پی ڈی ایم کے چراغوں میں روشنی کیوں نہ رہی؟



پچھلے چند دنوں سے ملک کا سیاسی ماحول دنوں کے حساب سے تبدیل ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سنجیدہ نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عمران حکومت کے سامنے جہانگیر ترین فیکٹر طوفان بن کر کھڑا ہو چکا ہے۔ ایک سال کی خاموشی کے بعد ترین نے کھل کر اپنے پتے شو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کی طرف سے طلبی کے بعد ان کے تمام بنک اکاؤنٹس کا منجمد کیا جانا ان کے لئے باعث پریشانی تھا۔ درحقیقت چینی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد شوگر ملز مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کے فیصلے سے جہانگیر ترین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا فطری تھا۔کیوں کہ ان کا نام اس سارے قصے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

2018 کے عام انتخابات کے بعد اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کر کے آزاد اراکین اسمبلی کو اپنے جہاز میں بنی گالہ پہنچانے والے جہانگیر ترین کپتان کی نظروں سے ایسا گرے کہ ابھی تک سنبھل نہیں پا رہے۔ موصوف اب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ کورٹ میں پیشیاں بھگتنے میں مصروف ہیں۔ فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن راجہ ریاض ان کے ہمراہ اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان سے جہانگیر ترین کے لئے انصاف طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ راجہ ریاض کے مطابق ترین اور کپتان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والوں میں اعظم خان کے علاوہ چند غیر منتخب معاونین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب جناب وزیراعظم اس معاملے پر بالکل چپ سادھے ہوئے ہیں۔ بعض مشترکہ دوست دونوں شخصیات کے درمیان ملاقات کرانے کے لئے کوشاں ہیں۔ تاکہ معاملات درست ہو سکیں۔

جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے۔ گیارہ جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد نے شروع کے چند مہینے حکومت کی ناک میں بہت دم کیے رکھا۔ بڑے بڑے شہروں میں کامیاب جلسوں کے بعد ضمنی انتخابات میں حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ بعد ازاں سینیٹ کے انتخابات میں اپنی دھاک بٹھاتے ہوئے وزیراعظم کے سینیٹ کو فتح کرنے کا خواب چکنا چور کر دیا۔ مگر یک دم بازی پلٹ گئی اور اپوزیشن لیڈر سینیٹ کے ایک معمولی سے تنازعے پر بات بگڑ گئی۔ ذرائع کے مطابق اندرون خانہ پیپلز پارٹی کو کچھ آسانیاں فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جس کے عوض اسے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اس وقت اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان کی اولین ترجیح اپنے مقدمات سے گلو خاصی ہے۔ لہٰذا زرداری صاحب نے ڈرامائی انداز میں عین اس وقت جب کہ لانگ مارچ شروع ہونے والا تھا، پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر نواز شریف کے بیرون ملک قیام کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پارلیمان سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو میاں صاحب کی وطن واپسی سے جوڑ دیا۔

پیپلز پارٹی اور اے این پی کی طرف سے بغاوت کے بعد پی ڈی ایم اس وقت عملی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عوام جو اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی آپس کی لڑائی سے حیران اور پریشان ہیں۔ ان کو جو منزل بالکل سامنے نظر آ رہی تھی۔ وہ اب سراب بن چکی۔ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے دعوے کرنے والے پتلی گلی سے نکلنے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن رہنما سات ماہ تک پاکستانی عوام کو مکمل جمہوری نظام کی بحالی اور خوشحالی کا دور واپس لانے کے خواب دکھاتے رہے۔ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

یوسف رضا گیلانی کا بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی طرف سے ووٹ لے کر اپوزیشن لیڈر بننا، پی ڈی ایم کی طرف سے پی پی پی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس، بلاول بھٹو کا نوٹس پھاڑنا، دونوں پارٹیوں کا اپوزیشن اتحاد سے الگ ہونا یہ وہ معاملات ہیں۔ جو سات ماہ پہلے قاہم ہونے والے اپوزیشن اتحاد کی شکست و ریخت کا باعث بنے ہیں۔ پی پی پی اور نون لیگ کے بیشتر رہنما جو پہلے مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے لتے لیا کرتے تھے۔اب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ ٹاک شوز میں ایک دوسرے کا ماضی ٹٹولا جا رہا ہے۔

اس سارے قصے میں نواز شریف کا ایک بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے غیر مبہم انداز میں پیپلز پارٹی کو ’باپ‘ پارٹی سے ووٹ لینے کی وضاحت دینے کو کہا ہے۔ بقول ان کے دوسری صورت میں دونوں جماعتوں کا ساتھ چلنا مشکل ہے۔ اس بات کے واضح آثار نمایاں ہو چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے طویل رومانس کا اختتام بہت قریب ہے۔ شاید خاقان عباسی جنہوں نے اپنے دستخطوں سے ایک نوٹس دونوں پارٹیوں کو بھیجا تھا۔ اس کو بلاول بھٹو اور اے این پی نے توہین آمیز قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی شاید ’باپ‘ پارٹی کے سینیٹروں سے ووٹ لے کر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لینے کی وضاحت دینا نہیں چاہتی یا ایسا کرنے کی جرأت نہیں رکھتی۔ تاہم کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

رمضان کے بعد اپوزیشن تحریک کی سمت دیکھنے کے لئے بیچارے عوام کو کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد قدرے ریلیف حاصل ہوا تھا۔ مگر جہانگیر ترین نے سیاست میں دھماکے دار انٹری دے کر حکومت کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔ آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور تین درجن کے قریب اراکین پنجاب اسمبلی نے جہانگیر ترین کے ظہرانے میں شرکت کر کے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ ان کے ساتھ کھڑے اراکین کے اپنے حلقوں میں کچھ انتظامی نوعیت کے مسائل ہیں۔ جو مقامی سطح پر حل نہیں ہو رہے جب کہ راجہ ریاض کو تحریک انصاف میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ جس کی وہ توقع رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ جہانگیر ترین کے پلو سے بندھے ہوئے ہیں۔

جہاں تک تحریک انصاف کی پرفارمنس کا تعلق ہے، اس میں ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ وزیراعظم نے یکے بعد دیگرے دو وزرائے خزانہ تبدیل تو کیے ہیں۔ لیکن ملکی معیشت کی اٹھان کسی معجزے سے کم نہیں ہو گی۔ مبصرین کے مطابق حکومت کی ناکامی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پریشانی کے عالم میں ہے۔ اسی لئے اندرون خانہ کئی متبادل انتظامات پر غور و فکر تو ہو رہا ہے۔ لیکن بوجوہ بات آگے نہیں بڑھ رہی۔

شہباز شریف اپنی سابقہ کارکردگی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول چوائس ضرور ہیں مگر نون لیگ کے قائد نواز شریف مکمل جمہوری نظام کی بحالی اور ووٹ کی عزت کے نعرے پر کمپرومائز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں جب تک تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے نہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ سپریم ہو سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ عمران حکومت سے جان تو چھڑانا چاہتی ہے مگر وزیراعظم کو شہادت کے رتبے پر فائز بھی نہیں کرنا چاہتی۔

ایک معتبر صحافی جو اندر کے معاملات سے باخبر ہیں، کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اگر نکال باہر کیا جاتا ہے تو وہ بہت واویلا مچائیں گے۔ بقول ان کے موصوف دو دفعہ طاقتور حلقوں کو اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

ملک کی عمومی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات تو طے ہے کہ موجودہ بندوبست کو طول دینا کسی طور پر بھی سودمند ثابت نہیں ہو گا۔ اس لئے جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments