کورونا سے متعلق حکومتی ناکام تعلیمی پالیسی


وہی ہوا جس کا ڈر تھا حکومت نے ایک بار پھر تعلیمی اداروں کی تالہ بندی کا اعلان کر دیا۔ عیدالفطر تک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ وفاقی وزیر تعلیم کا حکم نامہ آ چکا ہے۔ خبر تاخیر سے ملی۔ ٹیکنالوجی اور ٹی وی سے دور خبر کی تصدیق تعلیمی ذمہ داران سے کرنی پڑی۔ پرائمری اور مڈل سیکشن بند رہیں گے۔ آٹھویں جماعت کے امتحانی نتائج کا اعلان ہونا باقی ہے ، نویں اور دسویں کلاسز کے سالانہ امتحانات جاری ہیں تو پرائمری سے لے کر ہائی سکولز بند رہیں گے۔

یہ پہلی بار نہیں بلکہ تیسری بار ہے کہ کورونا کو لے کر تعلیم کا میدان نشانہ بن چکا ہے۔ پہلی بار فروری 2020 کو کورونا کو لے کر تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے۔ تعلیمی اداروں کو 8 ماہ کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کا حل سرکاری سطح پر آن لائن تعلیمی سلسلے سے کیا گیا مگر چند ماہ گزر جانے کے بعد آن لائن کلاسز کو لے کر حکومتی اقدامات کو ہدف تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

آن لائن کلاسز کا طریقہ کار وہاں کارگر اور کامیاب ثابت ہو سکے گا جہاں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا نظام بہتر ہو۔ ملک کے زیادہ تر حصے انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ آن لائن کلاسز کو لے کر حکومتی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوئی اور ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو 8 ماہ کا نقصان تعلیمی اداروں کی بندش کی صورت میں اٹھانا پڑا۔

یکم اکتوبر 2020 کو ایک بار پھر سے تعلیمی اداروں کے کھولنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ ابھی دو ماہ کا عرصہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حکومتی سطح پر دوبارہ تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کیا گیا۔ اعلان کا اطلاق ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں پر کیا گیا۔ 26 نومبر 2020 کو تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔ کھولنے کے احکامات یکم فروری 2021 کو جاری کیے گئے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی والدین اور بچوں نے سکھ کا سانس لیا۔

بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں سالانہ امتحانات 15 مارچ سے منعقد کیے گئے۔ یکم اپریل 2021 کو نئے تعلیمی سال کا آغاز کر دیا گیا۔ ابھی 18 دن ہی گزرے تھے کہ ایک بار پھر سے تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان سامنے آ گیا، بندش کا یہ سلسلہ عیدالفطر تک جاری رہے گا۔

کورونا کو لے کر حکومت اب تک ٹھوس پالیسی وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کو لے کر اب تک جو بھی پالیسی بنی ہے وہ وقتی ثابت ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وبا کو لے کر 8 ماہ کی طویل تعلیمی چھٹیوں کے دوران بیٹھ کر ایسی پالیسی بناتے کہ اسے طویل دورانیے تک آگے لے جانے میں آسانی ہوتی۔ طلبا و طالبات اور اساتذہ کو ذہنی اذیت سے چھٹکارا مل جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

تعلیمی اداروں کے اندر ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے ہوائی اعلان تو کیے گئے مگر زمین پر اس کا اطلاق کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ کورونا وارڈ کا قیام تو دور کی بات کووڈ کے ٹیسٹ لیے گئے نہ ہی سکولوں کو ماسک فراہم کیے گئے، نہ ہی ہینڈ سینی ٹائزر اور نہ ہی ٹیمپریچر چیکر فراہم کیے گئے اور نہ ہی آگاہی سیشنز کرائے گئے۔ جب بھی حکومت کو کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے وقتی ریلیف لینے کے لیے تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کیا ، پھر کھول دیے گئے ، پھر بند کیے گئے۔

حکومتی ترکیبوں نے آنے والے وقتوں میں ایک بڑے خلا کا سامان پیدا کیا ہے۔ اب کاہلی کا دور دورہ ہو گا۔ بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے جو پہلے ہی تباہ حال تھے ، جہاں تعلیمی شرح 30 فیصد کے آس پاس تھی، ان اقدامات و اعلانات سے مزید نیچے چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments