جناب آئی اے رحمان، آپ کو آخر جانا ہی تھا


آئی اے رحمان کو بھی ایک دن جانا ہی تھا اور وہ چلے گئے، ہر دل عزیز شخصیت کے انتقال کے صدمہ سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے، یہ نظام قدرت ہے، اس کے آگے کسی کا زور نہیں۔ جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس صدمہ سے گزرنا ہی پڑتا تھا، سبھی کو یہ صدمہ سہنا ہی تھا لیکن رحمان صاحب کے صدمہ نے ہر ایک کو نڈھال کر دیا ہے کیونکہ آپ نے جس معاشرے میں انسانی حقوق کا علم بلند کر رکھا تھا، وہ صرف آپ ہی کا کام تھا، ان کے جانے کے بعد علم ہوا کہ وہ تو ہم سب کے اندازوں سے بھی بہت زیادہ بڑے انسان تھے، ان کی وفات پر ملکی، عالمی سطح پر جس طرح کا افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کی خدمات پر مضامین لکھے جا رہے ہیں اور آن لائن تعزیتی پروگراموں کے ذریعے ان کی خدمات کا اظہار اور اقرار ہو رہا ہے، لگتا یہ کہ رحمان صاحب مرنے کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں۔

ہر طرف ان کی خدمات کا چرچا ہے کہ وہ کیا سوچتے تھے، کیا کرتے تھے، کیا کہتے تھے، بہت کچھ نیا ان کی موت کے بعد سامنے آیا ہے۔ آپ کے اندر بیک وقت کئی انسان چھپے تھے، کسی نے انسانی حقوق کا علم پکڑ رکھا ہے اور کسی نے سچ کی صحافت کا علم بلند کر رکھا تھا، آپ کی طویل زندگی انسانی حقوق کے دفاع اور فروغ کی جدوجہد سے عبارت ہے، آپ ورکشاپوں، انسانی حقوق کی کانفرنسوں کی رونق اور شان ہوا کرتے تھے، احتجاجی مظاہروں میں مظلوموں، جبر کا شکار طبقوں کی آواز بنا کرتے تھے، خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں بھی آپ کی علمی، قلمی اور عملی کاوشیں غیر معمولی رہی ہیں اور انسانی حقوق کے طالب علموں کو ان سے ہمیشہ رہنمائی ملتی رہے گی۔

مزدوروں کے لئے آپ کی جدوجہد آپ کو مزدوروں کے دلوں میں زندہ رکھے گی۔ آپ نے صحافت کے شعبہ میں بھی اعلیٰ پائے کی صحافت کی تھی۔ آپ کے شاگردوں اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور وہ دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ قانون کے احترام کے دائرہ میں رہ کر اپنی جدوجہد کی تھی، وہ بکنے والے تھے اور نہ جھکنے والے، انتہائی وقار اور شان کے ساتھ ایچ آر سی پی کی قیادت کی۔ ایچ آر سی پی کی آبیاری میں آپ کے شب و روز کی محنت پنہاں ہے، اردو انگریزی زبان میں ان کے ہاتھوں کی لکھی تحقیقی رپورٹیں اور مقالے انسانی حقوق کی جد و جہد کے لیے نایاب اثاثے کا درجہ رکھتے ہیں جن کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔

ہر سال منعقد ہونے والی سالانہ جنرل میٹنگوں کی آپ رونق ہوا کرتے تھے، آپ نے ان کو وہ جلا بخشی جو بس آپ ہی کا خاصہ تھا۔ بحیثیت ڈائریکٹر اور جنرل سیکرٹری آپ نے ایچ آر سی پی ادارہ کو تنظیمی لحاظ سے وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر آج یہ مضبوطی سے قائم ہے۔ آپ نے انتہائی فراخدلی سے اپنی مثبت سوچ کو تمام مظلوم طبقوں کے لئے وقف کر رکھا تھا، کسی کے ساتھ کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔ ان میں بڑھاپے میں بھی جوانوں سا دم خم تھا۔

رحمان صاحب ایسے کارواں کے امیر تھے جس کو وحشی درندوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے لیکن وہ اپنی فراست، تدبر، بہادری سے کارواں کو لئے منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ زندگی میں تو وہ سبھی کی آنکھوں کا تارہ تھے لیکن ان کے جانے کے بعد جس طرح صف ماتم بچھی، اس سے پتہ چلا کہ واقعی ایک بڑا انسان چلا گیا ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان۔ یہ دونوں ہی ”پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق“ کے ایسے بلند و بالا اور روشن مینار تھے جنہوں نے اقوام عالم کے کونے کونے میں انسان دوستی کا پر چار کیا اور ملک کا نام روشن کیا تھا۔

آئی اے رحمان نے اپنی زندگی میں ایچ آر سی پی کو انسانی حقوق کی پاسداری کی ایسی عمارت میں بدل دیا تھا جس کی نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں بطور ایک آزاد کمیشن شناخت ہوئی تھی۔ نیشنل اور انٹرنیشنل پروگراموں کے انعقاد میں آپ کا کردار بحیثیت ڈائریکٹر اور جنرل سیکرٹری غیر معمولی رہا ہے اور عالمی ادارے اور شخصیات یہاں آنا اپنے لئے باعث فخر سمجھنے لگے تھے۔ مجھے بھی بہت سی ایسی عالمی شخصیات کی آمد پر نہ صرف شامل ہونے بلکہ بولنے کے مواقع بھی ملے، میرے ساتھ انہوں نے ہمیشہ محبت، شفقت کا سلوک کیا، میری باتوں کو انتہائی توجہ سے سنا کرتے تھے اور درجنوں بار اہم میٹنگوں میں شمولیت کے مواقع فراہم کیے ۔

جناب رحمان صاحب عاجزی اور سادگی کا پیکر تھے، دانش کا ایک مینار تھے۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے پلیٹ فارم سے انسانی حقوق، سماجی انصاف و مساوات، انسانی احترام، انسانی اقدار اور سیاسی و شہری حقوق کی بالادستی اور ان کے فروغ کے لیے جو کچھ کیا وہ سنہرے لفظوں سے لکھا جانے کے قابل ہے۔ آپ نے پاکستان ایسے معاشرے میں سچ اور بہادری کے ساتھ مظلوم اور جبر کا شکار طبقوں کا جس بہادری، فراست، تدبر کے ساتھ ساتھ دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

رحمان صاحب ایسے دیوتا تھے جن کا دل صرف مظلوموں کے لئے دھڑکتا تھا، ان کا قلم انہی طبقات کے حق میں لکھتا تھا جن کی زندگیوں کو انتہا پسند قوتوں اور قوانین نے جبر کے زور پر اجیرن بنا رکھا ہوتا ہے۔ رحمان صاحب کی زندگی انسانی حقوق کا ایک ایسا باب ہے جو انتہائی شاندار کارناموں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے نے جتنے بھی بڑے بڑے نام پیدا کیے ہیں ان میں رحمان صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ لاہور کے گارڈن ٹاؤن میں واقع ”انسانی حقوق کمیشن برائے انسانی حقوق“ کے ایک چھوٹے سے کمرہ میں بیٹھنے والے ایک انسان نے اپنے قلم، اپنی سوچ اور اپنے عمل و کردار سے جو چراغ روشن کیے تھے ان کی کرنوں سے پاکستان، بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک منور ہوئے تھے۔

آئی اے رحمان صاحب جب بھی بولتے تھے تو لفظوں سے دانش ٹپکتی تھی، آپ نے جب بھی لکھا تو انصاف، مساوات کی بات لکھی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا، جملوں سے انسانی ہمدردی نکلتی تھی۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک آپ کی شفقت و رہنمائی میسر رہی، ان کے پاس بیٹھ کر بھی، دور بیٹھ کر بھی ان کو سنا، ان کو پڑھا تو نیا اور بہت ہی خوب پڑھنے کو ملا۔ ان کے مضامین خواہ قومی اخبارات میں شائع ہوں یا ”جہد حق“ میں، ہر جگہ انسانی حقوق کے احترام، دفاع اور ان کے فروغ ہوتا تھا۔ آج وہ نہیں رہے لیکن ان ان کے روشن کردہ چراغوں کی روشنی سے انسانوں کو ظلم و ستم سے بھرے معاشرے میں پھیلے اندھروں میں آگے بڑھنے کی راہیں ملتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments