سفید انقلاب سے اسلامی انقلاب کی طرف سفر


سن 1963 میں اس وقت کے ایرانی وزیراعظم اسداللہ اعلم نے بلدیاتی کونسلز کے انتخابات کے اندر اصلاحات کا عمومی قانون پیش کیا جس کے مطابق آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کر دی گئی، حلف لینے کے لیے قرآن مجید کی جگہ ”آسمانی کتاب“ کے لفظ کو شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت بھی دے دی گئی جو اس پہلے خواتین کو حاصل نہیں تھی۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ اقلیتوں کو پہلے بھی ان شرائط سے استثنیٰ حاصل تھا اور نیا قانون عمومی طور پر پیش کیا گیا تھا۔

امام خمینی نے اس قانون کی مخالفت میں آواز اٹھائی اور کہا کہ ہم خواتین کے ووٹ دینے کے مخالف نہیں ہیں لیکن حقوق نسواں کی آڑ میں جو مذموم مقاصد موجود ہیں، ان کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ امام خمینی نے اپنے گھر پر علماء کو مدعو کیا، میٹنگ کے بعد اس نئے قانون کے خلاف ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ امام خمینی نے اس قانون کے خلاف اتنی شدت پیدا کر دی کہ حکومت کو یہ قانون کالعدم قرار دینا پڑا۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جب پہلی مرتبہ امام خمینی اور حکومت کے درمیان عملی طور پر کسی مسئلے پر آمنا سامنا ہوا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں سوشلزم اور امپیریلزم کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آ چکے تھے۔ کمیونسٹ طاقت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور اپنی فتوحات کے نتیجے میں کئی ممالک پر اپنا پرچم لہرا چکی تھی۔ چین کا انقلاب، کیوبا اور وینزویلا کے اندر کمیونسٹ تحریکوں کا کامیاب ہونا، عراق، لیبیا، الجزائر، حتیٰ کہ یورپ کو بھی کمیونسٹ تحریکوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سوشلزم، امپیریلزم کے مضبوط قلعے مسمار کرتا جا رہا تھا اور امریکہ پر شدید بوکھلاہٹ طاری تھی۔ کمیونزم کی انہی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ نے اپنے زیر دست ملکوں کی مدد کرنا شروع کی تاکہ کمیونزم کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی زمانے کے علوم اور نظریات کی بات ہو، ایران ہمیشہ سے اس زمانے کے علوم اور نظریات میں پیش پیش رہا ہے۔ قبل از اسلام یا بعد از اسلام، سر زمین ایران سے بہت بڑے فیلسوف، دانشور، اور سائنس دان سامنے آتے رہے ہیں۔ از جملہ اس زمانے میں کمیونزم کا بھی نظریاتی مرکز ایران بن چکا تھا۔ ایران کے اندر ڈاکٹر آرانی جیسے فلاسفر موجود تھے جنہوں نے دنیا بھر میں کمیونزم کے نظریہ کو علمی بنیادوں پر قوی کیا۔

ایران کے اندر بھی کمیونسٹ پارٹی روز بہ روز مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی لہٰذا امریکہ نے ایران جیسے اہم ملک میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کے لیے انہی کے ہتھیار کا استعمال شروع کیا۔ امریکہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ، شاہ ایران نے ”انقلاب سفید“ کا اعلان کیا اور اس کے چھ اہم اصول عوام کے سامنے پیش کیے۔ بعد میں ان اصولوں میں اضافہ کر دیا گیا لیکن آغاز میں اس انقلاب کے جو اصول عوام کے سامنے پیش کیے گئے ، ان میں اراضی کی اصلاحات (جاگیرداروں سے زمینیں لے کر کسانوں کو دینا) ، جنگلات کو قومی ملکیت میں لانا، پارلیمانی انتخابات کے قوانین میں اصلاحات، عورتوں کو ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی بھی اجازت کا ملنا، حکومتی کمپنیوں میں عوام کو حصہ دار بنانا، مزدوروں کو کمپنیوں کے شئیرز میں شریک کرنا، تعلیم بالغاں کا آغاز وغیرہ۔ یہ وہ اقدامات تھے جو اس وقت کی مضبوط ترین کمیونسٹ پارٹی حزب تودہ کے اہم مطالبات میں شامل تھے اور شاہ کے اس انقلاب سفید نے کمیونسٹوں کو سرگردانی میں مبتلا کر دیا۔ اس طرح امریکہ نے شاہ کی مدد سے سوشلسٹوں کے اپنے ہتھیار سے ہی ان کو سرکوب کر دیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذہبی تحریکوں کو کبھی بھی شاہ نے سنجیدہ نہیں لیا تھا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس زمانے میں علماء اور اہل مذہب تمسخر کی وجہ بن چکے تھے۔ ان کو سیاسی و علمی لحاظ سے پسماندہ ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں شاہ ایران کمیونسٹوں سے شدید خوف کھاتا تھا جبکہ امام خمینی کی ابھرتی ہوئی تحریک کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں علماء کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ طبقہ اس قابل ہے کہ حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکے۔ اور یہی اس بات کی دلیل بھی ہے کہ حکومت کی طرف سے انقلاب سفید کا اعلان ایک امپورٹڈ نظریہ تھا جس کا مقصد ایران کے اندر کمیونسٹ تحریک کا راستہ روکنا تھا۔

شاہ نے ان اصلاحات پر ریفرنڈم کا اعلان کیا، امام خمینی نے ان اصلاحات کی ایک بار پھر مخالفت کی اور کہا کہ ہمیں انقلاب سفید نہیں بلکہ انقلاب اسلامی چاہیے۔ علماء کی طرف سے بڑھتے ہوئے اعتراضات کی وجہ سے شاہ نے قم کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ یہاں امام خمینی نے عوام اور علماء سے کہا کہ کوئی بھی شاہ کے استقبال کے لیے نہ جائے اور ایسا ہی ہوا۔ جب شاہ قم میں داخل ہوا تو چند سیاسی افراد کے علاوہ کوئی بھی اس کے استقبال کے لیے موجود نہ تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب پہلی مرتبہ شاہ کو دینی قیادت سے خطرہ محسوس ہونا شروع ہوا۔ شاہ نے قم کے اندر اپنی تقریر میں اور واپس تہران جا کر بھی علماء کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ریفرنڈم کا وہی نتیجہ ہو ا جو طاغوتی حکمرانوں اور ڈکٹیٹرز کی حکومتوں میں ہوا کرتا ہے، انقلاب سفید کو سو فیصد حمایت حاصل ہوئی، ملک بھر میں مبارک بادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی شاہ کے اسلام مخالف اقدامات میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے انقلاب اسلامی کی تحریک میں مزید تیزی آ گئی۔ ان واقعات کا تجزیہ و تحلیل آئندہ اقساط میں پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments