مذاکرات کی میز پر بھی طالبان ہی جیتے

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


بیس برس کی بے نتیجہ جنگ کے بعد آخر کار امریکہ واپس گھر کو جا رہا ہے۔ بقول صدر جو بائیڈن، ’اٹس ٹائم ٹو کم ہوم‘۔ مبینہ طور پہ امریکہ یہ جنگ جیت کے جا رہا ہے لیکن صاحبو! جنگ کبھی جیتی نہیں جاتی، جنگ صرف لڑی جاتی ہے۔

امریکہ نے جنگ لڑی، اندازاً 20 کھرب سے زیادہ خرچ کر کے اور 2300 امریکی فوجیوں، ہزاروں افغان شہریوں، سکیورٹی فورسز کے ارکان اور پاکستانی شہریوں( بشمول اے پی ایس کے معصوم بچوں) کو ہلاک کرا کے 20 برس کے عرصے میں اس جنگ سے کچھ حاصل نہ کر پایا۔

یہ جنگ بھی ویتنام کی جنگ کی طرح سوائے انسانی جانوں کے ضیاع کے کچھ نہ دے کے گئی۔

طالبان وہیں کے وہیں موجود ہیں بلکہ آج امریکہ کے ان سے مذاکرات پوری دنیا اور امریکی اتحادیوں کے لیے خفت کا باعث ہیں۔

رہی بات اسامہ بن لادن کو مارنے کی تو اس کے لیے تو پچاس ساٹھ ہزار کا ایک کرائے کا قاتل بھی کافی ہوتا۔ یوں بھی وہ بوڑھا شخص ان بیس برسوں میں اپنی طبعی موت ہی مر جاتا۔

القاعدہ کے مبینہ نیٹ ورک کو توڑنے کے دعوے پہ بھی ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ، بوکو حرام اور طالبان جیسی تنظیموں کی مضبوط موجودگی میں القاعدہ کا ہونا نہ ہونا اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔

یہ جنگ امریکہ ہارا، ویتنام کی جنگ بھی ہارا اور اگر پیچھے جا کے دیکھیں تو بظاہر اتحادیوں کی جیتی جانے والی دوسری جنگ عظیم بھی اتحادیوں ہی کے اپنی کالونیز سے نکلنے کی وجہ بنی۔

نہ دیوار برلن تادیر رہ پائی اور نہ ہی جرمنی اور جاپان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے۔

پہلی جنگ عظیم سے اگر کچھ ملا تو وہ خلافت کا خاتمہ اور عثمانی سلطنت کی حصے بخرے ہی تھے مگر تاوقتیکہ؟

آج امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کیا طالبان وہاں دوبارہ خلافت قائم نہیں کریں گے؟ کیا ترکی پھر سے اسلامی بلاک بنانے نہیں جا رہا؟

ایسا نہیں ہے کہ امریکہ نے یہ جنگ جان بوجھ کر اتنی لمبی کی۔ گذشتہ ایک دہائی سے امریکہ کمبل کو چھوڑتا ہے مگر کمبل اسے نہیں چھوڑتا۔

صدر اوباما بھی افغانستان سے فوجوں کا انخلا چاہتے تھے لیکن طالبان یہ انخلا غیر مشروط چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس انخلا کا جو سلسلہ شروع کرانے کی کوشش کی تھی اس کی راہ میں بھی یہ ہی شق حائل رہی۔

آج اتنے برس بعد انخلا ہو رہا ہے اور غیر مشروط۔ گویا مذاکرات کی میز پر بھی طالبان ہی جیتے۔

بیس سال پورے خطے کے امن کی قربانی دی گئی اور حالات جوں کے توں وہیں جہاں 32 سال پہلے روسی فوجوں کے انخلا کے وقت تھے۔ امریکہ کے جانے کے بعد خانہ جنگی تلی کھڑی ہے اور ابھی تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ یہ انخلا ویسا ہی ہو گا جیسا کہ امید کی جا رہی ہے۔

روس کے انخلا کے بعد افغان خانہ جنگی کے اس کھیل میں ایران اور سعودی عرب بھی شامل تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کی نئی پالیسیوں کے بعد کیا وہ آج بھی ماضی کی طرح اس خانہ جنگی میں دلچسپی لے گا، طاقت کا توازن بگڑ جائے گا یا کوئی نیا کھلاڑی اس کھیل میں شامل ہو گا؟

طالبان کا انفراسٹرکچر، ان کی طاقت ،ان کے نظریات، ان کی سوچ ،آج بھی بیس برس پہلے کی طرح مضبوط و مربوط ہیں۔ ہوا صرف اتنا ہے کہ پچھلے بیس برس کی جنگ میں وہ مزید پختہ ہو گئے ہیں۔

افغانستان کے عوام، وہاں کی حکومت، خواتین، افغانستان کے پڑوسی ممالک، سب کے سب آنے والے وقت سے خائف بیٹھے ہیں۔ طالبان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی جن خلاف ورزیوں کی طرف انگلی اٹھائی گئی تھی، طالبان سے اس بارے میں کوئی وعدہ نہیں لیا گیا ہے۔

یعنی ہمالیہ جہاں تھا ابھی تک وہیں ہے۔

امریکہ کو خطے سے نکلنے کی جلدی ہے۔ جو خلا امریکہ اپنی جلد بازی میں چھوڑ کر جا رہا ہے کیا اسے اب چین پر کرے گا؟ ویغور مسلمانوں کے حالات اور طالبان کے نظریات کے ساتھ کیا چین خطے کا نیا چودھری بن پائے گا یا ایک بار پھر طوائف الملوکی کا دور دورہ ہو گا ؟

امریکی فوجی تو گھر جا رہے ہیں، گھر جہاں امن، خوشی سکون اور سکھ ہوتا ہے مگر پیچھے ہمارے گھر میں کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

کہتے ہیں کہ مہمان کے جانے کے بعد جھاڑو نہیں دیتے، اس کی موجودگی میں ہی گھر صاف کر لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی بیان باجوہ صاحب نے پچھلے دنوں دیا تھا۔ اب دیکھیے کون گھر جاتا ہے اور کون گھر کو ترتیب دیتا ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).