حکومت، حکمت اور تشدد


گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک بھر اور خصوصاً لاہور میں پیش آنے والے واقعات انتہائی افسوس ناک اور قابل تشویش ہیں۔ کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری سے لے کر چوک یتیم خانہ پر ہونے والی پرتشدد کارروائیوں تک کی صورتحال نے نہ صرف حکومت کی حکمت، تدبر، حکمت عملی اور پلاننگ پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ یہ تمام صورتحال اس امر کی غماضی بھی کرتی ہے کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کسی نہ کسی صورت میں ہمارے معاشرے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنے اثرات کے ذریعے ہمارے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز ایک طویل عرصہ تک شدت پسندی اور انتہا پسندی کا شکار رہا ہے جس کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی نے پاکستان کو جانی اور مالی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پھر مذہب کے نام پر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔

عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دہشت گردی کو کچھ اس انداز سے فروغ دیا گیا کہ اس کا ردعمل پوری دنیا میں دیکھنے کو ملا مگر پاکستان سب سے بڑھ کر ایک طویل عرصہ تک اس لیے دہشت گردی کا شکار رہا کیونکہ پاکستان نے صف اول کے اتحادی کے طور پر اس جنگ میں حصہ لیا اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتا مگر اس دہشت گرد سوچ کے خاتمے کے لیے پوری قوم نے متحد ہو کر جدوجہد کی اور بہت حد تک کامیابی حاصل کی۔

مگر اب صورتحال بہت حد تک مختلف ہے معاملہ آقا حضور ﷺ کی ناموس سے وابستہ ہے، مسلمان چاہیے کتنے بھی کمزور عقیدے کا کیوں نہ ہو مگر ناموس رسالتﷺ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتا، آج بھی عام لوگوں سے بات کی جائے تو ان کے لہجے میں جہاں ایک طرف عقیدت جھلکتی ہے، وہاں دوسری طرف ان کی گفتگو میں غم و غصہ دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ یہ تمام معاملہ کئی ماہ پہلے کا ہے مگر حکومت نے اس سنجیدہ معاملے کے حل کے لیے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت میں ایسی نوبت ہی کیوں آئے کہ کسی شہری، تنظیم یا جماعت کو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنا پڑے۔ مگر ایسا ہوتا ہے، پوری دنیا میں احتجاج ہوتے ہیں، ہمارے ہاں بھی کوئی سیاسی اور مذہبی جماعت ایسی نہیں جس نے احتجاجی سیاست نہ کی ہو بلکہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں کسی نہ کسی موقع پر کہیں نہ کہیں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں بھی ملوث رہی ہیں تاہم سب سے اہم کام حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ احتجاج کی نوبت ہی نہ آنے دے اور پھر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ احتجاج سے کس طرح نمٹا جائے۔ احتجاج کو پر تشدد ہونے سے کیسے روکا جائے، پر تشدد صورتحال کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ عوام کے جذبات کو کس طرح نارمل رکھا جائے۔

ہر حکومت کی حکمت عملی تدبر اور پلاننگ پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح حالات کو اپنے قابو میں رکھتی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شروع سے ہی ناکام رہی اور حالات تشدد کی طرف چلے گئے، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم فرانس کو سبق سکھانے کے لیے ایک دوسرے کو سبق سکھاتے رہے، ہم فرانس کو معاشی نقصان پہنچانے کے لیے اپنے رکشے جلاتے رہے، ہم فرانس کا ناطقہ بند کرنے کے اپنے راستے بند کرتے رہے، ہم تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والے آقا حضور ﷺ کی ناموس حفاظت کا نام لے کر لوگوں کے لیے زحمت بنتے رہے، لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں۔

دوسری طرف حکومت نے فیض آباد دھرنے کے دوران کیے گئے معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، یقیناً اتنا طویل وقفہ ملنے کے دوران حکومت اس کو پارلیمنٹ میں لاکر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی حکمت عملی طے کر سکتی تھی یا تحریک لبیک کی قیادت سے مذاکرات کر کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پیش رفت کی جا سکتی تھی مگر دونوں کو اپنی طاقت کا زعم تھا دونوں نے ایک دوسرے کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلا، کئی لوگ زخمی اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں ۔

یقیناً طاقت کے استعمال سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اور طاقت کا اندھا استمال اس بات کی علامت ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے غور کرنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں یعنی طاقت کا اندھا استعمال آپ کے اندھے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ بندوق کی گولی سے رٹ قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی ڈنڈے کے زور پر شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔  یہ بات جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا ہی فائدہ ہے، ورنہ تشدد کا یہ راستہ ملک کو ایک نئی تباہی سے دوچار کر سکتا ہے ۔

یہ بات درست ہے کہ کسی جتھے کو یہ حق حاصل نہیں کہ ریاست کو اپنی مرضی سے چلائے مگر ریاست کی بھی تو اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کرے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی مذہبی جماعتیں استعمال ہوتی ہیں اور کبھی مذہب استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں حکمرانوں کے خلاف مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا گیا اور آج ان کے نتائج کا سامنا پورے ملک کو کرنا پڑ رہا ہے۔

ہم بہت کچھ ضائع کر چکے ہیں مگر بہت کچھ اب بھی باقی ہے ۔ مذاکرات کی خبریں آ رہی ہیں، اچھی بات ہے دیر آید درست آید کیونکہ یہ مسئلہ طاقت سے نہیں بلکہ حکمت سے حل ہو گا۔ ہم کب تک سفیروں کو نکالنے کے مطالبے کرتے رہیں گے؟ کیا ہی بہتر ہو کہ حکومت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مشاورت سے تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لیے عالمی عدالت انصاف میں پٹیشن دائر کرے تاکہ آئندہ آزادی اظہار کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین کی کسی کو جرأت نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments