فلم سکرین پر سیکس کو کوریوگراف کرنے والی انڈیا کی پہلی انٹیمیسی کوآرڈینٹر

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، نئی دہلی


ہالی وڈ کی معروف اداکارہ شیرون سٹون نے حال ہی میں کہا ہے کہ سنہ 1992 میں آنے والی معروف فلم ‘بیسک انسٹینکٹ’ کے ایک بدنام زمانہ منظر کے لیے ان سے دھوکے سے زیر جامہ (انڈر ویئر) اتروایا گیا تھا۔

یہ وہ منظر ہے جس میں پولیس تفتیش کے دوران وہ اپنے پاؤں کھولتی ہیں۔

حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت میں انھوں نے لکھا ہے کہ انھیں اس منظر کی فلم بندی کے دوران اپنا انڈرویئر ہٹانے کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ ‘(زیرجامہ کی) سفیدی سے روشنی منتشر ہو رہی تھی’ اور اس کے لیے انھیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ناظرین کو ‘کچھ نظر نہیں آئے گا۔’

لیکن بعد میں انھوں نے خود اور باقی دنیا نے دیکھا کہ اس میں کافی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔

اس فلم کے ہدایت کار پال وروہوین نے ان کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شیرون سٹون اس سے بخوبی واقف تھیں کہ وہاں جو ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ انھوں اداکارہ پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا۔

شیرون سٹون

لیکن شیرون سٹون کا اصرار ہے کہ جو ہوا اس سے انھیں محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اس واقعے نے انھیں تقریبا توڑ کر رکھ دیا۔

کیا اس ناگوار کہانی سے بچا جاسکتا تھا؟

انڈیا کی پہلی اور واحد سند یافتہ انٹیمیسی کوآرڈینٹر یا رابطہ کار آستھا کھنہ کا کہنا ہے کہ اس سے ‘آسانی سے’ بچا جا سکتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘اگر میں وہاں ہوتی تو میں انھیں جِلد کی رنگت کا انڈر ویئر فراہم کراتی۔’

سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب بیسک انسٹینکٹ کی فلمبندی کی جا رہی تھی اس وقت کسی نے انٹیمیسی کوآرڈینیٹر یعنی مباشرت یا جنسی تعلقات کے مناظر کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنے اور پرسکون رکھنے میں مدد فراہم کرنے والوں کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’بائیکاٹ نیٹ فلکس‘: مندر میں بوسے کی فلمبندی پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ

ہالی وڈ میں سیکس مناظر کو محفوظ بنانے والی خواتین

’میں مردوں کے گروہ کے سامنے برہنہ کھڑی نہیں ہوں گی‘

لیکن یہ ایک ایسا کردار ہے جس کی سنہ 2017 کی ‘می ٹو’ تحریک کے بعد مانگ میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد پوری دنیا کی تفریحی صنعتوں میں بڑے پیمانے پر جنسی ہراسانی اور استحصال کی باتیں اجاگر ہوئی ہیں۔

سنہ 2018 میں ایچ بی او نے اعلان کیا کہ اس نے اداکارہ ایملی میڈ کی درخواست پر سنہ 1970 کی دہائی کے نیو یارک میں سیکس اور پورن انڈسٹری پر مبنی ایک سیریز ‘دی ڈیوس’ کے لیے اپنی پہلی انٹیمیسی کوارڈینیٹر کی خدمات حاصل کیں۔ اس نیٹ ورک نے بعد میں کہا کہ مباشرت اور قربتوں کے مناظر والے اس کے تمام پروگراموں کے لیے قربت کے کوآرڈینیٹرز ہوں گے۔ جلد ہی نیٹ فلکس اور ایمازون جیسے دوسرے پلیٹ فارمز نے اس کی پیروی کی۔

اس کے بعد سے متعدد سٹوڈیوز، پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں نے سیٹ پر قربتوں کے رابطہ کاروں کا استعمال شروع کیا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں تبدیلی کی یہ ہوا انڈیا تک بھی پہنچ گئی۔

26 سالہ آستھا کھنہ کا کہنا ہے کہ ان کا کام ‘ایکشن ڈائریکٹر اور ڈانس کوریوگرافر’ کی طرح کا ہے لیکن وہ مباشرت کے مناظر کے لیے مخصوص ہے۔

انھوں نے ممبئی سے مجھے فون پر بتایا: ‘جس طرح ایکشن ڈائریکٹر سٹنٹ (کرتب) کے دوران حفاظت کو یقینی بناتا ہے، اسی طرح ایک انٹیمیسی کوآرڈینیٹر کا کام ان مناظر کی فلمبندی کے دوران حفاظت کو یقینی بنانا ہے جن میں مصنوعی جنسی تعلقات اور جنسی تشدد کے سینز شامل ہوں۔’

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیمیسی کوآرڈینیٹر ہدایت کار اور اداکاروں کے مابین رابطہ کا کام کرتے ہیں۔

‘میرا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ اداکاروں کا استحصال نہ ہو اور سٹوڈیوز کو بھی تحفظ فراہم ہو تاکہ کوئی بھی فنکار پانچ سال بعد یہ نہیں کہہ سکے کہ ان کا برا تجربہ رہا۔’

اداکاروں کے ساتھ آستھا کھنہ بات چیت کے ذریعے ان کی رضامندی حاصل کرتی ہیں اور انھیں حدود اور دائرے سے واقف کرائی ہیں، یعنی فلمبندی کے دوران سیٹ پر رکاوٹیں دور کرنے اور حفاظت یقینی بنانے کی کوشش۔

ان کی کٹ میں کروچ گارڈز، نپل پیسٹیز، جسم پر چپکنے والی ٹیپ اور ڈونٹ تکیہ ہوتا ہے جسے وہ اداکاروں کے درمیان حائل کر دیتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اداکار ایک دوسرے کو باحفاظت طریقے سے چھو سکیں۔

ماہواری سے متعلق آسکر ایوارڈ یافتہ شارٹ فلم کی پروڈیوسر منداکنی ککڑ اپنے اگلے پروجیکٹ کے لیے کھنہ کی خدمات حاصل کر رہی ہیں کیونکہ ان کا یہ پروجیکٹ ‘مکمل طور پر قربتوں (کے مناظر) پر مبنی’ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مرکزی دھارے کے سنیما میں روایتی طور پر جنسیت اور عریانیت سے پرہیز کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ چومنا بھی ممنوع ہے اور اس کے لیے فلم ساز یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ ایسی فلم نہیں بنانا چاہتے جو کوئی خاندان ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھ سکے۔

سخت حکومتی قواعد و ضوابط اور نگران سنسر بورڈ کی موجودگی میں بالی وڈ فلموں نے جنسی عمل اور قربتوں کو پیش کرنے کا تخلیقی انداز اپنایا ہے جس میں دو پھولوں کے ملن یا پرندوں کے بوسوں کے ذریعے وہ مباشرت کا اظہار کرتے ہیں یا پھر دودھ کے ابلنے سے شہوانی جذبات کی برانگیختگی کو ظاہر کرتے ہیں یا پھر بستروں کی سلوٹوں اور آلودہ چادروں سے جنسی عمل کو پیش کرتے ہیں۔

اگرچہ پچھلی ایک دہائی کے دوران انڈین فلموں میں بوسوں میں اضافے کو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اب آن ڈیماند اور سٹریمنگ پلیٹ فارم کی مقبولیت کے ساتھ انڈین سکرینوں پر سیکس کو عام دیکھا جاتا ہے۔

لیکن اداکاروں اور خاص طور پر نئی آنے والی نوجوان خواتین اداکاراؤں جن سے مباشرت کے مناظر کی توقع کی جاتی ہے ان کے لیے سیٹ پر سب کے سامنے جانا مشکل ہوسکتا ہے اور وہ استحصال کا شکار ہو سکتی ہیں۔

ماڈل سے اداکاری کی دنیا میں آنے والی انجلی سیوارامن نے حال ہی میں نیٹ فلکس سیریز ‘ایلیٹ’ کی شوٹنگ شروع کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیٹ پر کھنہ کی موجودگی نے انھیں بہت اطمینان فراہم کیا ہے۔

انھوں نے مجھے بتایا: ‘مجھے خوشی ہوئی کہ کوئی ہے جو میرا خیال رکھ رہا ہے۔’

‘مجھے ایک جنسی منظر کرنا تھا جو میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا اور وہ بھی ایک ایسے اداکار کے ساتھ جس میں ابھی ملی ہی تھی۔ مجھے سپورٹس برا اور انڈرویئر میں ہونا تھا جس سے مجھے تقریبا برہنہ ہونا محسوس ہو رہا تھا۔ میں بہت نروس (گھبرائی ہوئی) تھی۔

بوسہ

قربت کے مناظر کی عکس بندی

‘میں اپنے ساتھی اداکار کا بوسہ لینے میں سے بھی پریشان تھی کیونکہ وہ میرے لیے مکمل اجنبی تھا۔ اور میرے لیے ہدایتکار سے بات کرنا آسان نہیں تھا، خاص طور پر چونکہ وہ ایک مرد تھا۔

’لیکن آستھا نے یہ میرے لیے اسے بہت آسان بنا دیا۔ انھوں نے میرے پس و پیش کا ذکر ڈائریکٹر سے کیا اور پھر وہ بوسے والا منظر حذف کر دیا گیا۔ جنسی منظر کے دوران انھوں نے ہمارے جنسی اعضا کے درمیان ڈونٹ تکیہ رکھ دیا تاکہ اعضا ایک دوسرے کو چھو نہ سکیں۔’

وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘یہ قدرے عجیب تھا، لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ وہ وہاں موجود تھا۔’

بالی وڈ کی اداکارہ اور فلمساز پوجا بھٹ کا کہنا ہے کہ ابتدائی دور میں اداکارہ اپنی ماؤں یا منیجروں کے ساتھ سیٹ پر جاتی تھیں جو کہ بالواسطہ طور پر انٹیمیسی کوارڈینیٹر کا ہی کام کرتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے فلموں کی ہدایت کاری اور فلم سازی شروع کی تو اپنی اداکاری کے تجربے سے مباشرت کوآرڈینیٹر کی دوہری ذمہ داری لی۔

انھون نے کہا: ‘مباشرت کے مناظر کے لیے میں ایسے عملہ کو خود سے منتخب کرتی جو اداکارہ کے لیے سیٹ پر بے چینی کا باعث نہ ہوں اور ان کیہ نگاہیں بھی درست ہوں۔ سنہ 2002 میں جب میں شہوت انگیز تھرلر فلم ‘جسم’ بنارہی تھی تو میں نے اداکارہ بپاشا باسو کو بتایا کہ ایک عورت اور ایک اداکار کی حیثیت سے میں آپ سے ایسا کچھ کرنے کو نہیں کہوں جس سے آپ مطمئن نہ ہوں۔

‘فلم میں کوئی عریانی نہیں تھی، لیکن شہوت انگیزی تھی کیونکہ انھیں جان ابراہم کو بہکانا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس میں اصل کی جھلک آنی چاہیے، آپ عجیب و غریب حرکت یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ اب آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ اس میں کتنی حد تک جا سکتی ہیں۔’

بھٹ نے حال ہی میں نیٹ فلکس کی نئی ہٹ سیریز ‘بامبے بیگمز’ میں اداکاری کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیٹ پر مباشرت کے مناظر کے لیے کوئی انٹیمیسی کوآرڈینیٹر نہیں تھا لیکن اس کی ہدایتکار الانکریتا سریواستو نے انھیں پرسکون اور مطمئن رکھا۔

وہ کہتی ہیں: الانکریتا اور میں نے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی کہ ہم کس طرح مباشرت کے مناظر کو انجام دینے جا رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں، ہم نے ہدایت کار اور ساتھی فنکاروں پر بھروسہ کیا۔ اور پھر میں کسی قبیح یا گندے احساس کے ساتھ گھر واپس نہیں گئی۔’

لیکن وہ اس سے متفق ہیں کہ سیٹ پر انٹیمیسی کوآرڈینیٹر کے ہونے سے مدد ملتی ہے۔

فار ایور ٹو نائٹ فلم کا ایک منظر

Forever Tonight / Swetha Regunathan
فار ایور ٹو نائٹ فلم کا ایک منظر

انھوں نے کہا کہ ‘یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کہ نیٹ ورک سیٹ پر انٹیمیسی کوآرڈینیٹر رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ چیزین بہت حد تک بدل گئی ہیں۔ آج اگر آپ کو عجیب و غریب محسوس ہو یا جنسی ہراسانی کا سامنا ہو تو آپ کو شکایت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ تو بہت حیرت انگیز ہے، یہ پہلے زمانے کے مقابلے میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔’

تاہم کھنہ کا کہنا ہے کہ سیٹ پر ہمیشہ ان کا استقبال نہیں کیا جاتا ہے۔

اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی خدمات حاصل کرنے کا مطلب ایک اضافی خرچ ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ‘ثقافتی کھینچ تان’ پر فتح حاصل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ فنکار لازمی طور پر ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں اور پروڈیوسرز اور ہدایتکار اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے کام پر بے ضرورت رخنہ تو پیدا ہوگا۔

‘ایک ہدایت کار نے ایک بار محض مجھ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے کہا تھا کہ ‘میں اپنے اداکاروں کو بہت کم عمری سے جانتا ہوں، وہ سب میرے اچھے دوست ہیں، میں نے ان سے بات کی ہے اور ان کے اہل خانہ سے اجازت لے لی ہے۔’

‘وہ مجھے سیٹ پر رکھنے سے انکار نہیں کرسکتا تھا کیونکہ سٹوڈیو نے اس کی سفارش کی تھی اور پروڈیوسروں نے مجھے نوکری پر رکھاا تھا۔ لہذا انھوں نے مجھے بیرونی مقام پر شوٹ کے لیے بھیج دیا اور سارا دن مجھے وین میں بٹھائے رکھا۔

‘انھیں جو چیز سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح آپ کو سیٹ پر چاقو رکھتے وقت سٹنٹ ڈائریکٹر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح آپ کو میری بھی ضرورت ہونی چاہیے اگر آپ کے سکرپٹ میں مباشرت ہے۔’

بھٹ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر حیرت نہیں ہے کیونکہ بہت سارے روایتی انڈین فلم سازوں کا رویہ یہ ہے کہ ‘یہ یا تو میرا راستہ ہے یا پھر شاہراہ’ ہے۔ لیکن اگر انھیں حسب حال اور موضوع رہنا ہے تو انھیں تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔

‘تبدیلی آرہی ہے، لیکن آہستہ آہستہ۔ اس صنعت میں چند ایک ایسے لوگ ہیں جو سخت ہیں، شرمندہ کرنے والے، پسماندہ، تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ہمیں ایک دوسرے کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے کی پشت پناہی کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ طاقتور لوگوں کو بھی چیلنج کرنے خطرہ مول لے سکیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp