وسعت اللہ خان کی سیلاب ڈائری



”گان گرلز“ کے لکھاری گلئن فلئن نے اپنے ایک انٹرویو میں اگاتھا کرسٹی کے ناول and then there were none کے متعلق کہا تھا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جب مجھے کچھ پڑھنے کا من نہ کرے، یا میں سراپا بوریت ہوں تو اسے ہی پڑھنا شروع کرتا ہوں۔

جانے کیوں وسعت اللہ خان کی سیلاب ڈائری پڑھتے ہوئے بھی بارہا میں نے خود کو اسی کیفیت میں پایا۔ میں بھی بوریت کے سمے آب گم، بجنگ آمد (جو میری فیورٹ کتابوں میں سے ایک ہے) اور اردو کی آخری کتاب جیسی بہت سی کتابوں کو پھلانگ کر سیلاب ڈائری پہ ہی رکتا ہوں۔ کچھ صفحے پڑھتا ہوں تب جا کے کتاب ”خوری“ کے لئے ماحول درست سمت اختیار کرتا ہے۔

2010 میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب نے زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ بے گھر خلق خدا کے حالات کو ہوبہو پیش کرنے کا ٹھان کر صحافت کے بے تاج بادشاہ وسعت اللہ خان حقیقی صحافی بن کر میدان میں اترے اور سیلاب زدگان کے روز و شپ اور ان پہ گزرنے والے قہر کو روزانہ کی بنیاد پر قلم بند کرتے رہے، جو ’سیلاب ڈائری‘ کی صورت بی بی سی اردو پر شائع ہوتے رہے۔ انہیں لاکھوں لوگ پڑھتے، روتے، کبھی ہنستے تو کبھی جگر پیٹتے رہ جاتے۔

وسعت اللہ خان اپنے مخصوص فکاہی انداز میں لفظوں کے موتی بکھیرتے، آپ کو یوں مسحور کرتے ہیں کہ آپ کو بھی کبھی کبھی اپنے اوپر سیلاب زدہ ہونے کا گمان گزرتا ہے۔

لفظوں کے ڈائی سیکٹنگ بکس سے کھوکھلے انتظامات کی رگ یوں کاٹتے ہیں کہ مسائل ازخود بولنے لگتے اور نمایاں ہوتے ہیں۔

اس کتاب میں آپ کو زندگی کے ہزار رنگ ملیں گے لیکن اسلوب اور بیان کی یکتائی میں یہ کتاب کمال درجہ رکھتی ہے۔ درج ذیل فقرہ اور اس کے آخری جملے دیکھیں:

” گزری رات میرے نیم جاگتے ذہن نے صرف اتنا کام کیا کہ دریائی علاقے کے با اثر سیاست دان فرید خان میرانی سے رابطہ ہو گیا۔ میرانی صاحب پچیس برس رکن پارلیمنٹ اور لیہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ دو ہفتے پہلے دریائے سندھ کے کناروں پر اچھی خاصی زمین کے مالک تھے۔ اب حد نگاہ تک پانی کے مالک ہیں“

اب اگلے پیراگراف میں مصنوعی اور ٹائم پاس انتظامات اور اس میں بے صبر ڈاکٹر کی نفسیات کو کس سادہ بیانی سے قلم بند کیا ہے دیکھیے:

” برابر والے خیمے میں ایک صاحب جو غالباً ڈاکٹر ہی ہوں گے ، گلے میں اسٹیتھو اسکوپ ڈالے مستعد بیٹھے تھے۔ مگر میز پر پڑھے بلڈ پریشر چیک کرنے والے پمپ کو جانے کیوں آہستہ آہستہ دبا بھی رہے تھے“

دریا کے اس تھوکے ہوئے غصہ کو ہر صفحہ پر وسعت اللہ، اس وسعت سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کتاب سے چمٹ جاتا ہے۔ ایسے ایسے نادر و حیران کن مقامات آتے ہیں کہ بندہ حیران صفحہ دیکھتا ہی رہتا ہے۔

”ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں داخل ہوتے ہی موبائل فون کے سگنلز غائب ہو گئے۔ شہر کے وسط میں جس حجرے میں ہم ٹھہرے ، وہاں پر معلوم ہوا کہ شہری حدود میں موبائل سگنلز کا داخلہ کئی ماہ سے ممنوع ہے۔ منطق یہ ہے کہ دہشت گرد موبائل استعمال کرتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ دہشت گرد کپڑے بھی بدلتے ہیں۔ جوتا بھی پہنتے ہیں، کھانا بھی کھاتے ہوں گے۔ موبائل فون بند کرنی والی انتظامیہ کو آخر یہ خیال کیوں نہ آیا؟ ”

کبھی کبھی کچھ فقرے آپ کو ہنسا کے باد صر صر کی طرح نکلتے ہیں جیسے:
” برابر والے کمرے سے لوک موسیقی ہمساؤں کو زبردستی بانٹی جا رہی تھی“
” نواب صاحب بعد ازسبکدوشی کسی دل جلے کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے ہی ایک فرزند کی گولی کا نشانہ بنے۔‘‘

اس کتاب میں کئی دردمند انسان انسانیت کی زندگی کا ثبوت دیتے پائے جاتے ہیں، کئی پولیس والے، انتظامیہ کے لوگ فرض شناسی کے چمکتے ستارے کی مانند چمکتے پائے جاتے ہیں تو اسی طرح زیادہ تر انتظامیہ کے لالچی ”بلیک ہولز“ ہوتے ہیں جو سب کچھ ہڑپ کرتے پائے جاتے ہیں۔

چاروں صوبوں کو بہالے جانے والے سیلاب کی یہ داستان لکھتے وسعت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، اس کے لئے چند سطریں اسی کتاب سے:

” پر اس وقت لگ رہا ہے سیلاب باہر نہیں میرے اندر ہے۔ ہر چیز تلپٹ ہے، بھوک مقرر وقت کے بجائے یادداشت کی بنیاد پر لگتی ہے۔ آج کون سا دن ہے، کون سی تاریخ ہے؟ اس کی تصدیق موبائل فون پہ موجود کیلنڈر سے کرتا ہوں۔ دوران سفر مناظر اس قدر تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے دماغ کی ہارڈسک بھی شاید کرپٹ ہو رہی ہے۔ لگتا ہے سیلاب یادداشت بھی بہا لے جائے گا۔‘‘

یہ کتاب، نہیں بلکہ پاکستان کی ستر سالہ حالت زار کی تصویر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments