تشدد اور قانون شکنی کے باوجود تحریک لبیک سے اظہار یک جہتی


حکومت نے لاہور میں کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کے بعد اس کے قبضے سے گیارہ پولیس اہلکاروں کو رہا کروا لیا ہے۔ اس غیر قانونی تنظیم کے باقی ماندہ مطالبات پر مذاکرات کا تیسرا راؤنڈ آج رات ہونے والا تھا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے امید ظہار کی ہے کہ بات چیت کامیاب ہوگی اور تمام مسائل گفت و شید سے حل کرلئے جائیں گے۔

تحریک لبیک نے ان مذاکرات کے لئے جو چار مطالبات پیش کئے ہیں، ان میں سر فہرست پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنا ہے۔ اس ایک نکتہ پر اختلاف کی وجہ سے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان گزشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات ناکام ہوئے تھے اور بالآخر حکومت نے 12 اپریل کو ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کرکے احتجاج اور دھرنے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ تاہم سرکاری مشینری کی نامکمل تیاری، ناقص منصوبہ بندی، سیاسی فیصلوں میں کوتاہی اور ادارہ جاتی تضادات کے نتیجہ میں جس دھرنے اور احتجاج کا آغاز 20 اپریل کو فیض آباد میں ہونا تھا، وہ سعد رضوی کی گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہوگیا۔ ملک بھر میں لبیک تحریک کے کارکنوں نے پر تشدد احتجاج شروع کیا اور تین روز تک ملک میں شہری زندگی کو معطل رکھا۔ جمعرات15 اپریل کو حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگا کرطاقت کے بل پر تمام احتجاج ختم کروانے کا اعلان کیا۔ سرکاری طاقت کے گمان میں اس وقت وزیر داخلہ کاکہنا تھا کہ ’ہم معاہدہ کے تحت پارلیمنٹ میں توہین رسالت کے حوالے سے قرار داد لانے پر بات چیت کرتے رہے ہیں لیکن ٹی ایل پی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اب حکومت کوئی قرار داد اسمبلی میں پیش نہیں کرے گی‘۔

سعد رضوی کو گرفتار کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی تھی کہ ایک طرف تحریک لبیک حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہی تھی اور دوسری طرف 20 اپریل سے دھرنا دینے کی تیاری بھی کی جارہی تھی اسی لئے سعد رضوی کو گرفتار کرکے اس منصوبہ کو ناکام بنایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نےقوم سے خطاب کرتے ہوئے اسی دلیل کو دہرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ایک طرف ہم سے بات چیت ہو رہی تھی اور دوسری طرف یہ لوگ احتجاج کی تیاری بھی کررہے تھے۔ ’ یہ نچلی سطح پر متحرک تھے اور اسلام آباد آنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ انہوں نے مذاکرات کے دوران ہی فیصلہ کر لیا کہ اگر آپ نے فرانس کے سفیر کو نہ نکالا تو ہم سارے اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ اس کے بعد یہ گرفتار ہوئے‘۔ تاہم شیخ رشید کے رعونت بھرے پیغامات اور وزیر اعظم کا متکبرانہ طرز تکلم اب انہیں ایک بار پھر تحریک لبیک کی قیادت تک لے آیا ہے جہاں وہ صرف فرانس کے سفیر کی واپسی کے معاملہ پر سعد رضوی اور ان کے ساتھیوں سے ’رعایت‘ طلب کررہے ہیں۔

کالعدم تحریک لبیک کے باقی تین مطالبات میں سعد رضوی کی رہائی، تنظیم پر عائد کی گئی پابندی ختم کرنا اور گزشتہ ہفتہ کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں گرفتار کئے گئے کارکنوں کی رہائی کے علاوہ ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔ مذاکرات کے دو ادوار ہوچکے ہیں اور وزیر داخلہ نے تیسرے دور کے بارے میں امید ظاہر کی ہے کہ کوئی ’خوشی‘ کی خبر سننے کو ملے گی۔ اس دوران وزیر اعظم نے ٹیلی ویژن خطاب میں پوری قوم کو گواہ بنا کر اعلان کیا ہے کہ تحریک لبیک اور حکومت کا مقصد ایک ہی ہے۔ ’تحریک لبیک پاکستان کے لوگ جس مقصد کے تحت لوگوں کو گھروں سے نکال رہے ہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ وہی میرا اور میری حکومت کا مقصد بھی ہے۔ ہم بھی ان کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی نہ ہو۔ صرف ہمارا طریقہ کار مختلف ہے‘۔

کالعدم تنظیم سے وزیر اعظم کے اس اظہار یک جہتی کے بعد قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکومت صرف فرانس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تحریک لبیک سے سہولت لینا چاہتی ہے۔ عمران خان کا قوم سے خطاب بنیادی طور سے دو ہی نکات پر مشتمل تھا۔ ایک یہ کہ تحریک لبیک کا مقصد انہیں بھی دل و جان سے عزیز ہے اور دوسرے یہ کہ کسی یورپی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مقصد پورے یورپ سے تعلقات خراب کرنا ہے۔ اس کی وجہ سے ’پاکستان کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہوجائے گی، بے روزگاری ہو گی، روپے پر دباؤ پڑے گا، مہنگائی اور غربت بڑھے گی تو نقصان ہمیں ہو گا۔ فرانس کو کوئی نقصان نہیں ہو گا‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فرانس کا سفیر نکالنے کا یوں بھی فائدہ نہیں ہوگا کہ اس کے بعد کسی دوسرے ملک میں توہین رسالت کا واقعہ ہوجائے گا۔ لہذااس کا مقابلہ کرنے کے لئے وہی حکمت عملی بہتر ہے جو عمران خان تجویز کررہے ہیں۔

وزیر اعظم کی تقریر کے پیغام اور وز یر داخلہ کی مذاکرات میں کامیابی کے بارے میں خوش گمانی سے یہ اندازہ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر ٹی ایل پی فرانسیسی سفیر کی جلاوطنی کے حوالے سے کسی مفاہمت پر آمادہ ہو تو حکومت کو باقی ماندہ تین مطالبات ماننے میں کوئی عار نہیں۔ حکومت کے نمائیندے جیل میں آخر سعد رضوی کو ہی آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسا خطرناک ’دہشت گرد‘ ہوتا جیسا گزشتہ دو روز کے دوران وزیروں کے بیانات اور تحریک لبیک کے سینکڑوں کارکنوں کے خلاف درج کروائی گئی متعدد ایف آئی آر میں کہا گیا ہے تو ایک نیک پارسا حکومت کے نمائیندے ایسے بدخصال سے ملنے جیل کے چکر کیوں لگا رہے ہوتے۔ اڑچن صرف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہو گا کہ جمعرات کے بعد سے تحریک لبیک کے بارے میں حکومتی بیان درست تھے یا جو نرم گوشہ وہ اب دکھانے کی کوشش کررہی ہے، اسے ٹھیک مان لیا جائے۔

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں تحریک لبیک کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے جانی و مالی نقصان کی ہولناک تفصیلات بھی بتائی ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ اب تک 40 پولیس گاڑیاں جلائی گئیں، نجی املاک کو لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان ہؤا، چار پولیس اہلکار شہید ہوئے، 800 سے زائد زخمی ہوئے، پہلے دن 100 سڑکیں بند کردیں جس سے عوام اور ہسپتالوں میں موجود مریضوں کو نقصان پہنچا‘۔ وزیر اعظم کی بیان کردہ پولیس شہادتوں کے علاوہ مرنے والوں میں متعدد وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پولیس کارروائی کے دوران جاں بحق ہوئے۔ کچھ ایسے لوگ بھی جان سے گئے ہوں گے جو کسی جماعت کے رکن تو نہیں تھے لیکن حب رسولﷺ میں گھروں سے نکلے اور کسی طرف سے ہونے والے تشدد میں جانی نقصان کروا بیٹھے۔ اب حکومت اگر ٹی ایل پی کے ساتھ کوئی ’مفاہمت‘ کرکے قوم کو خوشخبری سناتی ہے تو کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں ہوگا کہ ملک میں قانون شکنی پر سزا صرف کمزور کو ہی دی جاسکتی ہے۔ جو کسی بھی طرح طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، حکومت اس کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سمجھوتہ کرنے پر تیار رہتی ہے۔ یہ طریقہ عمران خان کے بنیادی سیاسی اصول سے متصادم ہو گا۔

ایک طرف عمران خان کی حکومت تحریک لبیک کے لیڈروں کو منانے کی کوشش کررہی ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جمیعت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے تحریک لبیک کے احتجاج کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ ’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام بھی اس میں شامل ہو گئی کہ کسی طرح حکومت کو عدم استحکام کا شکار کریں اور مسلم لیگ (ن) بھی اس کا حصہ بن گئی‘۔ حیرت ہے کہ جس ’مقصد‘ کے ساتھ وزیر اعظم خود مکمل یک جہتی کا اظہار کر رہے ہیں، اپوزیشن اگر اسی مقصد سے ہونے والے احتجاج کا ساتھ دیتی ہے تو اسے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟

یا تو وزیر اعظم یہ واضح کرتے کہ حب رسول ﷺ کا معاملہ بالکل علیحدہ ہے اور کسی کو دوسرے کے ایمان کا جائزہ لینے کا حق نہیں ہے۔ لیکن جو بھی شخص کسی بھی صورت قانون کو ہاتھ میں لے گا، تشدد استعمال کرے گا اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالے گا، اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاسکتی۔ یہ بھی مناسب ہوتا کہ اب قوم کو فرانسیسی سفیر ملک بدر کرنے کے نقصانات بتانے کی بجائے گزشتہ سال نومبر میں تحریک لبیک سے تحریری معاہدہ میں یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا جاتا۔ اگر اس وقت ان کے وزیروں نے غلطی کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ وہی ہونہار وزیر اب بھی عمران خان کا دایاں بازو بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کو دوسری پارٹیوں پر الزام لگانے سے پہلے اپنی ٹیم کی نااہلی اور عاقبت نااندیشی کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ کسی ملک کے سفیر کو ملک سے نکلوانے کے لئے احتجاج کرنا غلط اور ناقابل قبول ہے۔

حیرت ہے ایک طرف وزیر اعظم سمیت ان کی کابینہ کے ارکان حرمت رسول ﷺ پر جان قربان کرنے کے دعوے کرتے ہیں، آج بھی وزیر اعظم نے تحریک لبیک اور اپنا مقصد ایک بتانے میں بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کیا لیکن یہ ساتھ ہی عذر پیش کیا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے مالی نقصان ہوگا۔ کیا عمران خان نے کوئی ایسا ملک دیکھا ہے جو مالی مفادات کے لئے اپنے زریں اصولوں اور مقصد کا سودا کرنے پر راضی ہوجائے؟ عمران خان یہ بنیادی نکتہ سمجھنے اور بتانے سے قاصر ہیں کہ کوئی بھی تنظیم کسی بھی مطالبے کے لئے احتجاج کرسکتی ہے۔ کوئی حکومت اس حق سے انکار نہیں کرسکتی لیکن جب بھی کوئی جماعت، گروہ یا لوگ احتجاج کے نام پر قانون شکنی کریں گے تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہیں سے تحریک لبیک اور امن پسند پاکستانیوں کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ حکومت اگر گزشتہ ہفتہ کے دوران تحریک لبیک کی قانون شکن کارروائیوں کو معاف کرکے مفاہمت کے نام پر اس کے ساتھ ہاتھ ملاتی ہے تو یہ عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔

بدقسمتی سے احتجاج کی کال دینے والے اور تحریک لبیک کے ساتھ اظہار یک جہتی و ہمدردی کرنے والے دینی و سیاسی رہنما حرمت رسولﷺ کی آڑ میں امن و امان تباہ کرنے والے عناصر کے جرائم کی پردہ پوشی کا سبب بن رہے ہیں۔ جو بھی لیڈر یا جماعت تحریک لبیک کا ساتھ دیتے ہوئے تشدد اور قانون شکنی کو مسترد نہیں کرتا تو اس کا یہ فعل غیر اخلاقی اور بنیادی دینی و جمہوری تصورات سے متصادم ہوگا۔ عمران خان سمیت سب لیڈروں کو اس آئینے میں اپنی صورت دیکھ لینی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments