بھارتی ریاست بہار کی 130 سال پرانی ‘خدا بخش لائبریری’ کا وجود خطرے میں


حکومت کے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف ریاست بہار بلکہ پورے ملک اور بیرون ملک مقیم ماہرینِ تعلیم اور دانش وروں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی — بھارتی ریاست بہار میں ایک فلائی اوور کی تعمیر کے منصوبے کی وجہ سے پٹنہ شہر میں واقع 130 سال پرانے کتب خانے ‘خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری’ کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

بہار حکومت کے اس اقدام کے خلاف ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، سول سوسائٹی، دانش ور اور کتابوں کے شوقین افراد کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

ریاست کے محکمۂ تعمیرات کی جانب سے لائبریری کو نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ پٹنہ کے گاندھی میدان سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) موڑ تک (تقریباً سوا دو کلو میٹر) پر محیط فلائی اوور کی تعمیر کے لیے خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری کی ایک عمارت کے پندرہ فٹ حصے کو منہدم کیا جائے گا۔

نوٹس کے مطابق لائبریری کے قدیم ‘کرزن ریڈنگ روم’ کی نصف عمارت بھی مسمار کی جائے گی اور اس کے سامنے باغیچے کے ایک بڑے حصے کو بھی تحویل میں لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسی سڑک پر واقع اردو اکادمی کی اراضی کا کچھ حصہ بھی حاصل کیا جائے گا۔

ماہرینِ تعلیم اور دانش ور سراپا احتجاج

حکومت کے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف ریاست بہار بلکہ پورے ملک اور بیرون ملک مقیم ماہرینِ تعلیم اور دانش وروں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (آئی این ٹی اے سی ایچ) نے وزیرِ اعلیٰ کے نام ایک خط میں درخواست کی ہے کہ وہ اس منصوبے کو منسوخ کریں کیوں کہ اس سے عالمی ورثے کو نقصان پہنچے گا۔

لائبریری کے ایک حصے کو مسمار کیے جانے کے فیصلے پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
لائبریری کے ایک حصے کو مسمار کیے جانے کے فیصلے پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ۤ(یونیسکو) نے اس لائبریری کو عالمی ورثے کا درجہ دے رکھا ہے۔

لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار نے پٹنہ کے ضلع مجسٹریٹ چندر شیکھر کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ چوں کہ یہ لائبریری بہار کے سب سے بڑے علمی ورثے کا درجہ رکھتی ہے اس لیے لائبریری کے بورڈ کا خیال ہے کہ اس عمارت کا تحفظ کیا جائے۔

ان کے مطابق اگر حکومت کے منصوبے پر عمل کیا گیا تو اس سے بہار کی علمی و ثقافتی شناخت کو شدید نقصان پہنچے گا۔

حکومت کا مؤقف

ضلع مجسٹریٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لائبریری کی اصل دو منزلہ عمارت کو منہدم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ البتہ کرزن ریڈنگ روم جو کہ لائبریری کی بیرونی دیوار سے متصل ہے، فلائی اوور کے راستے میں آ رہا ہے۔

فلائی اوور کی تعمیر کے ذمہ دار محکمے “روڈ کنسٹرکشن ڈپارٹمنٹ” کا کہنا ہے کہ لائبریری انتظامیہ کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

لائبریری کا جاہ و جلال ختم ہو جائے گا

پٹنہ کے ایک معروف دانش ور، مصنف اور کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس میں استاد پروفیسر صفدر امام قادری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت اور لائبریری انتظامیہ کے درمیان تین ماہ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے۔

اُن کے بقول لائبریری انتظامیہ نے اہلِ علم کے سامنے اس مسئلے کو نہیں رکھا۔ اگر ایک انگریزی روزنامے میں اس سے متعلق خبر شائع نہ ہوئی ہوتی تو کسی کو اس معاملے کا پتہ بھی نہ چلتا۔

انہوں نے کہا کہ اس کتب خانے کی بین الاقوامی حیثیت ہے لیکن اس کے باوجود اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے عقب میں واقع اس کی اراضی کے ایک بڑے حصے پر پٹنہ میڈیکل کالج نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

ان کے مطابق اگر حکومت کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کتب خانے کا جاہ و جلال ختم ہو جائے گا۔

صفدر امام قادری کا مزید کہنا ہے کہ لائبریری کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار کے سبک دوش ہونے کے بعد کسی سازش کے تحت پانچ برسوں تک ڈائریکٹر کے منصب پر کسی کو فائز نہیں کیا گیا۔ اب ان کی صاحبزادی ڈاکٹر شائستہ بیدار اس کی ڈائریکٹر ہیں۔

ان کے بقول عابد رضا بیدار 24 برسوں تک ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے اور ان کے دور میں اس لائبریری نے خوب ترقی کی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘کرزن ریڈنگ روم’ لائبریری کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان کے بقول یہ کہہ کر کہ اصل عمارت کو منہدم نہیں کیا جائے گا لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

طویل جدوجہد کی تیاری

بہار قانون ساز اسمبلی کی ‘لائبریری کمیٹی’ اور ‘خدا بخش لائبریری بچاؤ محاذ’ کی جانب سے اس کتب خانے کو بچانے کی جدوجہد جاری ہے۔

قانون ساز اسمبلی کی لائبریری کمیٹی کے ایک رکن سندیپ سوربھ (رکن اسمبلی) نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری لائبریری کمیٹی کو ریاست بھر کی 51 لائبریریوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری دی گئی ہے جن میں چند مخصوص اور تاریخی کتب خانے بھی شامل ہیں جن میں سے ایک خدا بخش لائبریری بھی ہے۔

لائبریری کے معاملے پر انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
لائبریری کے معاملے پر انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے جو فلائی اوور بنانا چاہ رہی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سندیپ سوربھ کے مطابق جس سڑک پر خدا بخش لائبریری قائم ہے اس پر نصف درجن سے زائد سیکڑوں سال قدیم عمارتیں ہیں جن کو ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ ان عمارتوں میں بی این کالج، کیتھولک گرجا گھر، سائنس کالج، پٹنہ ڈینٹل کالج، پٹنہ یونیورسٹی اور بہار اردو اکادمی شامل ہیں۔ ان تمام عمارتوں کا کچھ نہ کچھ حصہ منہدم کیا جانے والا ہے جب کہ اس کے خلاف بھی آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

سندیپ سوربھ کے مطابق “ہم حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ہم خدا بخش لائبریری کو برباد نہیں ہونے دیں گے۔”

حکومت پر سیاسی مقاصد کے حصول کے الزامات

خدا بخش لائبریری بچاؤ محاذ کے کنوینر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل) کے رہنما کملیش شرما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کے اس قدم کے پسِ پردہ سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول جب سے ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے بعد سے اس قسم کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اگر کسی ادارے کے نام سے اسلامی یا مسیحی تشخص ظاہر ہوتا ہے تو بی جے پی کے لوگ اس کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں۔ وہ ایسی تمام شناختیں مٹا دینا چاہتے ہیں جو دوسرے مذاہب کی علامت مانی جاتی ہوں۔

ایک فلائی اوور کی تعمیر کے منصوبے کی وجہ سے لائبریری کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔
ایک فلائی اوور کی تعمیر کے منصوبے کی وجہ سے لائبریری کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

دوسری جانب سندیپ سوربھ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس معاملے کا تعلق سیاست سے ہو سکتا ہے۔

البتہ، بی جے پی حکومت ماضی میں اس نوعیت کے الزامات مسترد کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔

ادھر لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سداما پرساد نے متعلقہ سرکاری حکام سے ملاقات کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس ورثے کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف نتیش کمار کی حکومت ریاست کے تاریخی آثار کے تحفظ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف خدا بخش لائبریری جیسے علمی ورثے کو برباد کرنا چاہتی ہے۔

‘ہر شخص خدا بخش مہم’

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ کمار داس نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اپنا پولیس میڈل صدر رام ناتھ کووند کو واپس کر دیا ہے۔

انہوں نے صدر کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ بدعنوان کانٹریکٹرز اور ٹینڈر مافیا کے ایما پر لائبریری کے ایک حصے کو منہدم کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ لائبریری گنگا جمنی تہذیب کی ایک علامت ہے۔

انہوں نے ‘ہر شخص خدا بخش’ کے نام سے ایک مہم چلا رکھی ہے جس میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ لائبریری سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے ملنے والے ایوارڈز واپس کر دیں۔

ملک کے معروف اسلامی اسکالر اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے صدر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے نام ایک خط میں اپیل کی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لیں اور اس تاریخی لائبریری کا تحفظ یقینی بنائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کتب خانہ ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کا ایک عظیم مرکز ہے، اس کا ہر حال میں تحفظ کیا جانا چاہیے۔

خدا بخش کا علمی کارنامہ

خدا بخش لائبریری کی بنیاد بہار کے ایک زمین دار خاندان سے تعلق رکھنے والے مولوی خدا بخش خاں نے 1891 میں اپنی زمین پر ذاتی خرچ سے رکھی تھی۔

لائبریری کے کرزن ریڈنگ روم کو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے 1905 میں تعمیر کروایا تھا۔ انہوں نے 1903 میں لائبریری کا دورہ کیا تھا اور وہ اس سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے فنڈ سے ریڈنگ روم کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔

نادر و نایاب نسخے

یہ کتب خانہ مولوی خدا بخش کا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں ان کے والد محمد بخش کی 1400 کتب موجود تھیں۔ بعد ازاں مولوی خدا بخش نے اس میں اضافہ کر کے کتابوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچا دی تھی۔

اس کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے بنگال کے گورنر چارلس الفریڈ ایلیٹ نے پانچ اکتوبر 1891 کو اس کا افتتاح کیا اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

بعد ازاں 26 دسمبر 1969 کو بھارتی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اب اس کا انتظام محکمۂ ثقافت کرتا ہے۔

اس کتب خانے میں اردو، فارسی، عربی، ترکی، پشتو اور دیگر زبانوں کے 21 ہزار سے زائد مخطوطات اور ڈھائی لاکھ سے زائد کتابیں ہیں۔ یہاں اردو کے علاوہ فارسی، عربی، انگریزی، ہندی، پنجابی، جرمن، فرانسیسی اور جاپانی زبانوں کی بھی کتابیں موجود ہیں۔

اس لائبریری میں قرآن کے متعدد نادر نسخے ہیں جن میں ایک ایسا نسخہ بھی ہے جو ہرن کی کھال پر لکھا ہوا ہے۔

خدا بخش لائبریری پر کام کرنے والے معروف مصنف اور قلم کار فاروق ارگلی نے بتایا کہ اس میں نستعلیق میں لکھا ہوا خاندان تیموریہ کی تاریخ کا واحد نسخہ بھی موجود ہے۔

ہندو مذہب کی کتاب شری مد بھگوت گیتا، پُران اور مہا بھارت کے فارسی تراجم بھی یہاں موجود ہیں۔

لائبریری میں تقریباً 40 ہزار مجلد رسال و جرائد ہیں۔ مغل بادشاہ اکبر، شاہجہاں اور شاہ عالم کے زمانے کے نادر و نایاب 800 سکے بھی یہاں رکھے گئے ہیں۔

فاروق ارگلی بتاتے ہیں کہ اسلامی علوم، طب یونانی، تذکرے، تصوف، تقابل ادیان، عہد وسطیٰ کی تاریخ، جنوب مشرقی ایشیا کی تاریخ، قرون وسطیٰ کے سائنسی علوم، تحریکِ آزادی، قومی یکجہتی، اردو فارسی اور عربی ادبیات سے متعلق موضوعات پر مبنی کتابیں اس لائبریری کا خاصا ہیں۔

سرکردہ شخصیات کے دورے

فاروق ارگلی کے مطابق کتب خانے کی علمی اہمیت کے پیشِ نظر سرکردہ شخصیات وہاں کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔

لائبریری کے قیام کے بعد لارڈ لٹن، لارڈ منٹو، علامہ شبلی نعمانی، سر ظفر اللہ خاں، لارڈ ارون، جی سی بوس، مہاتما گاندھی، نواب حبیب الرحمٰن شیروانی، سائنس داں ڈاکٹر سی وی رمن، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، پنڈت جواہر لعل نہرو اور سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام سمیت کئی اہم شخصیات اس تاریخی لائبریری کا دورہ کر چکی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments