تحریکِ لبیک کے خلاف کارروائی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے پر کی گئی: عمران خان


وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے ٹی ایل پی کےخلاف کارروائی انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کی ہے۔(فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مغرب میں دائیں بازوں کے سیاست دان اور آزادئ اظہار کی آڑ میں مذہبی منافرت پھیلانے والے انتہا پسندوں میں اپنے رویے پر ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں سے معافی مانگنے کی جرات ہونی چاہیے ۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ ان انتہا پسندوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ مغربی حکومتوں، جنہوں نے ‘ہولوکاسٹ’ پر منفی تبصروں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسی معیار کو اپناتے ہوئے ان انتہا پسندوں کو سزا دیں جو جان بوجھ کر مسلمانوں کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں سے اپنی نفرت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کے حوالے سے کہا کہ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی اس لیے کی کیوں کہ انہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا اور سڑکوں پر تشدد کرنے سمیت عوام اور قانون نافذ کرنے والوں پر حملے کیے۔

وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اس تناظر میں کوئی بھی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے ٹی ایل پی کےخلاف کارروائی انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کی۔

عمران خان نے کہا کہ بیرون ملک اسلاموفوبیا اور نسل پرستی میں ملوث انتہا پسند سن لیں پییغمبرِ اسلام ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ بیرون ملک انتہا پسند ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ مسلمان سب سے زیادہ پیار اور احترام پیغمبرِ اسلام کا کرتے ہیں۔ وہ ان کی بے حرمتی کو برداشت نہیں کریں گے۔

وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب حکومت نے مذہبی جماعت ٹی ایل پی پر پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندی عائد کی ہے۔

اس وقت جماعت کے کارکنوں اور قیادت کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

مذہبی جماعت کے ساتھ حالیہ دنوں میں ہونے والی جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

‘کسی عالمی طاقت کے دباؤ پر ٹی ایل پی پر پابندی نہیں لگائی’

پاکستان کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مذہبی جماعت کے خلاف کارروائی اور اسے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کسی ملک یا بین الاقوامی طاقت کے زور، ڈر یا دباؤ پر نہیں کیا۔ بلکہ یہ فیصلہ حکومت کا تھا۔

راولپنڈی میں ٹی ایل پی کے احتجاج میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی اسپتال میں عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ اس فیصلے میں سب سے پہلے وزارتِ داخلہ، اس کے بعد ہر صوبے کی حکومت نے مل کر ایکشن لیا اور ثابت کیا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسے فتنے جن سے ملک کمزور ہو۔ دنیا میں ملکی ساکھ متاثر ہو۔ ان کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ جو چاہیں کرتے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست بالکل کمزور نہیں۔ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو وہ دور کر لے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور مختلف نقطۂ نظر والوں کے مؤقف کو سنا جاتا ہے۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ لیکن کوئی یہ سمجھے کہ ہم حکومت کو بلیک میل کر لیں گے یا حکومت کو طاقت کے زور پر زیر کریں گے تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرلے۔

انہوں نے کہا کہ اب تحریک لبیک ختم ہو گئی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے اس فتنے کو ناکام بنایا۔ ہم نے مجبوری میں سوشل میڈیا پر عارضی طور پر پابندی لگائی تھی۔ جس پر ہم معذرت خواہ ہیں۔

پاکستان میں حالیہ عرصے میں وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے متعدد بار اسلامو فوبیا کے حوالے سے بیانات جاری کیے گئے ہیں۔

اسلامو فوبیا کے معاملے پر وزیرِ اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کئی بار بات کی ہے اور اسلام کا مثبت تاثر اجاگر کرنے کے لیے پاکستان، ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر ایک ٹی وی چینل بھی بنانے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان میں حال ہی کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب کہ جماعت کے نئے قائد سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مختلف مقامات پر دھرنے دیے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے بیشتر مقامات پر بزور طاقت یہ دھرنے ختم کرائے اور سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا۔

حکومت نے جمعے اجتجاج کے خدشے کے پیشِ نظر چار گھنٹوں کے لیے متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کر دیے تھے۔ جب کہ 20 اپریل کو ٹی ایل پی کی دی گئی ڈیڈ لائن کے خاتمہ کے بعد بھی ان کے کارکنوں کی طرف سے احتجاج کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments