آئن الئن نظام تعلیم کو ہاں کہیے



ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ”پتھر کا زمانہ“ میں لکھتے ہیں کہ تاریخ میں جب کسی ایجاد یا کسی فکر کے ذریعے تبدیلی آتی ہے تو زمانہ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ مگر تبدیلی کا یہ عمل بہت آہستہ اور سست ہوتا ہے۔ اس دوران میں ایک درمیانی عہد ہوتا ہے جس میں پرانی اور نئی چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آتا ہے کہ پرانی چیزیں بالکل ختم ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔

یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے تبدیلی کی وجوہات ایجاد اور فکر کو قرار دیا ہے میں ایک اور وجہ کا اضافہ کرنا چاہوں گی اور وہ وجہ ہے حادثہ یا پھر آپ اسے قدرتی آفت کا نام دے سکتے ہیں۔ حالیہ قدرتی آفت کو ہی دیکھ لیجیے جس نے وبا کے چابک سے زمانے کو ایک نئے دور میں داخل کیا جس کی وجہ سے ہر شعبہ زندگی کو تبدیلی سے دوچار ہو نا پڑا۔ تبدیلی کے ڈھسے ہوؤں میں تعلیمی اداروں کی حیثیت بھی کلیدی ہے اس تبدیلی کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو جو خزیمت اٹھانی پڑی وہ آئن الئن نظام تعلیم ہے۔

یہ خزیمت اٹھانے میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں سے خاصی رفتار سے آگے کو ہیں کیونکہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں بالخصوص درجہ پرائمری سے لے کر درجہ سیکنڈری تک اس سلسلے میں کوئی خاطرخواہ قدم نظر سے نہیں گزرا۔ ہاں البتہ ٹیلی وژن پر سبق دکھانے کی کوشش سامنے آئی لیکن اس ے خاطر خواہ نہیں کہا جا سکتا۔ آئن الئن نظام تعلیم میں بڑی رکاوٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خود ہے دوسری بڑی رکاوٹ جمود کا شکار قدیم ذہنیت ہے جو جدید دور کی تبدیلیوں کو قبولنے سے عاری ہے کیونکہ تبدیلی جمود کی موت ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے گورنمنٹ تعلیمی ادارے ایسی ہی پسماندہ اور قدیم سوچ سے مزین و آراستہ ہیں۔ ) حالیہ ثبوت آئن الئن نظام تعلیم کو ”نہیں“ کہنا ( حکومتی نمائندوں سمیت یہ بات سب کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے سانس اور تبدیلی کو اپنانے کی برابر ضرورت ہوتی ہے جو لوگ تبدیلی کو نہیں اپناتے ان کا حال اس تانگے والے جیسا ہوتا ہے جو رکشہ ایجاد ہونے پر بھی تانگہ چالنے پر مصر رہا اور اس کا خاتمہ فاقہ کشی پر ہوا۔

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب انسان کو خوشی نا خوشی تبدیلی کو اپنانا پڑا کیونکہ یہ ضروری تھا بحیثیت انسان زندہ رہنے کے لیے۔ پتھر کے زمانے کے انسان کو ہی لے لیجیے جو ننگ دھڑنگ جنگلوں میں گھومتا پھرتا تھا یقیناً اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہو گا جس نے اسے لباس پہننے پر مجبور کیا ہو گا یا پھر عین ممکن ہے گرمی، سردی لباس کے ایجاد ہونے کی وجہ ہو۔ اس زمانے میں لباس کا مخالف گر وہ ضرور وجود رکھتا ہو گا اور یقیناً سرواؤ نہیں کر پایا ہو گا۔ لہذا تعلیمی ادار وں سے تعلق رکھنے والے ہر چھوٹے بڑے عہدہ داران سے گزارش ہے کہ ”ہاں“ کہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments