پاکستان میں کرونا کی تیسری لہر: سندھ میں صورتِ حال قدرے بہتر کیوں؟


ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ شہریوں کے حفاظتی اقدامات کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عوام کے حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہ کرنے کے باوجود اس سے بچے رہنا قدرت ہی کا تحفہ ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے زیرِ انتظام کشمیر کرونا وبا کی تیسری شدید لہر کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ جہاں کرونا وائرس کی برطانوی اور جنوبی افریقی اقسام زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

حیرت انگیز طور پر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں میں وبا کی تیسری لہر کے اثرات اب تک کم رہے ہیں۔

پاکستان میں کرونا وبا پر نظر رکھنے کے لیے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رواں ہفتے جمعے کو روز ریکارڈ 65 ہزار سے زائد ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے مثبت کیسز کی شرح 7.62 فی صد رہی۔ جب کہ صرف صوبہ سندھ میں ایک ہفتے میں مثبت کیسز کی شرح 4.18 فی صد ریکارڈ کی گئی۔

سندھ میں جمعرات کے روز 11 ہزار سے زائد کرونا ٹیسٹ کیے گئے۔ جن میں 561 میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔ یوں مثبت کیسز کی شرح ایک دن میں 4.8 فی صد رہی۔ جب کہ صوبے بھر میں وبا کے سبب تین افراد ہلاک ہوئے۔

‘کم کیسز کی وجہ احتیاطی تدبیر نہیں بلکہ قدرت کی مہربانی’

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ شہریوں کے حفاظتی اقدامات کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انڈس اسپتال میں ‘انفیکشیز ڈیزیز ڈپارٹمنٹ’ کی سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ عوام کی جانب سےحفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نظر نہ آنے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود اس سے بچے رہنا قدرت ہی کا تحفہ ہے۔ لیکن احتیاطی تدابیر کو اختیار کیے بغیر اس وبا سے بچاؤ ممکن نہیں۔

انہوں نے شہریوں کی جانب سے متعدد بار حکومتی اعلانات کے باوجود بھی توجہ کم دیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ایک روز میں سامنے آنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کیسز ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا غیر ذمہ دارانہ رویہ وبا کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور ملک میں ویکسی نیشن کی رفتار بھی بے حد کم ہے جسے تیز کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔

برطانوی اور جنوبی افریقی وائرس کے کیسز کی شرح 75 فی صد

ادھر جامعہ کراچی کے ‘ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ’ کے تحت کی جانے والی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جب کہ کسی ممکنہ خطرناک صورتِ حال سے پچنے کے لیے اس وبا پر فوراً قابو پانے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی’ کی نئی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس مثبت کیسز کے 50 فی صد کیسز برطانیہ کے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس کے ہیں۔ جب کہ 25 فی صد کیسز جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے تبدیل شدہ وائرس کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق کراچی سے لیے گئے نمونوں پر کی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔

ڈاکٹر اقبال کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کا سبب حکومتی ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر اقبال کا کہنا تھا کہ یہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس بہت طاقتور ہیں۔ جو بہت مختصر وقت میں ملک کی بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

ان کے بقول تحقیقی سطح پر وائرس کی جینیاتی تبدیلی کی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کے وائرس سے متعلق دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ وائرس اُن لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے جنہیں ویکسین لگائی جا چکی ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی یہ قسم نہ صرف متعدی ہے بلکہ اس کی تشخیص بھی ایک مشکل امر ہے جس کے مثبت یا منفی ہونے کی تصدیق، جدید تجزیاتی سہولت سے بھی نہیں ہو پاتی۔ ایسے میں وہ ممالک جہاں جینیاتی سطح پر تحقیقی سہولیات کم ہیں، وہاں صورتِ حال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مختصر وقت میں ملک کی بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ کیوں کہ جنوبی افریقہ اور برازیل سے آنے والی وائرس کی قسم زیادہ خطرناک ہے جب کہ برطانوی وائرس کے پھیلنے کی شرح کافی زیادہ ہے۔

ویکسی نیشن کا عمل تیز اور طبی عملے کی ویکسی نیشن

دوسری جانب ‘پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن’ نے این سی او سی کے سربراہ اور وفاقی وزیر اسد عمر کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکرز کی ترجیحی بنیادوں پر رجسٹریشن بحال کی جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب کرونا کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب اس خطرناک صورتِ حال میں طبی عملے کے لیے ویکسی نیشن کی ترجیحی رجسٹریشن گزشتہ ایک ماہ سے بند ہے۔ جو ان کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کا عمل تیز کیا جائے۔

تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ آبادی کے 70 سے 75 فی صد حصے کو ویکسینیٹ کرکے ہی اس وبا سے بچا جا سکتا ہے اور اگر اس میں جلدی کام نہ کیا گیا تو پولیو وائرس جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈاکٹرز کی ملک گیر تنظیم کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے تمام بالغ افراد کو شناختی کارڈ دکھانے پر موقع پر ہی رجسٹریشن کے بعد ویکسین لگائی جائے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments