متن: ایک معروضی مطالعہ


متن کیا ہے؟

کسی مٖصنف کی کتاب کو ترتیب دینا، کسی کتاب کو حواشی کے ساتھ نئے سرے سے شائع کرنا، ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی نسخے کی تلاش کے بعد اسے شائع کرنا تاکہ عوام الناس کو اس سے نفع اور فائدہ پہنچے اس عمل کو تدوین متن کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ متن کیا ہے۔ اس کا تعین کیسے کیا جائے۔ متن اصل حقیقت ہے اسے بنیاد بنا کے تدوین کے عمل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ انگریزی میں اس کے لیے ٹیکسٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے متن شاعر/مصنف/ادیب وغیرہ کے اصل الفاظ ہیں۔

اصل عبارت ہوتی ہے۔ اگر اس عبارت پر کوئی تبصرہ کیا جاتا ہییا حواشی دیے جاتے ہیں تو وہ اضافی عبارت ہو گی متن نہیں ہو گی۔ متن صرف ان الفاظ اور عبارت کو ہی کہیں گے جو مصنف کی منشا کے مطابق ہوں۔ مصنف جو لکھنا چاہتا تھا۔ اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری جو انجمن ترقی اردو بورڈ کے تحت بابائے اردو مولوی عبدا لحق نے مرتب کا اس میں متن کے معانی کچھ اس طرح دیے گئے ہیں

” ( 1 ) مصنف کے اصل الفاظ، کتاب کی اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے )

( 2 ) کتاب الہی (انجیل وغیرہ) کی آیات یا آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے موضوع یا سند کے طور پر استعمال کی جائیں

( 3 ) متن (کتاب کا مضمون حواشی، تصاویر وغیرہ سے قطع نظر کر کے”

”تدوین کے لیے وہ تحریر جسے کوئی ترتیب دینا چاہے“ متن کہلائے گی۔  القاموس الوحید کے مطابق متن کے معنی ہیں کمر، پیٹھ، دو ستونوں کے درمیان کا حصہ، کتاب کی اصل عبارت، جس پر حاشیہ چڑھایا جاتا ہے اور اس کی شرح کی جاتی ہے، کمر کو دونوں طرف سے گھیرے ہوئے پٹھے اور گوشت المنجد کے مطابق متن کے معنی ہیں پیٹھ، چیز کا ظاہری حصہ، کتاب کی اصل عبارت بغیر شرح اور حاشیہ کے، دو دروں کے درمیان کا راستہ, ”فرہنگ عامرہ کے مطابق متن کے معنی ہیں کتاب کے صفحہ کی درمیانی عبارت“ علمی اردو لغت کے مطابق متن کے معنی ہیں ”کتاب کی اصل عبارت، کتاب، کپڑے یاسڑک کے بیچ کا حصہ، درمیان.

گیان چند جین اپنی کتاب تحقیق کا فن میں لکھتے ہیں

”متن اس تحریر کو کہتے ہیں جسے کوئی محقق ترتیب دینا چاہتا ہے، وہ تحلیق نظم و نثر ہو یا غیر تخلیقی مثلاً کوئی تذکرہ یا انشا کی دریائے لطافت یا گلکرسٹ کا رسالہ قواعد“

متن ایس عبارت جسے کوئی تحقیق کرنے والا ترتیب دیتا ہے چاہے وہ منظوم صورت میں ہو یا نثری صورت میں۔ چاہے تخلیقی ہو یا غیر تخلیقی۔ متن ہم ایسی عبارت کو کہیں گے جو لکھی گئی ہو جس کو پڑھا جا سکے اور جس کو سمجھا جا سکے۔ اسی عبارت متن کے زمرے میں شمار نہیں ہو گی جس کی قرات ہی ممکن نہ ہو اور نہ ہی اس کی تفہیم ہو سکتی ہو۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے مطابق ”متن کسی ایسی عبارت“ تحریر ”یا نقوش کو کہتے ہیں، جن کی قرات یا معنوی تفہیم ممکن ہو۔“ ڈاکٹر محمد خان اشرف کے مطابق ”متن کتاب کی اصل عبارت، کتاب کے صفحہ پر حوض کی عبارت، کسی ایسی زبان میں لکھی گئی تحریر یا دستاویز جس سے محقق یا مدون واقف ہے، جسے وہ سمجھتاہے، اور جسے وہ ترتیب دینا یا اس کی تدوین کرنا چاہتا ہے مصنف /شاعر کی اپنی اصل عبارت/تحریر“

ایس ایم کا ترے کے مطابق

“By a text we understand a document written in a language known, more or less, to the inquirer, and assumed to have a meaning which has been or can be ascertained. Since a text implies a written document the knowledge of writing has to be performed the basis of our study” 

متن ایسی تحریر کو کہتے ہیں جو کسی زبان میں لکھی گئی ہو، جانے والا چاہے اس زبان کو زیادہ جانتا ہے یا کم جانتا ہے اور جو عبارت یا تحریر لکھی گئی ہے اس کا مفہوم و مطلب بھی ہوتا ہے۔ جب قاری اس کو پڑھے گا تو کوئی معنی اس سے اخذ کر ے گا۔ چاہے وہ اس کا حقیقی مطلب و معنی ہو یا غیر حقیقی جو اس نے سمجھ لیا ہو گا۔ متن کے لیے جو اہم شرط ہے وہ یہی ہے کہ وہ تحریری شکل میں ہونا چاہیے۔ اور اس کی قرات اور تفہیم بھی ممکن ہو۔

ڈاکٹر خلیق انجم کے متن کے حوالہ سے اپنی کتاب ”اصول تحقیق و ترتیب متن“ میں یوں رقم طراز ہیں
” ( 1 ) متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو۔

( 2 ) متن ایسی تحریر ہے جو کاغذ پر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ، مختلف دھاتوں کے ٹکڑوں، مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں، پتوں، پتھروں، یا چمڑوں یا چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔

( 3 ) متن نظم بھی ہو سکتا ہے اور نثر بھی

( 4 ) متن ہزاروں سال قدیم بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے عہد کے کسی مصنف کی تحریر بھی۔ اس کے لیے زمانے اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔

( 5 ) ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحے کی مختصر سی تحریر، دونوں متن ہو سکتے ہیں۔

( 6 ) متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہواگر سینکڑوں کے عرصے میں نقل در نقل کی وجہ سے متن مسخ ہو گیا ہو تو اس کے اصل الفاظ کا تعین کیا جاسکے۔

( 7 ) جس مطبوعہ یا غیر مطبوعہ تحریر کو متنی نقاد مرتب کرنا چاہتا ہے اسے متن کہتے ہیں۔
وکی پیڈیا کے مطابق متن کی تعریف یوں ہے

A literary text is a piece of writing, such as a book or poem that has the purpose of telling a story or entertaining, as in a fictional novel. Its primary function as a text is usually aesthetic, but it may also contain political messages or beliefs.

وکی پیڈیا فری انسائکلو پیڈیا کے مطابق متن یہ ہوتا ہے

“In literary theory, a text is any object that can be” read “, whether this object is a work of literature, a street sign, an arrangement of buildings on a city block, or styles of clothing. It is a coherent set of signs that transmits some kind of informative message. This set of signs is considered in terms of the informative message ‘s content, rather than in terms of its physical form or the medium in which it is represented.

Within the field of literary criticism, “text” also refers to the original information content of a particular piece of writing; that is, the “text” of a work is that primal symbolic arrangement of letters as originally composed, apart from later alterations, deterioration, commentary, translations, pretext, etc. Therefore, when literary criticism is concerned with the determination of a “text” , it is concerned with the distinguishing of the original information content from whatever has been added to or subtracted from that content as it appears in a given textual document (that is, a physical representation of text) . “

متن کی ان تعریفوں کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ متن کی پہلی خاصیت و خوبی یہ ہے کہ وہ لکھا ہوا ہو۔ تحریری شکل میں ہونا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوک گیت ہیں جو عوام میں مقبول عام ہیں۔ لوگ گنگناتے بھی ہیں۔ ان گیتوں کے بول کی ادائیگی سے لذت و بہجت اور سرور بھی حاصل کرتے ہیں لیکن تحریری شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے ان کو متن میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ متن کس چیز پر لکھا ہونا ضروری ہے۔ کیا صرف کاغذ پہ لکھے کو ہی متن کہا جائے گا۔

متن کاغذ، دھات، لکڑی، پتھر، چمڑے، چٹان، چھال یا کپڑے پر لکھی ہوئی کوئی تحریر جس کی قرات اور تفہیم ممکن ہو۔ متن میں شمار کی جائے گی۔ متن کے لیے کسی خاص صنف ادب کی کوئی قید نہیں ہے۔ متن نثر کی شکل میں یا منظورم صورت ہر دو طرح ہو سکتا ہے۔ قدامت او ر جدت بھی متن کے متن ہونے پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ متن قدیم تحریر بھی ہو سکتا ہے اور جدید بھی۔ کربل کتھا، خالق باری، سب رس، قلی قطب شاہ کا دیوان بھی متن ہو گا، مجید امجد کا کلیات بھی متن ہی ہو گا۔ طوالت اور اختصار متن کی صورت پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ متن طویل بھی ہو سکتا ہے اور مختصر بھی۔ متن کے لیے با معنی ہونا لازم ہے۔ اگر کوئی متن مسخ ہو کے بے معنی ہو گیا ہو یا کسی پا گل کی تحریر کو متن نہیں کہا جائے گا۔ متن کے لیے قابل قرات اور قابل تفہیم ہونا ضروری ہے۔

تحقیق متن کے سلسلے میں چند ایک بنیادیں باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے
متن کی ہیئت یعنی حدود کا تعین کیا جانا چاہیے
الحاق اور اضافہ جات کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔ تصرفات بھی اسی ذیل میں آئیں گے۔
متن کے گمشدہ سلسلوں کی بازیافت کی جائے
متنی حقائق کی جستجو اور چھان بین بھی کی جانی چاہیے

انسانی ارادے بھی متن میں بعض تبدیلیوں کا باعث ہوتے ہیں۔ خط اور املا کا مصنف کے زمانے اور ذہن سے بہت مضبوط رشتہ اور تعلق ہے اور اسی سے بعض تحریروں کے حوالے سے مفید کام کیا جا سکتا ہے۔ تالیفی نوعیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ بعض متون ایک سیزیادہ زبانوں میں موجود ہوتیہیں اور بعض متون میں مختلف علوم کا بیان ملتا ہے۔ ہیئتوں کا بھی فرق ہوتا ہے۔ بعض الفاظ کے معانی ایک سے زیادہ جہتیں رکھتے ہیں۔ بعض متن ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی توضیع اور تشریح بھی گئی ہوتی ہے۔

ایسی عبارات بھی ملتی ہیں۔ یہ توضیحات اور تشریحات بعض اوقات خود مصنف کی طرف سے ہوتی ہیں اور کبھی کبھی کاتب یا ناقل بھی اسے اپنی طرف سے شامل کر دیتا ہے۔ استناد متن اور روا یت متن کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسے ہم اصل متن اور اضافی متن کہ سکتے ہیں۔ املائی متن کی صورت بھی غلطیوں کا احتمال ہو سکتا ہے۔ سننے والا بعض دفعہ درست سنتا ہے اور لکھتا بھی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ درست نہ سننے کی وجہ سے وہ غلط سمجھے اور اسے ہی لکھ دے۔ سماعی متن کی صورت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایسا متن جو لوگوں میں زبانی تو موجود ہو لیکن اسے بہت بعد میں لکھا جائے اس میں بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ بعض متون کی قلمی یا مطبوعہ صورت میں صرف ایک ہی روایت دستیاب ہوتی ہیبعض کے متعدد قلمی نسخے ملتیہیں۔ بعض متون کے قلمی نسخے مختلف رسم الخط میں بھی ملتے ہیں۔

ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں

” متن کی مختلف جہتوں اور نوعی صورتوں کا استحصائ مشکل ہے ہر متن ایک مستقل وجود رکھتا ہے اور اپنی مختلف روایتوں کی شکل میں اپنے ایک سے زیادہ ذیلی و ظلی وجود رکھتا ہے۔ اس طلسم خانے میں اتر کر متون کی صحیح ہیئت اور حدود و روایت کا تعین ایک نہایت اہم مشکل مگر نتیجہ خیز کام ہے جس کے لیے غیر معمولی سطح پر ذہنی کاوش اور اہتمام تلاش جزئیات ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے۔“

مصادر، سند اور متنی تبدیلیوں کی بنیاد پر متن کی مختلف اقسام ہیں۔ مصادر کے اعتبار سے صرف قلمی نسخہ، مطبوعہ اور قلمی نسخہ دونوں، وحید نسخہ، متعدد نسخے کی تقسیم کی جاتی ہے۔

سند کے اعتبار سے اساسی متن اور استشہادی متن کی تقسیم کی جاتی ہے۔ دستخطی نسخہ جو مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہو اسے اساسی متن تصور کرتے ہیں۔ اور دوسرے تمام قلمی نسخے جنہیں مستند قرار دیا گیا ہو انہیں استشہادی متن کے ذیل میں رکھیں گے۔ متنی تبدیلیوں کے اعتبار سے ترمیم، تعبیر، تنسیخ، تصحیح، تصحیف، غلط انتساب، ادبی دیانت کی تقسیم کی گئی ہے۔ نا معلوم اسباب کے تحت ہونے والی تبدیلیاں ترمیم، مبہم الٖفاظ کی وضاحت کے لیے بڑھائی گئی عبارت تعبیر، جان بوجھ کر متن یا اجزائے متن کو منسوخ کرنا تنسیخ، صاحب متن کی خواہش کے مطابق متن میں لائی گئی تبدیلی تصحیح، صاحب متن کے علاوہ اگر کسی دوسرے نے دانستہ کوئی تبدیلی کی ہو تو وہ تصحیف ہو گی۔ غلط انتساب کبھی خواہش اور ارادے کے تحت ہوتا ہے اور کبھی کاتب اور نقل در نقل کے نتیجہ میں ایسا ہو جاتا ہے۔ کبھی کتابو ں یا مصنفین کے ناموں کی مشابہت کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہے۔

ادبی دیانت متن کو ترتیب دینے کے لیے اہم ہے۔ لیکن آج ک معاشرے میں یہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی متن میں تبدیلی ممکن ہے۔

متن کو ترتیب دینے کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے

1۔ مدون کو خطی نسخوں کی قدامت کے تعین کے لیے مختلف ادوار کے طرز املا اور تاریخ خط کا علم ہونا ضروری ہے۔

2۔ کاغذ اور سیاہی کا علم اس بات کیتعین میں معاون ہو گا کہ خطی نسخۃ کتنا پرانا ہے اور سیاہی کس دور کی ہے۔

3۔ محقق کو مختلف ادوار کے اسالیب سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ خطی نسخے کے متن کا اسلوب اس کا زمانہ تصنیف متعین کرنے میں معاون ہو گا۔

4۔ مدون کو مختلف ادوار کی زبان اور ہر دور کے وہ الفاظ جو اس سے پہلے دور میں موجود تھے یا بعد میں متروک ہو گئے کا علم ہونا چاہیے تا کہ کسی تحریر کو کسی دور یا اس دور کے مصنف سے منسوب کرنے کی اہلیت حاصل ہو سکے۔

5۔ مدون کو ادبی تاریخ کا پورا علم ہونا چاہیے۔ تاریخ میں موجود تحریکات و رجحانات کا علم ہونا چاہیے۔
6۔ سیاسی اور سماجی تاریخ کا علم متن کے عہد کا تعین کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
7۔ مصنف کے حالات زندگی سے واقفیت ہونا چاہیے۔

8۔ جب سے پریس رائج ہوا ہے اس دور کے شعرا کا کلام مرتب کرتے ہوئے اخبارات و رسائل کا مطالعہ بھی ضروری ہے

متن کو چوں کہ منشائے مصنف کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے اس لیے ان مشکلات کا ذکر بھی ضروری ہے جو ایک مدون کو متن کو ترتیب دیتے یا تصحیح کرتے پیش آتی ہیں۔

1۔ مدون کو مطبوعہ اور غیر مطبوعہ ہر دو نسخہ جات تک رسائی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تا کہ اصل عبارت تک پہنا جا سکے۔

2۔ مختلف نسخہ جات کی فراہمی کے بعد نسخہ جات میں اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے اساسی نسخہ کا تعین کیا جاتا ہے

3۔ متن کے دیگر ماخذات تک پہنچنا ہوتا ہے تا کہ متن کی حقیقت تک رسائی حاصل ہو

4۔ جس مصنف کی کتاب کے متن کو ترتیب دیا جا رہا ہے اس کی اگر اور بھی تحریریں ہوں تو ان تک رسائی، تا کہ مصنف کے اسلوب اور طرز املا تک درست رسائی ممکن بنائی جا سکے

5۔ متن کے متعلق مواد کی فراہمی کے بعد تدوین کے اصولوں کی روشنی میں اس کو ترتیب دینا ہے

6۔ متن کو ترتیب دیتے وقت جس زبان کا متن ہے اس سے کلی واقفیت ہونا چاہیے تا کہ مصنف کے املا وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جا سکے

7۔ متن کو ترتیب دیتے وقت حواشی لگانا پڑتے ہیں، عبارت پر تبصرہ کرنا پڑتا ہے۔ بات کی تفہیم کے لیے اس کی وضاحت کرنی پڑتی ہے، متن کے مرتب کو حواشی، تعلیقات اور فرہنگ کے اصولوں سے آگاہی ہونا چاہیے۔

8۔ متن کی ترتیب و تصحیح کے بعد مقدمہ لکھا جاتا ہے، جس میں کتاب کے حوالہ سے بنیادی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ مرتب اپنے طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے، کتاب کو ترتیب و تصحیح کے وقت جن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا، اس سے قاری کو آگہی فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ مقدمہ کیسے لکھا جاتا ہے، اس کے طریق اور اسلوب سے کلی واقفیت ضروری ہے۔

اگر شعری متن کی ترتیب و تصحیح کا کام کیا گیا ہے تو اس کی مشکلات الگ سے ہوں گی۔

مدون کو علم عروض پر بھی عبور ہونا چاہیے۔ اگر مدون کو علم عروض سے آگہی ہے تو متن میں سے مشکوک کلام کی پہچان کرنا اس کے لیے بہت آسان ہو گا۔ یہ علم اس کی رہنمائی کر ے گا۔

مدون کو شاعر کے عہد کی زبان پر بھی عبور ہونا چاہیے۔ زبان سے واقفیت بھی مشکوک متن کے اخراج میں معاونت کرے گی۔ صرف وہی کلام مدون مرتب کرے گا جس کی حقیقت سے وہ واقف ہو گا۔ مشکوک کو چھانٹ کر الگ کر دے گا اور حواشی میں اس کے اخراج کے وضاحت بھی کر دے گا تا کہ مزید محققین بھی اس کو جانچ پرکھ لیں

مدون کو ان تما ماخذات کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے جن سے شاعر کا کسی نہ کسی طرح تعلق رہا ہو۔ جتنا زیادہ ماخذات تک رسائی ہو گی اسی قدر کلام کے ترتیب میں آسانی ہو گی۔ شعرا کا کلام مختلف بیاضوں، اخبارات، رسائل میں بکھر ا ہوتا مل جاتا ہے۔ ماخذات تک رسائی اگرچہ دقت طلب کام ہے، لیکن جو حوصلہ رکھے اور محنت کرے وہ مناسب متن کو مدون کر کے پیش کر کے اپنی لیے داد بھی سمیٹے گا۔ اور حقیقت تک رسائی کے باعث اس کے کام کو وقیع تصور کیا جائے گا۔

متن ایسی عبارت ہے جو تحریری صورت میں ہو تا ہے۔ کسی زبان میں لکھا گیا ہوتا ہے۔ متن پتھر، چٹانوں، پتوں، کاغذوں، اینٹوں، چمڑے پر لکھا ہو ا ہو سکتا ہے۔ متن کی قرات اور تفہیم ممکن ہوتی ہے۔ ایسی عبارت جو نہ پڑھی جا سکے یا نہ سمجھی جا سکے اس کو متن میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ متن نہایت وقیع ہو تا ہے۔ متن کی بنیاد پر تحقیق و تنقید کا عمل آگے بڑھتا ہے۔ ادب آگے بڑھتا ہے۔ سوچ و فکر اور خیال جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ درست بات تک رسائی کی بدولت انسان پہلے سے معلوم حقائق سے آگے کی بات کرتا ہے۔

”تاریخی تحقیق میں سب سے زیادہ اہمیت متن کی ہوتی ہے۔ ماضی کے افراد کے افکار و خیالات جو ہمارے سامنے آتے ہیں، وہ تحریری شکل میں ہوتے ہیں اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحریر ہر طرح کے سقم سے پاک ہے، اس وقت تک ہم یہ نہیں کہ سکتے کی جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ بعینہ فلاں شخص کے افکار و خیالات ہیں اور جب تک کسی کے متعلق متحقق نہ ہو جائے کی یہ اس کے خیالات ہیں، اس وقت تک دیانتداری سے گفتگو کا آغاز ہی نہیں ہو نہیں ہو سکتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments