پنجاب ہوشیار باش


‏افغان جنگ کے تیس برسوں میں سرگرم شمولیت کے اعتبار سے پنجاب، پشتون بلیٹ کے بعد دوسرے نمبر پر رہا۔ جنوبی پنجاب مذہبی شدت پسندی کی بین الاقوامی تحریک کی عملی تائید و حمایت میں پیش پیش رہا ہے۔ نیز فکری و افرادی قوت کی فراہمی میں بھی یہی خطہ نمایاں رہا ہے۔ جہادی اسلام کو زیادہ تر سعودی و دیگر عرب‏ ممالک کی خطیر مالی و فکری امداد حاصل رہی۔ جس نے اس میں علاقے مذہبی شدت پسندی کی جڑیں گہرائی تک اتار دیں۔ امریکہ نے اس کار خیر کو موقع غنیمت جان کر خوب فائدہ بٹوارا اور اپنے سخت جان حریف سویت روس کو ٹھکانے لگایا اور واحد سپر پاور بن کر دنیا پر مسلط ہوا۔ تین دہائیوں تک دیوبندی، وہابی اسلام کے شیدائی ریاست کی آنکھ کا تارا اور ہاتھ کا چھالا بنے رہے۔ ہر قسم کے مالی وسائل اور آمد و رفت کی کھلی چھٹی سے اپنے اثر و رسوخ کو ملک کے طول و عرض میں مضبوط کیا۔

افغانستان سے روس کی شکست خوردہ پسپائی نے سویت یونین کو مکمل تباہی سے دوچار کر دیا جس کے بعد امریکی ڈاکٹرائن نے ”سکریپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ’مقدس جہاد‘ کے ’سکریپ‘ کو ری سائیکل کر کے پاکستان کے لیے داخلی خلفشار اور چیلنجز پیدا کیے۔ مقدس جہاد کے کلیدی پارٹنر کو بھاری امداد کی فراہمی حیلے بہانوں سے معطل کی جانے لگی۔ عالمی اتحاد کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان کے گرد سرخ دائرہ لگا کر اس کی مشکیں کس دی گئیں۔

دوسری جانب پاکستان میں جمہوری عدم تسلسل اور فوجی آمریتوں نے ریاستی فیصلہ سازی پر عملاً طاقتور ادارے کا کنڑول اس قدر مستحکم کر دیا کہ جس پر سوال اٹھانا ریاست سے غداری کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ ریاست و حکومت میں طویل مداخلت نے طاقت ور و بالادست ادارے کی نت نئے اہداف تک رسائی کی نہ ختم ہونے والی اشتہاء کو جنم دے کر مزید پیچیدگیوں کے دروازے کھول دیے۔ تیزی سے کم ہوتی سیاسی و جمہوری گنجائش نے داخلی گھٹن اور عوامی مایوسی میں اضافہ کیا۔

امریکہ اور مغربی دنیا کی جانب سے ’ڈو مور‘ کے نام پر ہونے والے دھمکی آمیز اصرار نے ڈرون حملوں کی شکل میں پاکستانی قبائلی علاقوں پر بارود برسانا شروع کر دیا۔ چونکہ ان حملوں کو پاکستانی فیصلہ سازوں کی خاموش حمایت تھی جس کے ردعمل کے طور پر تحریک طالبان پاکستان اور دیگر چھاپہ مار گروپوں نے انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے فوجیوں و سویلینز کو ہدف بنانا شروع کر دیا۔ گڈ طالبان/بیڈ طالبان کے مخمصے کا شکار حکومت و عسکری قیادت کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے زور پکڑتے عالمی دباؤ اور اندرون ملک بڑھتی ہوئی دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ذریعے مفصل آپریشن پر مجبور ہونا پڑا۔

افغان جہاد کا لانچنگ پیڈ یہی قبائلی علاقے تھے اور ماضی کے مجاہد اور حال کے دہشت گرد اس خطے کے چپے چپے سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنے خلاف پاک فوج کے منظم فل فلیج آپریشن کے دوران ریاست کی تربیت یافتہ انتہائی پروفیشنل فوج کو اس قدر شدید جانی و مادی نقصان سے دوچار کیا جو بھارت کے ساتھ تین باقاعدہ جنگوں سے کہیں زیادہ تھا۔ دوسری طرف ان کارروائیوں نے انسانی المیے کو جنم دیا، ‏لاکھوں قبائلی اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوئے، رہائش، تعلیم، روزگار صحت کے مسائل سے دوچار ہو کر بدترین مصائب کا شکار ہوئے۔ ہزاروں مختلف الزامات پر جیل گئے، گمشدہ ہوئے یا مارے گئے۔ تمہید طویل ہو گئی شاید مگر یاد رہے کہ ریاست کے افغانستان میں سٹریٹجک ڈپتھ کے ناکام ایجنڈے کی بھاری قیمت اٹھانے والوں میں پشتونوں کا حصہ کسی دوسرے سے کہیں بڑھ کر رہا۔

آج پنجاب بھر میں توہین مذہب اور حکومت وقت سے ہونے والے معاہدے کو لے کر کہرام برپا ہے جو ماضی کے ناکام تجربے کی باز گشت کی طرح ہے۔ دیوبندی جہادی اسلام کے ناکام و خون آشام تجربے سے پنجاب کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی یا بین الاقوامی کار پردازوں کے جھانسے میں آ کر وقتی مفادات کا پٹھو بن کر تدبر اور منطقیت کی راہ چھوڑنے والے گھاٹے کے سوداگر ہیں۔

پنجاب آج کل ’بریلوی رائز‘ کے رنگین خوش کن سہانے خواب دیکھ رہا ہے۔ جو درحقیقت راکھ اور خون کے سوا کچھ نہیں اور اس خلفشار کا انجام کسی صورت قبائلی عوام کے دیوبندی وہابی مقدس جہاد سے مختلف نہ ہو گا۔ ماضی کی بربادی، تاریخ کی کتاب میں مفصل درج ہے۔ جبکہ دیکھنے والی آنکھوں کے لئے قبائلی عوام اور پشتون قوم کی طویل، کٹھن اور مستقبل قریب میں نہ ختم ہونے والے آلام باعث عبرت ہونا چاہیے۔ بظاہر غلبے کو جانے والا یہ راستہ تباہی کی گہری کھائی کو جاتا ہے، یہ وہ فیصلہ کن موقع ہے جس کی قیمت پنجاب کی آنے والی کئی نسلوں کو چکانا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments