حضور والا! ہوش کریں، کورونا پھیل چکا ہے


فجر کی نماز باجماعت مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو نمازیوں سے کچھا کھچ بھری مسجد میں مجھ سمیت کوئی گنتی کے 7 یا 8 لوگ تھے جنہوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے اور باقی حضرات ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے کوئی بدیسی لباس میں نماز ادائیگی کے لئے آ گئے ہوں۔ مسجد کا ذکر کر کے خدانخواستہ میں اپنے آپ کو لبرل نہیں ظاہر کر رہا مگر کیونکہ رمضان کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے اور آج کل مساجد میں معمول سے زیادہ رش ہوتا تو شاید پہلے تو اس موذی مرض کے پھیلاؤ کا زیادہ خطرہ نہیں تھا جتنا اب ہے۔

آج کل نہ صرف مساجد بلکہ بازاروں میں بھی خصوصاً افطار کے اوقات میں دھکے پڑ رہے ہوتے ہیں اور چھوٹی گلیوں بازاروں میں تو یوں لگتا ہے کہ کورونا تو کبھی آیا ہی نہیں تھا ، گلی محلوں میں تو لوگ یہ کہتے نظر آتے کہ ’’نون لیگ نے احتجاج دا اعلان کیتا تے نالے کورونا آ وڑیا‘‘ ، جو بہرحال ایک انتہائی نامعقول سوچ ہے۔

تادم تحریر پاکستان میں کورونا سے اموات کا 2021 کا ایک افسوس ناک ریکارڈ بن چکا ہے، 149 افراد کورونا کے ہاتھوں انتقال کر چکے ہیں جبکہ 6 ہزار سے زائد کورونا مثبت کیسوں کا بھی ریکارڈ بنا ہے جو بہت ہی خطرناک صورتحال کی پیش گوئی کر رہا ہے، اس میں سب سے زیادہ الارمنگ پہلو یہ ہے کہ ان کیسز میں سے آدھے سے زائد صرف پنجاب میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

اتوار کو جاری کردہ تفصیلات کے مطابق صرف پنجاب میں 3562 نئے کیسز سامنے آئے جن میں سے 1748 صرف لاہور کے ہیں، ملک میں جاری حالیہ دھرنوں نے بھی جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور کورونا نے خوب پر پھیلائے، اس وقت ہمیں بحیثیت قوم اس وبا کو وبا کے طور پر لینا ہو گا ورنہ یہ وبا تو ہمیں پہلے ہی بڑی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

میں نے اپنے پہلے بلاگ میں شہریوں کی جانب سے غیر سنجیدگی کا تفصیلاً ذکر کیا تھا مگر اب وفاقی بالخصوص پنجاب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کیونکہ جس تعداد سے یہ کیسز بڑھ رہے ہیں اور ہسپتالوں پر بوجھ پڑ رہا ہے ، میرے منہ میں خاک اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ لیے گئے تو یہ وبا سفاک شکل اختیار کر سکتی ہے، اس وقت صرف 9 اضلاع میں تعلیمی سرگرمیاں معطل کی گئی ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ باقی 28 اضلاع میں بھی کورونا آبادی کے تناسب سے اتنا ہی خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے جتنا لاہور جیسے ایک کروڑ کی آبادی والے شہر میں۔

اگر اضلاع میں تادم تحریر کیسز کو دیکھا جائے تو تفصیل کچھ یوں ہے، ننکانہ 111، قصور 44، شیخوپورہ 56، راولپنڈی 125، جہلم 26، چکوال 127، اٹک 28، مظفرگڑھ 9، حافظ آباد 29 اور گوجرانوالہ میں 57 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے سیالکوٹ 57، نارووال 5، گجرات 28، منڈی بہاؤالدین 31، ملتان 107، خانیوال 16، راجن پور 4، لیہ 12، ڈیرہ غازی خان 29 اور وہاڑی میں 19 کیس سامنے آئے ہیں، اب دیکھیں تو ڈیرہ غازی خان چند لاکھ کی آبادی ہے اور مسلسل کیسز سامنے آ رہے ہیں مگر پھر بھی سکول اور کالجز کھلے ہیں اور یہاں پر سب سے زیادہ کیسز سکول کے بچوں اور اساتذہ میں رہے ہیں۔

فیصل آباد ڈویژن کے تو حالات کافی نازک ہیں ، صرف فیصل آباد 229، جبکہ چنیوٹ 5، ٹوبہ ٹیک سنگھ 21، جھنگ 10 اور رحیم یار خان میں 46 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سرگودھا 159، میانوالی 6، خوشاب 26، بہاولنگر 20، بہاولپور 36، لودھراں 11، بھکر 28، ساہیوال 93، پاکپتن 81 اوراوکاڑہ میں 123 کیسز سامنے آئے، صرف پنجاب میں 97 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،

مندرجہ بالا حقائق حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں مگر پھر بھی صرف سیاسی مصلحت کے چکر میں وہ اقدامات نہیں کیے جا رہے جو وقت کی ضرورت ہیں، اب لاہور کو ہی دیکھ لیں جہاں ان نااہل حکمرانوں وجہ سینکڑوں لوگ ایک کلو سستی چین کے حصول کے لئے گھنٹوں لائنوں میں لگے رہتے ہیں، یہی حالات پنجاب بھر کے رمضان بازاروں کی ہے، ہر معاملے میں ناکام بزدار حکومت کو سیاسی نقصان اٹھاتے ہوئے سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔  اب ظلم یہ ہے کہ 9 وین سے 12 ویں کلاسوں تک کے سکول کھول دیے گئے ہیں۔ میرے ضلع راجن پور میں 4 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 2 تو صرف اساتذہ ہیں، ابھی بھی معاملات نہیں بگڑے تو حضور والا! ہوش کے ناخن لیں ، اس سے پہلے کہ کورونا موت بن کر دہلیز پر دستک دینا شروع کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments