نہیں ممکن وطن میں ظلم سہنا


نہیں ممکن وطن میں ظلم سہنا، سہتے رہنا
لہو ہوں زخم پھر بھی جیتے رہنا مسکرا کے

حکومت نے 2020 کے اواخر میں مولانا خادم رضوی کے ساتھ چار نکاتی معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے کے کچھ عرصہ بعد خادم رضوی بقضائے الٰہی انتقال فرما گئے۔ فروری 2021 میں ایک بار ٹی ایل پی کے سعد رضوی جو کہ خادم رضوی کے فرزند ارجمند ہیں، سے ایک اور معاہدہ کیا اور اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دو تین ماہ کا وقت مانگا۔ وہ وعدہ بھی حکومت وفا نہ کر پائی تو تحریک نے باقاعدہ تحریک شروع کر دی جو بدقسمتی سے پرتشدد رنگ اختیار کر گئی جس میں پولیس فورس کے اہلکار درد ناک طریقے سے موت کے گھات اتار دیے گئے، کافی زخمی ہوئے، کئی دن پورا ملک یرغمال بنا رہا۔

حکومت ایکشن میں آئی اور تحریک لبیک پر پابندی اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں، ردعمل میں تحریک کے کارکنوں نے کئی پولیس اہلکار یرغمال بنا کر دھرنا دیا اور لاہور کی کئی اہم شاہراہیں بند کر دیں۔ بروز اتوار فورسز نے ایکشن کیا اور اپنے یرغمالی تو رہا کروا لیے مگر تحریک کے کئی کارکنوں کی موت اور متعدد زخمی ہونے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں جس کی سرکار کوئی مصدقہ تصدیق یا تردید نہیں کر پا رہی۔ اس کے ردعمل میں علماء کے ایک گروہ نے پیر کو پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ تاحال کسی سیاسی جماعت سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے، نے ہڑتال کی یا تحریک کی کال کی حمایت نہیں کی۔

سنہ 2018 میں بھی اس جماعت نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا اور کئی دن فیض آباد کو مرکز دھرنا بنا کر اسلام آباد کو مفلوج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت انہیں آج کی حکمران جماعت کی حمایت بھی تھی۔ خادم رضوی کی گالم گلوچ سے مزین مذہبی تقریریں اور تصویریں سوشل میڈیا پر بھر پور کوریج لے رہی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلہ بھی ان علماء یا تحریک کے خلاف دیا تھا مگر تحریک کے لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہوا میں لہرا لہرا کے توہین عدالت کرتے رہے۔ آخر کار عسکری قیادت کی معاوضہ شدہ ہدایت پر لاہور واپسی اختیار فرمائی۔

سنہ 2014 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنی تو کچھ حلقے پریشان دکھائی دیے۔ آج کی حکمران پارٹی نے احتجاج شروع کر دیا۔ یہ احتجاج مذہبی رنگ اختیار کر گیا کہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ شوق شہادت میں غیر ملکی آسائش کو لات مار کر وطن عزیز کا درد لیے پاکستان آئے اور لاؤ لشکر لے کر عمران خان کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ اس جماعت کا لاؤ لشکر وہ خواتین اور ان کے معصوم بچے تھے جن کو ڈھال بنا کر پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر چڑھائی کی گئی۔ یہ مذہبی رہنما ملک میں خاصی عزت کے حامل تھے اور عوام ان کا احترام کرتی تھی۔ یہ اس سے قبل بھی ایک بار اسلام آباد پر چڑھائی کر چکے تھے۔ عسکری اداروں کی مداخلت اور سنگین دہشت گردی کے واقعات کے سبب ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔

سنہ 1977 میں انتخابات کی دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی گئی جو بعد میں تحریک نظام مصطفٰے میں بدل گئی۔ درجنوں افراد اس تحریک کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ قریب تھا کہ حکومت اور اپوزیشن میں سمجھوتہ ہو جائے کہ جمہوریت لپیٹ کر مارشل لاء اور نظام مصطفٰے کی جگہ نظام منافقت نافذ کر دیا گیا۔ تحریک نظام مصطفٰے چلانے والے نظام منافقت کا حصہ بن کر حکومت کرنے لگے جنہیں نظام منافقت پسند نہ آیا وہ ابدی نیند سلا دیے گئے۔

سنہ 1974 میں تحریک ختم نبوت چلائی گئی۔ جلسے جلوس ہوتے رہے۔ اس وقت پاکستان کی بلکہ موجودہ پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت تھی۔ تحریک جب زور پکڑ گئی تو حکومت نے عقل مندی کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں بحث مباحثے کا سہارا لیا۔ کئی دن تک بحث ہوتی رہی۔ مفتی محمود نے تحریک کے حق میں دلائل دیے اور احمدی جماعت کے سربراہ کو پورا موقع دیا گیا۔ اس نے بھی بڑی مدلل اور پرمغز بحث کی۔ نتیجے کے طور پر احمدی غیر مسلم قرار پائے اور تحریک ختم نبوت کا جمہوری حکومت کے ہاتھوں جمہوری اختتام ہوا۔

پاکستان آزاد ہوئے 73 سال ہو چکے۔ اس دوران کوئی 80 کے قریب مذہبی، سیاسی یا نیم سیاسی مذہبی تنظیمیں وطن عزیز میں دین کا نور پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ان سب کا خدا ایک، رسول ایک، کعبہ ایک مگر مسجدیں الگ الگ۔ دین مصطفٰے کو ماننے والوں کی نمازیں الگ تو جنازے بھی الگ ہیں۔ گرمیوں کی شدید دوپہر میں ظہر کے وقت ایک جنازہ پڑھنے جانے کا اتفاق ہوا۔ شدید گرمی میں پہلے تو کسی عزیز کی تاخیری آمد کے باعث انتظار کرنا پڑا۔ چلو وہ تو ہوتا ہے۔ جنازہ پڑھا گیا تو اسی عزیز نے اعلان کر دیا کہ جنازہ نہیں ہوا۔ مرنے والا سنی تھا جبکہ جنازہ وہابی نے پڑھایا ہے۔ قریب تھا کہ بحث سر پھٹول تک جاتی، ہم نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پون صدی ہونے کو آئی ہے ، ہم اپنا یکساں نصاب تعلیم نہ بنا سکے۔ اتنے برسوں میں ایک بھی غیر متنازع مذہبی رہنما پیدا نہیں کر سکے۔ عالمی لیول کے کسی مبلغ کو معروف نہیں کروا سکے۔ ہماری بنیادی غلطی ہی یہی ہوئی ہے کہ ہم بطور قوم کوئی بیانیہ نہیں بنا سکے۔ ایک ہی محلے میں کئی مسجدیں بنی ہیں ، کوئی مسافر آ جائے تو اسے پوچھنا پڑتا ہے کہ دیوبندی مسجد کون سی ہے۔ سنی مسجد میں کوئی وہابی نماز نہیں پڑھ سکتا۔

موجودہ تحریک میں پولیس فورس کے جن لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور جتنے پولیس کے جوان اور افسر ان نمازیوں کی ڈنڈا بردار فورس کے ہاتھوں پٹے ہیں ان پر اور پوری پولیس فورس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ پولیس فورس کے اعلیٰ افسروں نے یہ تو ضرور سوچا ہو گا کہ ہم ڈنڈا برداروں سے مذاکرات اور ان کی منت سماجت کرتے اچھے لگتے ہیں۔ کاش پولیس فورس کی ایسے جتھوں سے نمٹنے کی تربیت کی ہوتی۔

موٹے موٹے پیٹ والے پولیس کے ادھ موئے جوان جو اپنے لاشے مشکل سے سنبھال پاتے ہیں، وہ عوام کی حفاظت کیسے کریں گے۔ ایک ڈی پی او کو یرغمالی ایس ایچ او رہا کروانے کے بعد پولیس فورس کے جوانوں کے ہمراہ نعرے لگاتے دیکھا گیا جو زور زور سے نعرے لگا رہا تھا ”ہم بدلہ لے کے رہیں گے“ ۔ ایسے غیرت مند پولیس افسران کے ہوتے قانون کی پابندی اور مفاد امن عامہ کیسے ممکن ہو گا۔ جو پولیس اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ہماری حفاظت کیسے کر سکے گی۔

دراصل اس ملک میں شروع سے ہی مکالمے پر پابندی لگا دی گئی۔ آواز اونچی کرنا گناہ اور دلیل دینے پر قدغن لگا دی گئی۔ بحث مباحثہ کا رواج خود بخود ختم ہو گیا۔ اسمبلیاں اراکین کے گریبان پھاڑنے کا نام رہ گئیں۔ دشنام طرازی کی صنعت فرو غ پاتی رہی۔ جب مکالمے پر پابندی لگتی ہے تو دلیل بونی ہو جاتی ہے۔ دلیل کا قد کاٹھ چھوٹا ہوتا ہے تو طاقت عروج پاتی ہے۔ طاقت عروج پاتی ہے تو انسانیت مر جاتی ہے۔ ہمارے یہاں یہی ہوا ہے یا کر دیا گیا ہے۔

لوگ انصاف مانگتے ہیں جواب میں پولیس کی گاڑیاں فلیگ مارچ کرتی ہیں۔ انصاف دینے والے خود انصاف کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ ملک کو ایٹم بم کا تحفہ دینے والے اپنی عقل کی قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ پارٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ جوان کی جاتی ہیں ان کو پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر ان کو توڑ دیا جاتا ہے۔ لیڈر یا خود ملک بدر ہو جاتے ہیں یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ کبھی سرعام نوجوان جہادی تنظیموں کا حصہ بنتے اور انعام پاتے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ جہادیوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر انجام کو پہنچایا جانے لگا۔

حالات بہتر کیسے ہوں گے پاکستان میں اٹھنے والی ہر تحریک پر تشدد کیوں ہوتی ہے۔ کیا تنظیموں پر پابندی ان کو اپنے مقصد سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ماضی میں ایسے فیصلے کتنے کار آمد ہوتے رہے ہیں۔ اب کیا یہ فیصلہ درست ثابت ہو گا۔ اصل میں تو شاہراہیں بلاک کرنا قانونی جرم قرار دے دیا جائے اور اس قانون پر بلا تفریق سختی سے عمل کیا جائے۔ لوگوں کو پرامن احتجاج کی اجازت دی جائے۔ عدالتوں کو کام کرنے دیا جائے اور قانون سب کے لئے برابر ہو، سب سے بڑھ کر مکالمے کو فروغ دیا جائے تو شاید وقت کے ساتھ ہمارے حالات بہتر ہو جائیں۔ ابھی تو ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments