موسمیاتی تبدیلی کا مشترکہ چیلنج


موسمیاتی تبدیلی کے مشترکہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف اقدامات اپنائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے گرین ترقیاتی تصورات سامنے آ رہے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کے لیے کاربن نیوٹرل کا ہدف طے کرتے ہوئے باقاعدہ وقت کا تعین کیا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور اہم ممالک کے کردار کی بات کی جائے تو ابھی حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ نے فرانسیسی صدر میکرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکیل کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ورچوئل سمٹ میں شرکت کی۔ تینوں رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے، چین یورپ تعلقات، انسداد وبا تعاون سمیت اہم عالمی و علاقائی امور پر گہرائی کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین ان اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے کاربن نیوٹرل کے لیے باقاعدہ ہدف کا تعین کیا ہے اور چینی صدر نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک یہ منزل حاصل کر لی جائے گی۔ سمٹ کے دوران بھی چین کی جانب سے واضح کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا بنی نوع انسان کی مشترکہ ذمہ داری ہے، موسمیاتی تبدیلی کی کوششوں کو جغرافیائی سیاست، دوسرے ممالک پر حملوں یا تجارتی کشمکش کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ چین نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ترقی یافتہ معیشتیں کاربن کے کم اخراج میں قائدانہ کردار ادا کریں گی اور ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی کی فراہمی سمیت بھرپور حمایت فراہم کریں گی۔

تینوں ممالک کے رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ایک منصفانہ، معقول اور باہمی مفادات پر مبنی تعاون کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی گورننس نظام کی تشکیل کی جائے گی۔ ماحولیاتی پالیسی کے مکالمے اور سبز ترقی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنایا جائے گا، اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کو چین۔ یورپ تعاون کا ایک اہم ستون بنایا جائے گا۔

دوسری جانب ایک اور اہم پیش رفت میں امریکہ نے بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق طے شدہ پیرس معاہدے کو چین کے ساتھ مل کر آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے ماحولیات جان کیری نے چین کا دورہ کیا اور اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات میں موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ملاقات کے حوالے سے جاری مشترکہ اعلامیے میں دونوں بڑی طاقتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فریقین عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کی کوششوں پر عمل پیرا رہیں گے۔

ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چین نے کوئلے پر مبنی کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے حالیہ عرصے میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور صنعتی ڈھانچے میں ضروری اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ توانائی کی پیداوار کے لیے ایسے ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں جس میں کم سے کم کوئلہ استعمال ہو۔ ایک اندازے کے مطابق چین کو 2030 سے قبل ہر سال کاربن کے اخراج میں 2.2 ٹریلین یوآن ( 337 بلین ڈالرز) کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہو گی اور 2030 سے 2060 تک سالانہ 3.9 ٹریلین یوآن کی سرمایہ کاری درکار ہو گی تاکہ کاربن نیوٹرل کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔

چین کی جانب سے بجلی گھروں میں ماحولیاتی معیارات کو بلند کیا گیا ہے۔ ملک میں کوئلے کا شعبہ وسیع اصلاحات سے گزر رہا ہے جسے کوئلے کی کانوں سے بجلی گھروں تک توسیع دی گئی ہے۔ چین کا عزم ہے کہ پیرس موسمیاتی معاہدے کی روشنی میں سال 2030 تک ملک میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 800 گیگا واٹس سے 1000 گیگا واٹس تک بڑھایا جائے جو امریکہ میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے مساوی ہے۔ چین کی قابل تجدید توانائی کی پیداوار نے گزشتہ برسوں میں مستقل ترقی کی ہے، جو سال 2020 میں 8.4 فیصد سالانہ اضافے سے 2.21 ٹریلین کلو واٹ فی گھنٹہ (کلو واٹ) ہو چکی ہے۔

چین نے گھریلو سطح پر کوئلے پر انحصار کم کرنے کے لیے بھی مختلف پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔ چین کی وزارت ماحولیات نے ملک کے شمالی اور وسطی صوبوں میں لاکھوں خاندانوں کو خصوصی سبسڈی دی ہے تاکہ کوئلے سے چلنے والے چولہوں کی جگہ الیکٹرک یا گیس ہیٹرز نصب کیے جا سکیں۔ شجرکاری کے مزید فروغ سے بھی کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ چین نے سال 2000 کے بعد سے جنگلات کے رقبے کو نمایاں توسیع دی ہے اور ملک میں جنگلات کی کوریج کی شرح 2015 میں 21.66 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 23.04 فیصد ہو چکی ہے۔

چین کی جانب سے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ایسی گاڑیوں کے ماڈلز کی تیاری بند کر دی گئی ہے جو ایندھن کے حوالے سے طے شدہ سخت معیارات پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ ملک بھر میں توانائی کی بقاء اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے شہریوں میں شعور اجاگر کیا گیا ہے اور عوامی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف سرگرمیوں کا تواتر سے انعقاد کیا جاتا ہے۔

چین عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تمام اہم معاہدوں پر عمل پیرا ہے اور شفاف توانائی کے حوالے سے چین کی کاوشوں کو اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بھرپور سراہا گیا ہے۔ چین کی اعلیٰ قیادت ملک کو سرسبز ترقیاتی راہ پر گامزن کرنے کے لیے خود صف اول میں موجود ہے اور چینی صدر شی جن پنگ تحفظ ماحول کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے خود شریک ہوتے ہوئے چینی قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ فطرت سے ہم آہنگ ترقی ہی دیرپا اور پائیدار ترقی کی بنیاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments