔ نسبتاً بھاری جسامت اور متین چہرے والی ایک شخصیت اپنے میز پر بیٹھے ہمیشہ کچھ لکھتی یا کسی ضخیم رپورٹ کی ورق گردانی میں مصروف نظر آتی ہے۔

”یہ رحمن صاحب ہیں۔“
”آئی اے رحمن؟ وہ جو پاکستان ٹائمز میں لکھتے ہیں؟“
”ہاں وہی!“

کبھی کبھار کوئی ملاقاتی بھی سامنے کی کرسی پر بیٹھا ہوتا جس کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دھیمے لہجے میں مکالمہ جاری ہوتا۔

٭ ٭ ٭

روزنامہ ”ڈان“ کا لاہور سے اجرا۔ ملک کے دیگر اہم کالم نویسوں کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ بعد آئی اے رحمن کا کالم بھی باقاعدگی سے ہر ہفتے شائع ہونے لگتا ہے۔ اپنے موقف کی حمایت میں محکم دلائل لیکن لہجہ شائستہ، زبان دلنشیں اور رواں، لفظ و معانی کا الجھاؤ ناپید۔ جمعرات کا بے چینی سے انتظار رہتا کہ اس دن انگریزی زبان کے دو عمدہ کالم ایک ہی روز ”ڈان“ کے ادارتی صفحے پر پہلو بہ پہلو نظر نواز ہوں گے : فقیر سید اعجاز الدین اور آئی اے رحمن۔

٭ ٭ ٭

لمز (LUMS) میں اظہار رائے کی آزادی پر توسیعی لیکچر۔ مہمان مقرر کا تعارف کرواتے ہوئے میزبان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا جملہ دہراتا ہے :

IA Rehman is the only person who can say the most controversial things while remaining uncontroversial. He has always spoken with sincerety and without any greed.

رحمن صاحب ایک گھنٹے سے زائد گفتگو میں موضوع کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ روانی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کچھ مقامات پر ایسا انداز اختیار کرتے ہیں کہ حاضرین کو، جن میں بیشتر نوجوان طلبہ و طالبات ہیں، سوال کی تحریک ہو۔ لیکچر کے بعد اسی رسان سے ہر اچھے برے، معیاری اور غیر معیاری سوال کا جواب دیتے ہیں جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

٭ ٭ ٭


سنہ 2018 ء کے آخری چند ماہ۔ ایک روز جمعے کی شام دفتر سے واپسی پر قاسم جعفری کا فون آتا ہے :
”بھئی کہاں گم ہیں آپ؟ زندہ سلامت؟“
”جی ہاں بالکل۔ خیر باشد؟“
”آج آئی اے رحمن صاحب آپ کی بڑی تعریف کر رہے تھے۔“
”ذرہ نوازی ہے ان کی، ورنہ من آنم کہ من دانم!“

”وہ آپ کی کتاب ہے ناں ’ہندوستان کی موسیقی‘ جو آکسفرڈ سے شائع ہوئی تھی، انھوں نے پڑھی ہے اور آج نیرنگ گیلری کی بیٹھک میں بڑے اچھے الفاظ سے ذکر کر رہے تھے۔“

”شکریہ۔ میری خوش نصیبی ہے کہ انھوں نے میری طالبعلمانہ کاوش کو سراہا۔“

”مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ آپ کو مولانا عبدا لحلیم شرر کا ایسا ہمعصر سمجھ رہے تھے جس نے شرر کی وفات کے بعد ان کے اس مقالے کی تدوین و ترتیب کی تھی، ہا ہا ہا! اس پر میں نے رحمن صاحب کو بتایا کہ اس کتاب کے مرتب تو عمر میں مجھ بھی کہیں چھوٹے ہیں اور اسی شہر میں پائے جاتے ہیں۔“

”واہ، یہ خوب رہی!“
”بس آپ اگلی بیٹھک میں ضرور تشریف لائیے گا تاکہ رحمن صاحب کو میری بات کا یقین آ سکے۔“
٭ ٭ ٭

نیرنگ گیلری، جیل روڈ، لاہور۔ بیٹھک کی ماہانہ نشست کے مہمان آ کر بیٹھ رہے ہیں۔ رحمن صاحب اپنے مخصوص دھیمے انداز میں چلتے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ قاسم جعفری آگے بڑھ کر میرا تعارف کرواتے ہیں :

”رحمن صاحب! یہ ہیں وہ اطہر مسعود جنھیں آپ عبدالحلیم شرر کا دوست اور معاصر سمجھ رہے تھے۔“

میں رحمن صاحب کے برابر والی نشست پر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بڑی شفقت سے حال احوال پوچھنے کے بعد کتاب کے حوالے سے میرے کام کی تعریف کرتے ہیں : ”مجھے امینہ سید نے اپنے ادارے کی تازہ مطبوعات کا ایک سیٹ بھجوایا تھا۔ آپ کی مرتبہ ’ہندوستان کی موسیقی‘ اس میں شامل تھی۔ بڑی محنت کی ہے آپ نے اس کتاب پر۔“

میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں : ”جی ہاں! در اصل یہ آل انڈیا موسیقی کانفرنس میں مولانا عبدالحلیم شرر کی جانب سے پیش جانے والا کلیدی مقالہ ہے جس میں مولانا نے عرب، ایرانی اور بر صغیر کی موسیقی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ تقریباً ً سو برس پہلے شائع شدہ اس اہم اور طویل مقالے کی از سر نو ترتیب اور اس میں موجود علمی اور تاریخی نکات کی مستند حوالوں سے وضاحت بڑی ضروری تھی۔“

”موسیقی میں آپ کی دلچسپی خوب ہے۔ اس سے پہلے بھی اس موضوع پر کوئی کام کیا ہے آپ نے؟“

”جی ہاں، امیر مینائی کی ’نغمۂ قدسی‘ کا فارسی سے اردو ترجمہ اور دیگر بھی کچھ طالب علمانہ کاوشیں ہیں۔“

”مجھے بھجوائیے۔ میں ضرور پڑھنا چاہوں گا۔“
٭ ٭ ٭

کچھ دن بعد میں اپنی چند کتابیں ہیومن رائٹس کمیشن کے دفتر بھجوا دیتا ہوں۔ فون پر بتایا جاتا ہے کہ رحمن صاحب باقاعدہ نہیں، مگر کبھی کبھار آتے ہیں۔ کتابیں ان تک پہنچ جائیں گی۔ قریب ایک ہفتہ بعد مجھے موبائل فون پر ایک نامانوس نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے جس میں کتابوں کی وصولی کی تصدیق کے ساتھ ایک بار پھر تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایس ایم ایس کی کمپوزنگ بتا رہی ہے کہ یہ رحمن صاحب نے خود کمپوز کیا ہے۔ میں اپنے سامنے بیٹھے ایک کولیگ سے اپنی خوشی شیئر کرتا ہوں تو وہ رشک و تحسین سے یہ محاورہ دہراتے ہیں : پیری و معرکہ گیری! اٹھاسی برس کی عمر میں اس قدر منظم اور چست؟ اللہ تعالی صحت و سلامتی قائم رکھے!

12 اپریل 2021ء۔ سوشل میڈیا پر رحمن صاحب کی وفات کی خبر ملتی ہے۔ ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments