میں خوفزدہ ہوں کیونکہ میری تین چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں


میں ایک عام آدمی ہوں، ایم اے فلسفہ میری تعلیم ہے، تین بیٹیوں کا باپ ہوں، میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں سوشل میڈیا پہ کوئی دل کی بات لکھتا ہوں اور پوسٹ کر دیتا ہوں تو بعد میں خیال آتا ہے کہ میری اس بات سے فلاں طبقہ ناراضگی کا اظہار کرے گا اور ہو سکتا ہے وہ مجھ تک پہنچ جائیں۔ میری چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ میں پوسٹ ڈیلیٹ کر دیتا ہوں۔ اور یہ سوچنے لگتا ہوں کہ میں موت سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ ڈرتا ہوں، میں سخت بزدل ہوں اور مجھے نفسیاتی عارضہ لاحق ہے۔ اور شاید ایسا ہی ہے۔

میں کسی نفسیاتی معالج کے پاس اس لیے نہیں جاتا کہ وہ مجھے پتہ نہیں کون سی بیماری بتائیں گے اور علاج کتنا مہنگا ہو گا وغیرہ وغیرہ، سو میں چند نفسیات دان دوستوں سے کبھی کبھار اس طرح کی گفتگو کر لیتا ہوں اور وہ مجھے فوبیا بتاتے ہیں، یعنی نفسیاتی طور پہ کچھ چیزوں سے خوف لاحق ہونا۔

ایک بار یوں ہوا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ایسی جگہ گیا جہاں کرکٹ میچ پہ جوا لگا کر میچ دیکھا جا رہا تھا۔ میں تھوڑی دیر ان کا طریقہ کار سمجھنے کی کوشش کرتا رہا، پھر مجھے اچانک خیال آیا کہ اگر پولیس آ گئی تو کیا ہو گا۔ یہ سب تو وکیل ہیں اور میں ایک ادارے میں استاد، میری عزت کا تو جنازہ نکل جائے گا۔ میں باقی وقت سڑک پہ ٹہلتا رہا، وہ جوا کھیل کے واپس نکلے تو میں ان کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ دوران سفر میرے دوست میرے قانون سے ڈرنے کی وجہ سے میرا تمسخر اڑاتے رہے۔ مجھے قانون فوبیا بھی ہے۔

جب ماڈل ٹاؤن سانحہ ہوا، میں بڑا رنجیدہ تھا۔ میرے ایک دوست نے کہا نون لیگ نے جو کیا ہے درست کیا ہے۔ ریاست کو یہی کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس کے لیے بد دعا کی کہ ریاست تمہارے ساتھ ایسا کرے اور تمہیں سمجھ آئے کہ مظلوم پہ کیا گزرتی ہے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا ان کی جگہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کو پسند آ گئی، وہ احتجاج کرتے رہے اور ایک دن احتجاج کے دوران سرکاری مشینری حرکت میں آئی، اس کے والد کی اس کے سامنے وہ پٹائی ہوئی کہ الامان۔

وہ تھانے کے ذریعے ہسپتال پہنچ گئے، اس کے بھائی کا بازو ٹوٹ گیا، وہ خود بھی اچھا خاصا زخمی ہو کر تھانے پہنچا اور وہاں اسے جس انداز میں سمجھایا گیا کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کی ان کی زندگی کے لیے کیا اہمیت ہے۔ تو بعد میں جب بھی گوجرانوالہ سے وہ لاہور آتا تو مجھے کہتا خدا کے لیے آئندہ کسی کو بد دعا مت دینا، تمہاری زبان کالی ہے۔ اور میں اس کے لیے اس قدر شرمندہ ہوتا کہ جیسے واقعی یہ سب میں نے کیا ہو، میں اس کے بعد کسی کو مذاق میں بھی بد دعا نہیں دیتا۔ مجھے شاید بد دعا فوبیا بھی ہے۔

بلکہ یاد آیا جب میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ کا طالب علم تھا تو شعبۂ ابلاغیات کے میرے کچھ دوستوں نے این ایس ایف کی بحالی کی لیے کوشش شروع کی تو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا، ہمیں ہماری توقع سے بھی زیادہ رسپانس ملا، لیکن ہم تھوڑے آلسی اور وسیع النظر واقع ہوئے تھے، ہم نے سوچا ایک تنظیم کی بحالی سے بہتر ہے کہ انقلاب کے لیے ہی کوشش کی جائے، سو ہم سرخ انقلاب کے رستے ہموار کرنے لگے، چند بزرگان کے مشورے ہمارئے لیے مشعل راہ تھے، کبھی فلاں پارٹی کا جلسہ، کبھی فلاں کی ہڑتال، کبھی یہ احتجاج کبھی وہ احتجاج۔

ہمیں کوئی بیس جماعتوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ 2010 میں جمعیت سے پنگا ہو گیا، ہمارے دوست کاشف کو ایک خاتون ہم جماعت کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ ناظم صاحب نے تھپڑ مارا تو کاشف نے جواباً تھپڑ رسید کر دیے۔ ناظم صاحب کی تو بے عزتی ہو گئی۔ جمعیت فلسفہ ڈیپارٹمنٹ پہ چڑھ دوڑی، ہمارے اساتذہ نے ہمارا ساتھ دیا اور سارے ڈیپارٹمنٹ فیلوز اور یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی خواتین نے ہمارا ساتھ دیا لیکن بیس جماعتوں کا ایک کارکن بھی نہ آیا۔ ہم وی سی آفس تک احتجاج ریکارڈ کرانے میں بھی کامیاب ہو گئے، لیکن ایک رات ہاسٹل میں دو بجے کے قریب جمیعت کے اہلکار اسلحہ سمیت ہم پہ ٹوٹ پڑے۔ پہلے تو ہم برابر تھے لیکن جب فائرنگ شروع ہوئی تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم کس قدر غیر محفوظ معاشرت کا حصہ ہیں۔

ہمارے دوستوں شاہ رخ رشید، شاہد علی خان، مظہر ہدایت کو بہت زیادہ زخم آئے، انہیں ایمبولینس میں ہسپتال لے جاتے ہوئے ہمیں ہاسٹل میں فائرنگ کی فوٹیج بناتی میڈیا ٹیمیں اور گاڑیاں دکھائی دیں، لیکن صبح تک نہ کسی اخبار میں کوئی خبر تھی اور نہ ٹیلی ویژن پہ کوئی خبر، صرف دو انگریزی اخباروں نے چھوٹی سی خبر لگائی تھی کہ پنجاب یونیورسٹی میں دو طلبا تنظیموں کے درمیان تصادم میں چند طلبا زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ، پولیس سب نے ہمیں مایوس کیا، سو مجھے اس دن کے بعد جمیعت فوبیا ہو گیا۔

میرا تعلق عوام سے ہے سو میں اپنے تئیں عوام ہی کی طرح سوچتا ہوں لیکن میں عوام کی طرح عمل نہیں کرتا مثلاً میں مذہبی، سیاسی اجتماعات میں نہیں جاتا، مجھے یہ سب کچھ مصنوعی مصنوعی لگتا ہے، اور شاید یہ فلسفہ کی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ لیکن پچھلے دو سال سے میں مذہبی اجتماعات میں جانے لگا ہوں کیونکہ لوگ میرے بارے چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ یہ فلاں عقیدے پہ ایسی بات کرتا ہے اور فلاں عقیدے پہ ایسی بات۔ حالانکہ میں کبھی مذہبی موضوعات پہ عوامی مقام پہ گفتگو نہیں کرتا، پھر بھی میری مت ماری گئی کہ میرا ”نفرت پھیلانے والی مشینیں بند کرو“ کے عنوان سے ایک مضمون ’ہم سب‘ پہ شائع ہوا تو ایک میٹھی میٹھی مذہبی جماعت کے دوستوں نے وہ کڑوی کڑوی باتیں سنائیں کہ میرا لکھنے سے دل ہی اچاٹ ہو گیا، میں مذہبی فوبیا میں بھی مبتلا ہو گیا۔

یہی وجہ ہے کہ مجھے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں جس طرح حکومتی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس طرح ایک معتدل ہجوم کو مشتعل کر کے لاہور کو لہولہان کیا گیا کے پیچھے ٹیلیویژن پہ ”میرے عزیز ہم وطنو! موجودہ حالات کے پیش نظر ہمیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا، ہم تین ماہ میں سب معاملات درست کر کے۔ وغیرہ وغیرہ“ کی آواز سنائی دے رہی ہے مگر میں کبھی نہیں کہوں گا کہ حکومتی رٹ کمزور ہے اور ملک پہ مارشل لاء کے سائے منڈلا رہے ہیں کیونکہ میری تین چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے لیے پلے کارڈ اٹھا کے کسی سڑک پہ بیٹھیں۔ میں نفسیاتی مریض ہوں مجھے سیاسی فوبیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments