رتی اور جناح کی شادی: ’مسٹر جناح نے مجھے اغوا نہیں کیا اصل میں، میں نے انھیں اغوا کیا ہے‘

عقیل عباس جعفری - محقق و مورخ، کراچی


قائد اعظم محمد علی جناح اور رتی جناح کی شادی کو سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی یہ موضوع ہمارے مورخین کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہے اور اس موضوع پر مسلسل نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔

گو کہ اس موضوع پر کانجی دوارکاداس، خواجہ رضی حیدر، شگفتہ یاسمین اور راقم الحروف کتابیں تحریر کر چکے ہیں، تاہم گذشتہ چند برس میں ہندوستان سے شیلا ریڈی کی کتاب ‘مسٹر اینڈ مسز جناح: ہندوستان کی ایک حیران کن شادی‘ اور پاکستان سے ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ‘قائداعظم کی نجی زندگی‘ میں اس شادی کے بارے میں کچھ نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔

ڈاکٹر سعد خان لکھتے ہیں کہ جب 1916 کے لگ بھگ رتن بائی نے اپنے دل کا احوال جناح کو سنایا تو جناح نے ان سے کہا کہ ہماری شادی اسی صورت میں ممکن ہو گی جب آپ اسلام قبول کر لیں۔ رتن بائی نے جناح سے کہا کہ وہ انھیں اسلام پر لوازمہ فراہم کریں۔

جناح نے پہلے اپنے صحافی دوست سید عبداللہ بریلوی اور پھر بہن شیریں کے ہاتھ انھیں اسلام سے متعلق چند کتابیں بھجوائیں۔ رتن نے یہ کتابیں پڑھیں تو اسلام قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

شیلا ریڈی لکھتی ہیں 1916 میں جناح، رتن بائی کے اہل خانہ کے ساتھ دار جلنگ گئے ہوئے تھے۔ رتن بائی کے والد سر ڈنشا پیٹٹ کا شمار ہندوستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔

جناح، ڈنشا پیٹٹ سے عمر میں تین سال چھوٹے اور رتن بائی سے 24 سال بڑے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سفر میں رتن بائی جناح کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گی۔

رتن بائی بچپن سے ہی ایک مختلف مزاج کی حامل تھیں۔ ان کی پرورش شاعرانہ ماحول میں ہوئی تھی۔ گیارہ سال کی عمر میں ہی ان کے والد نے انھیں الفرڈ لارڈٹینی سن کا دیوان تحفتاً دیا تھا۔ کتاب پر تحریر تھا: ’چاہنے والے پاپا کی طرف سے پیاری رتی کے لیے 14 دسمبر 1911جو ان کے چھوٹے بھائی جمشید کی تاریخ پیدائش ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

جناح، رتی اور میں: ایک دوست کی یادداشتیں

جناح نے اپنی جائیداد کسے وقف کی تھی؟

کیا محمد علی جناح نے اپنی اکلوتی بیٹی کو عاق کردیا تھا؟

کیا جناح کی مہلک بیماری کا علم تقسیم ہند کو روک سکتا تھا؟

14 جولائی تا 11 ستمبر 1948: محمد علی جناح کی زندگی کے آخری 60 دن

رتی جب جناح صاحب سے ملیں تو اس وقت تک وہ شیلے، کیٹس، برائوننگ، برنس اور بے شمار دوسرے شعرا اور بہت سے ڈراموں اور ناولوں کا گہرا مطالعہ کر چکی تھیں۔ رتی کے زود اثر پذیر ذہن کا ان سے متاثر ہونا ناگزیر تھا۔ وہ رومان پسند ہو گئیں۔

یہی وہ فضا تھی جس میں وہ اپنے خوابوں کے شہزادے سے ملیں۔ وہ بلند قامت، قد آور اور اولوالعزم و عالی ہمت جناح کی طرف مائل ہو گئیں جو اس وقت تک سیاست اور قانون کے میدانوں میں صف اوّل میں جگہ پا چکے تھے۔

دارجلنگ میں رتی کو محمد علی جناح کی شخصیت، عادات و اطوار اور سیاسی فلسفہ کا بہت قریب سے جائزہ لینے کا موقع ملا۔ بظاہر سخت گیر، اپنی انا کے اسیر، استقامت اور اولوالعزمی کی مجسم تصویر، وجیہہ اور سرو قد محمد علی جناح جو پہلی شادی کے بعد سے تجرد کی زندگی گزار رہے تھے رتی بائی کو اپنے باطن میں ایک مختلف انسان دکھائی دیے۔

ایک ایسا انسان جس کی روح نہایت نرم و نازک تھی۔ دار جلنگ کے سبزہ زاروں میں محمد علی جناح اور رتی بائی گھنٹوں گھڑ سواری کرتے رہتے اور اسی دوران بالآخر انھوں نے فطرت کے حسین مناظر کے سائے میں تمام عمر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔

محمد علی جناح

رتن بائی کی قریبی دوستوں میں سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدماجا شامل تھیں۔ پدماجا، رتن بائی سے اپنی دل کی کوئی بات نہیں چھپاتی تھی لیکن اتنی قربت کے باوجود اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رتن بائی نے انھیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے راز میں شامل کیا تھا۔

جناح دار جلنگ سے واپس آئے تو اپنی سیاسی زندگی میں دوبارہ مصروف ہو گئے، لیکن وہ رتن بائی کو نہیں بھولے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ رتن بائی کے والد کو اس شادی کے لیے کس طرح آمادہ کریں۔

لیکن وہ ہندوستان کے صف اول کے ماہر قانون تھے، ایک دن وہ ڈنشا پیٹٹ کے گھر پہنچ گئے اور بقول شیلا ریڈی کے اپنی دوستی اور سر ڈنشا کے ذہنی سکون کو ہمیشہ کے لیے داؤ پر لگا دیا۔

جناح کے ایک دوست ایم سی چھاگلہ نے، جو بعد میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور ایک زمانے میں جناح کے ماتحت کام کر چکے تھے، اپنی کتاب ’روزز ان دسمبر، این آٹو بائیوگرافی‘ میں لکھا ہے کہ دارجلنگ سے واپس آنے کے بعد ایک شام محمد علی جناح سر ڈنشا پیٹٹ کے پاس پہنچے اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ان سے پوچھنے لگے کہ ’مختلف فرقوں کے افراد کے مابین شادیوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘

سر پیٹٹ نے جو صورت حال سے بالکل بے خبر تھے بہت زور دے کر اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ ’ایسی شادیوں سے قومی یگانگی اور یکجہتی میں خاصا اضافہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ انجام کار یہی شادیاں فرقہ وارانہ منافرت کا آخری حل ثابت ہوں۔‘

جناح اس سے بہتر جواب کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے بحث پر مزید الفاظ ضائع کیے بغیر اپنے دوست سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ’میں آپ کی بیٹی سے شادی کا آرزو مند ہوں۔‘ سر ڈنشا سکتے میں رہ گئے۔

انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی رائے کے خود ان کی ذات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انھیں سخت طیش آ گیا اور انھوں نے ایسی کسی بات کو سوچنے تک سے انکار کر دیا جو ان کے نزدیک ’لغو اور مضحکہ خیز‘ تھی۔

دنیا جناح

شیلا ریڈی لکھتی ہیں کہ اس بات کی حتمی تصدیق کبھی نہیں ہو سکی کہ ان دو افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو کتنی سچی تھی، نہ جناح نے کسی کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی سر ڈنشا نے اس بارے میں کوئی بات کی لیکن اس کہانی نے اپنی ایک فضا قائم کر لی اور آنے والے برسوں نے اس نے ایک افسانوی شکل اختیار کر لی جو جوش اور تعجب کے امتزاج سے بار بار دہرائی گئی اور نصف صدی تک زبانی سفر کرتی رہی۔

سر ڈنشا پیٹٹ پارسی تھے اور یہ برادری ان دنوں خاص طور پر اپنے مرد اور عورتوں کے دوسرے مذاہب میں رشتے جوڑنے کے سخت خلاف تھی۔ ادھر رتن بائی بھی 17 برس کی ہو چکی تھیں اور انھوں نے اپنے والد کے انکار کے باوجود نہ صرف جناح سے ملنا ترک نہیں کیا تھا بلکہ اب وہ کھلم کھلا ملاقاتیں کرنے لگی تھیں۔

رتن پیٹٹ نے بھی اپنے والدین کو مطلع کیا کہ انھوں نے محمد علی جناح سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سر ڈنشا اور لیڈی پیٹٹ اب تک تو اسے صرف محمد علی جناح کا یک طرفہ معاملہ ہی سمجھ رہے تھے۔ اب جو انھیں معلوم ہوا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ہے۔

انھوں نے پہلے تو رتن کو عمروں کے فرق اور پھر مذہب اور رسم و رواج کے فرق کی آڑ لے کر باز رکھنا چاہا۔ مگر رتن کا فیصلہ اٹل تھا۔ وہ عزم کر چکی تھیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کے فیصلے کو نہیں بدل سکتی۔

شیلا ریڈی لکھتی ہیں کہ جون 1917 کے اواخر میں وہ ایک دن اچانک اپنی بیگم سے مشورہ کیے بغیر جناح کے خلاف درخواست دائر کرنے عدالت پہنچ گئے۔

عدالت میں مقدمے دائر کرنا سر ڈنشا کی ایک بری عادت تھی۔

وہ چھوٹے موٹے گھریلو تنازعات اور کاروباری مسائل بھی عدالت میں لے جاتے تھے، اعلیٰ برطانوی افسران سے لے کر گھریلو ملازمہ تک وہ سب کو کبھی نہ کبھی عدالت میں لے گئے، لیکن جناح کے خلاف جو اس وقت ملک کے ایک اعلیٰ وکیل بن چکے تھے عدالت میں جانا حیران کن حد تک حماقت تھی۔

عدالتی درخواست کا ریکارڈ گم ہو چکا ہے لیکن کانجی دوارکاداس جیسے ہم عصر مصر ہیں کہ سر ڈنشا نے دعویٰ کیا کہ جناح، رتی کے باپ کی رضامندی کے بغیر اس سے شادی کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ان کی نظر رتی کی جائیداد پر ہے۔

عدالت نے بہ آسانی یہ اندازہ لگا لیا کہ معاملہ یکطرفہ نہیں ہے تاہم فیصلہ ہوا کہ 20 فروری 1918 تک یعنی جب تک رتن بائی 18 سال کی نہ ہو جائیں اس وقت تک اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتیں۔

سر ڈنشا پیٹٹ کا خیال تھا کہ ایک سال تک جناح سے دور رہ کر رتن بائی کا جذبہ محبت سرد پڑ جائے گا مگر جب انھیں اندازہ ہوا کہ شاید ایسا نہ ہو تو رضوان احمد کے بقول انھوں نے بالا بالا جناح کو پیغام بھجوانا شروع کیا کہ اگر آپ سول میرج پر آمادہ ہوں تو ہم آشیرباد دے سکتے ہیں۔

مگر یہ بات جناح کے مزاج کے خلاف تھی، وہ مسلمان تھے اور ان کو یہ قانون بھی معلوم تھا کہ سول میرج کے لیے یہ حلف دینا پڑتا ہے کہ فریقین کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ یوں بھی وہ اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے تھے اور ایسے کسی حلف پر دستخط کرنے سے ان کا پورا سیاسی کیریئر تباہ ہوسکتا تھا۔

20 فروری 1918 کو رتن بائی 18 سال کی ہو گئیں، اب وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد تھیں۔ انھوں نے جناح کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں۔

ڈاکٹر سعد خان نے لکھا ہے کہ جناح کے سامنے الجھن یہ تھی کہ 1901 میں اسماعیلی مسلک خیرباد کہنے کے بعد سے وہ کوئی مسلکی چھاپ نہیں رکھتے تھے۔ 1918 سے پہلے وہ اپنی تین بہنوں کی شادیاں کر چکے تھے جن کے لیے انھوں نے اپنے بہنویوں کے خاندانوں کی مسلکی وابستگی کی پروا نہیں کی تھی کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی یا اسماعیلی۔

محمد علی جناح کی ایک بہن رحمت بائی کی شادی کلکتہ کے ایک سنی مسلمان قاسم بھائی جمال سے ہوئی تھی، دوسری بہن مریم بائی کی شادی بمبئی کے خوجہ اثنا عشری عابدین بھائی پیر بھائی سے اور تیسری بہن شیریں بائی کی شادی بمبئی کے ایک اسماعیلی تاجر جعفر بھائی سے ہوئی تھی تاہم 1967 میں جب وہ پاکستان آئیں تو انھوں نے اسماعیلی مسلک چھوڑ کر شیعہ اثنا عشری مسلک اختیار کر لیا۔

جناح کے اکلوتے بھائی احمد جناح نے ایک سوئس عورت ایملی سے شادی کی تھی۔

محمد علی جناح 1901 کے بعد سے ہر مسلکی تفریق سے بالاتر تھے، مگر اب رتن بائی کو اسلام کے دائرے میں داخل کرنے کے لیے انھیں کسی نہ کسی مسلک کا انتخاب کرنا تھا۔

جناح

محمد علی جناح نے اپنے اسماعیلی دوست سر محمد کریم اور سر فضل بھائی کریم بھائی کی وساطت سے سر آغا خان سوئم کی والدہ لیڈی شمس علیشا سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ رتن بائی کو اسماعیلی جماعت میں کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے۔

لیڈی شمس علیشا اسماعیلی برادری کی روحانی سرپرست تھیں اور ماتا سلامت کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ یہ وہی لیڈی شمس تھیں جنھوں نے 41 سال پہلے جناح کی پیدائش پر ان کا نام محمد علی رکھا تھا تاہم انھوں نے رتن بائی کو اسماعیلی جماعت میں شامل کرانے کی اجازت دینے سے معذرت کر لی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے سلطان محمد شاہ امام ہیں اور جماعت کے معاملات پر انھی کی رائے حتمی ہے۔ لیڈی شمس نے سر آغا خان سے بذریعہ خط بات کی مگر 17 برس پہلے محمد علی جناح کے اسماعیلی عقیدے کو خیرباد کہنے کے فیصلے سے ناراض سر آغا خان نے جوابی خط میں فیصلہ لکھ بھیجا کہ رتن بائی کو کسی بھی صورت اسماعیلی فرقے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ڈاکٹر سعد خان کے مطابق اب جناح صاحب نے اثنا عشری شیعہ مسلک کے تحت رتن بائی کے قبول اسلام پر غور کیا اور انھوں نے اپنی بہن مریم پیر بھائی کے داماد رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا کے توسط سے خوجہ اثنا عشری جماعت کی سیموئل روڈ بمبئی کی پالا گلی والی مسجد کے امام سے رابطہ کیا مگر عندیہ ملتا ہے کہ شیعہ قیادت بھی تذبذب کا شکار تھی۔

اب جناح کے پاس جو فرقہ پرستی سے ہمیشہ متنفر رہے تھے، سنی علما سے رجوع کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا۔ انھوں نے اپنے دوست عمر سوبانی کے ذریعے سنی عالم دین مولانا نذیر احمد خجندی سے رتن بائی کے قبول اسلام کے لیے باضابطہ رابطہ کیا۔ انھوں نے یہ درخواست بلاتامل قبول کر لی۔

18 اپریل 1918 کو عمر سوبانی رتن بائی کے گھر پہنچے، اس وقت ان کے تمام اہل خانہ پارسی عقیدے کے ایک سالانہ رسم کے تہوار کے لیے آتش کدے گئے ہوئے تھے۔ رتن بائی عمر سوبانی کی کار میں مولانا نذیر احمد خجندی کی مسجد پہنچیں، یہ مسجد مولانا ابوالکلام کے والد مولانا خیر الدین نے قائم کی تھی۔ وہاں جناح بھی موجود تھے۔

مولانا خجندی نے رتن بائی کو کلمہ طیبہ پڑھایا اور ان کا نام مریم رکھ دیا۔ اس کے بعد عمر سوبانی رتن بائی کو واپس ان کے گھر چھوڑ آئے جبکہ ان کے اہل خانہ ابھی مذہبی تقریب سے واپس نہیں آئے تھے، چنانچہ کسی کو بھی ان کی چند گھنٹوں کے لیے گھر سے غیر موجودگی کا پتہ نہ چل سکا۔

ڈاکٹر سعد خان لکھتے ہیں کہ جب یہ خبر خوجہ اثنا عشری جماعت بمبئی کے سربراہ خان بہادر سیٹھ بچو علی تک پہنچی تو انھوں نے رجب علی ابراہیم کے توسط سے جناح کو فوری پیغام بھجوایا کہ وہ اپنے گذشتہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے انھیں اور رتن بائی کو خوجہ اثنا عشری جماعت میں شامل کرنے کے لیے تیار ہیں چنانچہ اگلی صبح محمد علی جناح اور رتن بائی خوجہ اثنا عشری برادری میں شامل ہو گئے۔

19 اپریل 1918 کو یعنی سات رجب 1339 ہجری اور جمعہ کا دن تھا اور مقام ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع قائداعظم محمد علی جناح کا بنگلہ ’سائوتھ کورٹ‘ تھا جہاں رتن بائی اور قائداعظم محمد علی جناح رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔

یہ نکاح مولانا حسن نجفی نے اثنا عشری عقائد کے مطابق پڑھایا۔ اس نکاح میں رتن بائی کے وکیل شریعت مدار آقائے حاجی شیخ ابوالقاسم نجفی اور قائداعظم کے وکیل جناب محمد علی خاں راجہ صاحب محمود آباد بنے۔ جب کہ محترم غلام علی، شریف بھائی دیوجی اور عمر سوبانی نے بطور گواہان نکاح نامے پر دستخط کیے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق یہ نکاح بمبئی کے مجتہد شیخ مولانا حسن نجفی صاحب نے پرنس سٹریٹ پر واقع اپنے مکان میں پڑھایا تھا اور قائداعظم کے رشتے کے بھائی رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے نہ صرف اس نکاح میں بطور گواہ شرکت کی تھی بلکہ انھوں نے ہی اس نکاح کی رجسٹریشن پالا گلی مسجد میں بھی کروائی تھی۔ پالا گلی مسجد کے نکاح رجسٹر میں اس نکاح کا اندراج اس طرح ملتا ہے۔

Item No 118, date April 19, 1918 Rajab Seventh (Villadat of our Maula Alumdar Hazrat Abbas-Peace be upon him) Meher:Rs 1001/= Gift Rs 125000/= Pesh Imam Maulana Hasan Najafi-Witness: Rajab Ali Bhai Ebrahim Batliwala,etc.”

اس نکاح نامے کے مطابق مہر کی رقم مبلغ ایک ہزار ایک روپے مقرر ہوئی تھی جبکہ محمد علی جناح نے اپنی دلہن کو سوا لاکھ روپے بطور تحفہ پیش کیے تھے۔

اب وہ یادگار لمحہ آیا جب دولہا نے دلہن کو انگوٹھی پہنانی تھی۔ انکشاف ہوا کہ دولہا صاحب اپنی بے پناہ مصروفیت میں انگوٹھی خریدنا بھول گئے ہیں ایسے میں راجہ صاحب محمود آباد جناح کی مدد کو آئے اور انھوں نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی جناح کو دی کہ وہ اسے اپنی دلہن کو پہنا سکیں۔

نکاح نامے پر جناح کا مسلک خوجہ اثنا عشری تحریر کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ جناح کے انتقال کے بعد جب ان کی جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا شروع ہوا تو عدالت یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ جناح کا مسلک کیا تھا۔

محمد علی جناح اور کی بہن فاطمہ جناح

جناح کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد فاطمہ جناح کو مل گئی مگر جب فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد شیریں جناح پاکستان آئیں اور انھوں نے شیعہ اثنا عشری مسلک اختیار کیا تو جناح کے کچھ رشتے داروں نے ایک مرتبہ پھر جناح کی جائیداد کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔

خالد احمد کی کتاب ’قائد اعظم کے خاندانی تنازعات‘ کے مطابق جناح کے مسلک کا یہ معاملہ ابھی تک فیصلہ طلب ہے۔

شیلا ریڈی کے مطابق جناح نے 19 اپریل کی تاریخ بہت سوچ سمجھ کر منتخب کی تھی یہ جمعہ کا دن تھا اور اس کے بعد دو دن تک عدالتیں بند رہنی تھیں۔ نکاح کے اگلے ہی دن جناح رتن بائی کے ساتھ ہنی مون منانے لکھنؤ پہنچ گئے جہاں انھوں نے ایک دن راجہ صاحب محمود آباد کے محل نما گھر میں قیام کیا۔

مہاراجہ سر محمد علی محمد خان کے صاحبزادے راجہ محمد امیر احمد خان یہ واقعہ اکثر سناتے تھے کہ ’جناح صاحب شادی کے بعد اپنی بیگم کے ساتھ لکھنؤ تشریف لائے تو اس وقت میں بہت چھوٹی عمر کا تھا۔ میرے والد ماجد، جناح صاحب کے دوست تھے۔ جناح صاحب نے اپنی بیگم کے ساتھ لکھنؤ میں ہمارے ہاں کچھ دنوں تک قیام کیا اور پھر نینی تال چلے گئے۔

مجھے اب تک یاد ہے کہ محترمہ رتی جناح نے مجھے پیار سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا تو میں ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ میری نظریں ان کے چہرے سے ہٹتی نہ تھیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ رات کو جو پریوں کی کہانی سنتا ہوں، انھی پریوں میں کوئی پری ہے۔ جو آسمان سے اتر آئی ہے۔‘

راجہ امیر احمد خان کو یہ بھی یاد تھا کہ اس موقع پر انھیں بیگم رتی بائی جناح نے رواج کے مطابق اپنے بٹوے میں سے سو روپے نکال کردیے تھے۔

شیلا ریڈی نے اپنی کتاب مسٹر اینڈ مسز جناح میں لکھا ہے کہ ’ناشتے پر سر ڈنشا پیٹٹ نے اپنا پسندیدہ اخبار کھولا، بمبئی کرانیکل اور صفحہ آٹھ کے ایک کالم پر نظر ڈالی اور میز پر ڈھیر ہو گئے کھانا ادھورا رہ گیا شاید پہلی مرتبہ پیٹٹ ہال کی خوش خوراک تاریخ میں ایسا ہوا، یہ 20 اپریل 1918 ہفتے کا روز تھا۔‘

شیلا ریڈی نے لکھا کہ بمبئی کرانیکل کے صفحہ آٹھ پر ’دو کالموں کے درمیان چند خبریں تھیں جن میں آفیشل اینڈ پرسنل کے شہ سرخی کے تحت ایک جملہ تھا جو اگلے کئی ہفتوں اور مہینوں تک ہندوستان کے ڈرائنگ رومز اور کلبوں میں ہونے والی بحثوں میں چھا جانے والا تھا۔

‘معزز ایم اے جناح کی شادی مسز رتی پیٹٹ، دختر معزز سر ڈنشا پیٹٹ اور لیڈی پیٹٹ سے گذشتہ شام انجام پائی۔‘

شیلا ریڈی نے مزید لکھا ہے کہ جس چیز کو کوئی نہیں سمجھ سکا کہ وہ یہ تھی کہ کس طرح سے رتی دو دن لگاتار گھر سے غائب رہیں، پہلے 18 اپریل کو جناح کے ہمراہ جامع مسجد میں جا کر مذہب تبدیل کرنے کے لیے اور پھر اگلی شام 19 اپریل کو اپنے والدین کی چوکس نظروں سے بچ کر پیدل ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ پر جناح کے بنگلے تک گئیں جہاں جناح ایک مولانا اور درجن بھر گواہوں کے ساتھ ان کا انتظار کر رہے تھے۔

پھر رات بھر کے لیے غائب ہو گئیں اور ان کے اپنی خواب گاہ میں نہ ہونے کا کسی کو علم نہ ہوا جب والدین صبح اخبار کی خبر سے ان کی شادی کے بارے میں واقف ہوئے۔

اگلے دو تین دن ٹائمز آف انڈیا ،سٹیٹس مین، پائنیر اور سول اینڈ ملٹری گزٹ میں یہ خبر شائع ہوئی۔ 24 اپریل 1918 کو لاہور کے مشہور پیسہ اخبار میں بھی یہ خبر بطور اداریہ شائع ہوئی، جس کا عنوان تھا ’ایک پارسی بیرونٹ کی لڑکی کا قبولِ اسلام۔‘

محمد علی جناح کی شادی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ہندوستان میں پھیل گئی، خصوصاً بمبئی پریذیڈنسی میں جہاں پارسیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں اس خبر پر تبصرے عام تھے۔

سر ڈنشا پیٹٹ اس واقعے کے بعد تقریباً خانہ نشین ہو گئے اور کسی سے اس موضوع پر گفتگو کے روادار نہ تھے۔ وہ شدید طیش اور غصے میں تھے ۔ انھوں نے اپنی اس شکست پر دوبارہ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ جناح نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے تاکہ ان کی دولت حاصل کر سکیں۔

جناح کے لیے یہ بات بہت زیادہ اشتعال کا باعث تھی۔ انھوں نے ہمیشہ اس بات پر فخر کیا تھا کہ وہ اپنے بل بوتے پر لکھ پتی بنے تھے اب انھیں اس الزام کا سامنا تھا کہ وہ دولت بٹورنے والا ایک عام سا شخص ہے۔

رتی کے احساسات جناح سے بھی زیادہ خراب تھے۔ عدالت میں جب جج نے جناح سے پوچھا کہ کیا انھوں نے رتی پیٹٹ کو ان کے باپ کے گھر سے اغوا کیا ہے تو اس سے پہلے کہ جناح کوئی جواب دیتے رتی، جناح کے دفاع میں کھڑی ہو گئیں اور بولیں جناب اعلیٰ مسٹر جناح نے مجھے اغوا نہیں کیا اصل میں، میں نے انھیں اغوا کیا ہے۔

جناح بھی رتی کی بے خوفی سے حیران رہ گئے اور ان کے چہرے پر وہ نایاب مسکراہٹ چھا گئی جسے رتی دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتی تھیں۔ سر ڈنشا اپنی بیٹی کے الفاظ اور اس کے چہرے کے تاثرات کو کبھی نہیں بھلا سکے۔

سارا معاملہ ختم ہو چکا تھا اور اب رتی کو صرف ان کاغذات پر دستخط کرنا باقی رہ گیا تھا جس میں انھیں اپنی وراثت سے دست بردار ہونا تھا۔

20 فروری 1929 کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا۔ حسن علی ایم جعفر نے اپنی کتاب The Endangered Speciesمیں لکھا ہے کہ رتن بائی کے انتقال پر بمبئی کے خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت نے انھیں جماعت کے قبرستان آرام باغ میں دفن ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

جماعت کا مؤقف یہ تھا کہ اس قبرستان میں کوئی غیر خوجہ دفن نہیں ہو سکتا۔ جناح نے جماعت کے اس مؤقف کو چیلنج کیا اور کہا کہ اگر اس نے اپنے فیصلے کو تبدیل نہیں کیا تو وہ عدالت سے رجوع کریں گے۔

جناح کے اس مؤقف پر جماعت کے صدر حسین بھائی لال جی نے رتن بائی کو آرام باغ قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دے دی۔ جہاں وہ آج بھی آسودۂ خاک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32533 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp