گیانویاپی مسجد: انڈیا کی ایک اور متنازع مسجد کب اور کس نے بنوائی؟

سمیر آتمج مشر - لکھنؤ، انڈیا


بنارس کی گیانواپی مسجد میں مندر کی باقیات تلاش کرنے کے لیے انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کو ملنے والے عدالتی احکامات کے بعد ایک اور مندر مسجد تنازع زور پکڑتا نظر آ رہا ہے۔

اس تنازعے کو قانونی حیثیت بھی مل گئی ہے۔ سنی وقف بورڈ اور گیانواپی مسجد انتظامیہ نے ان احکامات کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بنارس میں کاشی وشوناتھ مندر اور اس سے جڑی گیانواپی مسجد، دونوں کی تعمیر سے منسلک مختلف قسم کے خیالات اور قصے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں پختہ تاریخی معلومات کی کمی ہے لیکن دعووں اور قصوں کی بھرمار ہے۔

عام خیال ہے کہ کاشی وشوناتھ مندر کو منہدم کروا کر مغل بادشاہ اورنگزیب نے یہاں مسجد بنوائی تھی، لیکن تاریخی دستاویزات کو دیکھ کر معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔

تاریخ دان کیا کہتے ہیں؟

چند تاریخ دانوں کے مطابق گیانواپی مسجد کو 14ویں صدی میں جونپور کے شرکی سلطانوں نے بنوایا تھا اور اس کے لیے یہاں پہلے سے موجود وشوناتھ مندر کو منہدم کیا گیا تھا۔ لیکن متعدد تاریخ دان اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ ان دعووں کو ثابت کرنے کے لیے معقول شواہد نہیں ہیں۔

نہ تو شرکی سلطانوں کے دور میں تعمیر ہونے والی کسی عمارت کے کوئی شواہد ملتے ہیں، نہ ہی کسی مندر کو منہدم کیے جانے کے ثبوت ملتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایودھیا میں ’نئی بابری مسجد‘ کیسی ہو گی، اس کے آرکیٹیکٹ کون ہیں؟

کیا بابری مسجد کسی مندر کی باقیات پر بنائی گئی تھی؟

جہاں تک وشوناتھ مندر کی تعمیر کا سوال ہے تو اس کا سہرا مغل بادشاہ اکبر کے نورتن میں سے ایک راجہ ٹوڈرمل کو جاتا ہے جنہوں نے 1585 میں بادشاہ اکبر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی تعمیر جنوبی انڈیا کے مقبول پنڈت نارائن بھٹ کی مدد سے کروائی تھی۔

بنارس کی کاشی ودیا پیٹھ یونیورسٹی کے سابق تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر راجیو دویویدی نے بتایا ‘وشوناتھ مندر کی تعمیر راجہ ٹوڈرمل نے کروائی تھی۔ اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوڈرمل نے دیگر تعمیراتی کام بھی کروائے تھے۔ ایک بات اور، یہ کام انہوں نے بادشاہ اکبر کے حکم پر کروایا تھا، لیکن یہ بات تاریخی طور پر پختہ نہیں ہے۔ راجہ ٹوڈرمل کی حیثیت بادشاہ اکبر کے دربار میں ایسی تھی کہ کوئی کام کرانے کے لیے انھیں بادشاہ اکبر کے حکم کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔’

پروفیسر راجیو دویویدی کے مطابق وشوناتھ مندر کی تاریخی اعتبار سے بہت پہلے سے اہمیت ہے، لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا مندر یہاں رہا ہو، اس بات کے شواہد نہیں ملتے اور تاریخ میں کہیں درج بھی نہیں ہے۔ یہاں تک ٹوڈرمل نے جو مندر بنوایا تھا وہ بھی بہت بڑا نہیں تھا۔

دوسری جانب یہ بھی خیال ہے کہ گیانواپی مسجد کی تعمیر مندر کو منہدم کرنے کے بعد ہوئی اور مندر توڑنے کا حکم بادشاہ اورنگزیب نے دیا تھا۔

گیانواپی مسجد

گیانواپی مسجد

گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم انجمن انتظامیہ مساجد کے مشترکہ نائب سید محمد یاسین کہتے ہیں کہ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ مسجد اور مندر دونوں ہی بادشاہ اکبر نے سنہ 1585 کے آس پاس نئے مذہب ‘دین الٰہی’ کے تحت بنائے گئے تھے۔ لیکن اس کے دستاویزی شواہد بہت بعد کے ملتے ہیں۔

سید محمد یاسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘بیشتر لوگ یہی مانتے ہیں کہ مسجد اکبر کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی۔ اورنگزیب نے مندر کو منہدم کیا تھا کیوں کہ وہ دین الٰہی کو ختم کر رہے تھے۔ مندر کو توڑ کر مسجد بنی ہو، ایسا نہیں ہے۔ یہ مندر سے بالکل الگ ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ یہاں کنواں ہے جس کے اندر شِولنگ ہے۔ 2010 میں ہم نے کنویں کی صفائی کروائی تھی۔ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟

’ماضی کا پورا مدینہ آج کی مسجدِ نبوی کا حصہ بن چکا ہے‘

آیا صوفیہ: کبھی چرچ، مسجد، میوزیم اور پھر مسجد

کاشی وشوناتھ مندر سے متعلق دعووں کی حمایت کرنے والے مقامی شخص ویجے شنکر رستوگی کہتے ہیں کہ اورنگزیب نے اپنی حکومت کے دوران کاشی وشوناتھ مندر کو توڑنے کا فرمان جاری کیا تھا، لیکن انہوں نے مسجد بنانے کا فرمان نہیں دیا تھا۔ رستوگی کے مطابق مسجد بعد میں مندر منہدم کرنے کے بعد اس کی باقیات پر بنائی گئی تھی۔

مسجد کی تعمیر سے متعلق تاریخی شواہد بہت واضح نہیں ہیں، لیکن تاریخدان پروفیسر راجیو دویویدی کہتے ہیں کہ مندر کو منہدم کیے جانے کے بعد اگر مسجد بنائی گئی تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ’ایسا اس دور میں کئی بار ہوا‘۔

مسجد اکبر کے دور میں تعمیر ہوئی یا اورنگزیب کے، اس بارے میں مختلف ماہرین کے خیالات مختلف ہیں۔

تاریخی دستاویزار

دراصل بنارس میں گیانواپی مسجد کی تعمیر اور وشوناتھ مندر کو منہدم کیے جانے کے بارے میں اورنگزیب کے حکم سے منسلک مختلف تاثرات پائے جاتے ہیں۔ لیکن تاریخی دستاویزات سے یہ باتیں ثابت نہیں ہوتیں۔

تاریخدان ایل پی شرما اپنی کتاب ’مدھیکالین بھارت‘ میں لکھتے ہیں ’1669 کے سبھی صوبہ داروں اور مصاحبوں کو ہندو مندروں اور تعلیم گاہوں کو منہدم کر دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ ہندوؤں کی تمام تعلیم گاہیں منہدم کر دی جاتیں لیکن بنارس کا وشوناتھ مندر، متھورا کا کیشودیو مندر، گجرات کا سومناتھ مندر اور سبھی بڑے مندر خاص طور پر شمالی انڈیا کے، اسی طرح منہدم کیے گئے۔‘

لیکن ان کے دعوے اس دور کے کسی تاریخی ذرائع سے ثابت نہیں ہوتے۔ الہ آباد یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کی تاریخ کے محکمے میں پروفیسر ہیرمب چترویدی کہتے ہیں کہ کیشورائے مندر کو منہدم کیے جانے کے احکامات کے بارے میں تو اس دور کے تاریخدانوں نے لکھا ہے لیکن وشوناتھ مندر کے بارے میں ایسے احکامات کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔

ان کے مطابق ’ساقی مستعید خان اور سوجان رائے بھنڈاری جیسے اورنگزیب کے دور کے تاریخدانوں نے بھی اس بات کا ذکر کہیں نہیں کیا ہے، جبکہ ان کے خلاصوں کو اس دور کے معتبر دستاویزات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

گیانواپی مسجد

گیانواپی مسجد

گیانواپی مسجد کی تعمیر کے بارے میں پروفیسر چتورویدی کہتے ہیں ’مسجد کی تعمیر کے کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ اور مسجد کا نام گیانواپی ہو بھی نہیں سکتا۔ ایسا لگتا ہے گیانواپی گیان یعنی تعلیم کا کوئی ادارہ رہا ہوگا۔ اس کے ساتھ مندر بھی رہا ہوگا جو دور قدیمہ میں ہمیشہ ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ اس تعلیمی ادارے کو منہدم کر کے مسجد بنی تو اس کا نام گیانواپی پڑ گیا، ایسا مانا جا سکتا ہے۔‘

بنارس میں سینیئر صحافی یوگیندر شرما نے مسجد اور وشوناتھ مندر کے بارے میں کافی ریسرچ کی ہے۔ وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’بادشاہ اکبر کے دور میں ٹوڈڑمل نے مندر بنوایا۔ تقریباً سو سال بعد اورنگزیب کے دور میں مندر منہدم ہوا اور پھر اس کے بعد تقریباً 125 برس تک یہاں کوئی وشوناتھ مندر نہیں تھا۔ سنہ 1735 میں اندور کی مہارانی آہلیہ بائی نے یہاں مندر تعمیر کروایا۔‘

یوگیندر شرما کہتے ہیں کہ ’مذہبی کہانیوں میں جس وشوناتھ مندر کا ذکر ملتا ہے اس کا اس مندر سے کوئی تعلق ہے یا نہیں اس کا سیدھا جواب تاریخدان نہیں دے پاتے ہیں۔ گیانواپی کے پاس آدی وشویشور مندر کے بارے میں ضرور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی مندر ہے جس کا ذکر ملتا ہے۔ مندر منہدم ہونے کے بعد ہی مسجد کی تعمیر ہوئی اور گیانواپی کنویں کے نام پر مسجد کا نام بھی گیانواپی پڑا۔ گیانواپی کنواں آج بھی موجود ہے۔‘

ایس ایم یاسین

ایس ایم یاسین

گیانواپی مسجد کی تعمیر کب ہوئی

معتبر تاریخی دستاویزات میں گیانواپی مسجد کا پہلا ذکر 1883-84 میں ملتا ہے، جب اسے سرکاری دستاویزات میں جامع مسجد گیانواپی کے طور پر درج کروایا گیا تھا۔

سید محمد یاسین کہتے ہیں کہ ’مسجد میں اس سے پہلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس سے واضح ہو سکے کہ اس کی تعمیر کب ہوئی۔ وہ سرکاری دستاویزات ہی سب سے پرانے دستاویز ہیں۔ اسی بنیاد پر 1936 میں دائر ایک مقدمے کا فیصلہ 1937 میں آیا تھا اور عدالت نے اسے مسجد کے طور پر قبول کیا تھا۔ عدالت نے قبول کیا تھا کہ یہ اوپر سے نیچے تک صرف مسجد اور وقف کی جائیداد ہے۔ بعد میں ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو صحیح قرار دیا تھا۔ اس مسجد میں پندرہ اگست 1947 سے پہلے ہی نہیں بلکہ 1669 جب یہ بنی تھی، تب سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔ کورونا کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔‘

حالانکہ مسجد کے 1669 میں تعمیر ہونے کے بارے میں کوئی تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں جو سید محمد یاسین کے دعووں کو صحیح ثابت کر سکیں۔

سید یاسین بتاتے ہیں کہ مسجد کے ٹھیک مغرب میں دو قبریں ہیں جن پر سالانہ عرس ہوتا ہے۔ ان کے بقول 1937 میں عدالتی فیصلے میں بھی عرس کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ قبریں اب بھی محفوظ ہیں لیکن عرس اب نہیں ہوتا۔ دونوں قبریں کب سے ہیں، یہ وہ نہیں جانتے۔

گیانواپی مسجد کا نقشہ

گزشتہ ہفتے 1991 میں کی گئی درخواستوں پر گیانواپی مسجد کے سروے کے عدالتی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اسی برس پارلیمان نے ’اوپاسنا‘ قانون منظور کیا تھا۔

اس قانون کے تحت پندرہ اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والی کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے تین برس تک جیل اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ ایودھیا کا معاملہ آزادی سے پہلے سے عدالت میں زیر سماعت تھا اس لیے ایودھیا معاملے کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق مندر مسجد سے متعلق کئی بار تنازعات ہوئے ہیں، لیکن یہ تنازعات آزادی سے پہلے کے ہیں، اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ زیادہ تر واقعات مسجد کے باہر مندر کے علاقے میں نماز پڑھنے سے متعلق تھے۔ سب سے بڑا جھگڑا 1809 میں ہوا تھا جسکی وجہ سے مذہبی بنیاد پر فسادات ہوئے تھے۔

بنارس میں صحافی اجے سنگھ بتاتے ہیں کہ ’ 1991 کے قانون کے بعد مسجد کے چاروں جانب لوہے کی دیوار بنا دی گئی، حالانکہ اس سے قبل یہاں کسی قسم کے مذہبی فسادات کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔‘

یاسین کہتے ہیں ’ہمارے سامنے کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ ایسے بھی موقعے آئے ہیں جب نماز جمعہ اور شیوراتری ایک ہی موقعے پر پڑے لیکن ماحول پر امن رہا۔‘

مسجد کا سروے کرائے جانے کے لیے 1991 میں عدالت میں درخواست دائر کرنے والے ہری ہر پانڈے نے بتایا کہ ‘ 1991 میں ہم تین لوگوں نے مل کر مقدمہ دائر کیا تھا۔ میرے علاوہ سومناتھ ویاس اور سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی کے پروفیسر رام رنگ شرما اب حیات نہیں ہیں۔‘

اس مقدمے کے دائر ہونے کے چند روز بعد ہی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے اوپاسنا قانون کا حوالا دیتے ہوئے ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے 1993 میں فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا، لیکن اس حکم پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 2019 میں بنارس کی عدالت میں معاملے کی سماعت ایک بار پھر شروع ہوئی اور اسی سماعت کے بعد احکامات جاری کیے گئے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مسجد کا سروے کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp