مشرف عالم ذوقی


وہ جو ہواؤں سے باتیں کرتا تھا اور فضاؤں سے دکھ سکھ کہتا تھا۔ جسے راستوں، دیواروں اور گھروں اور مجلسوں کے قصے کہنا اور پرندوں کے نغمے سننا اچھا لگتا تھا۔ وہ جو گزشتہ زمانوں کے ملبے سے داستانیں اکٹھی کیا کرتا تھا اور زمین میں مدفون حروف پڑھ کر آنے والی صدیوں کا بیان کر سکتا تھا۔ وہ جب چاہتا بادلوں کے رتھ پر سوار ہو کر سیاروں ستاروں اور کہکشاؤں کی سیر کو نکل جاتا تھا اور آسمانوں میں چھپی ابتلاؤں سے مکالمہ کیا کرتا تھا۔

ایک طرف وہ مذاہب کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرتا تھا تو دوسری جانب تاریخ کے چوراہے پر بیٹھ کر تہذیبوں سے مکالمہ کرتا تھا۔ جسے کردار نگاری میں ملکہ حاصل تھا اور جو پیدا ہی کہانیاں سننے اور کہنے کے لئے ہوا تھا۔ جس کی تحریروں میں ماضی کے سارے کردار قرنوں کی گرد جھاڑتے آن موجود ہوتے اور جلال و جمال سے دہکتی صورتیں اس کے قلم کے جادو کے تابع ہو جاتیں۔

وہ دنیا کے عظیم ناول نگاروں سر وانٹس، الگزینڈر پشکن، نکولائی گوگول، فیودردوستوفسکی، لیو تالستائے، کاندید، بورخیس، میخائیل شولوخوف، میکسم گورکی، ترگنیف، سارتر، البرٹ کا مو، میلان کنڈیرا، بورخیس، چارلس ڈکنس، ہنری ملر، ہیمنگوے اور اہان پاموک، کرشن چندر اور محمد خالد اختر کی محبت میں سرشارتھا اور وار اینڈ پیس، ڈیڈ سول، کرائم اینڈ پنشمنٹ، لا مزریبل، انیمل فارم، دی پلیگ، اینا کارنینا، میڈم بواری، ڈاکٹر ژواگو جیسے انگنت فن پاروں کا عاشق۔

ان ناولوں کے کردار اس کے لیے بساط زندگی پر بیٹھک جمائے ہوئے تھے، جن سے کچہری کرنا گویا ذوقی کا مشغلہ تھا۔ ڈان کیخوتے کے آزاد و بے مثال کردار ہوں یا مارخیز کی ہلچل مچاتی دنیا، وہ ماضی اور حال کے فاصلوں کو ٹھوکر مار کر دنیا بھر میں بکھرے لافانی ادب کے نرالے کرداروں کی سنگت میں زیست کرتا تھا، ان کے دکھ سہتا تھا اور ان کے تریاق ڈھونڈتا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں ذوقی نے لکھا، ”میں ترگنیف کا فادر اینڈ سن پڑھنے کے بعد مدتوں جنونی کیفیت میں رہا، ناول کا کردار بازاروف میں خود تھا۔“

وہ جو ادبی نظریات کی کج بحثی سے اکتا کر اپنا نظریہ ادب بلا خوف و خطر بیان کرتا تھا اور بڑے سے بڑے نقاد سے الجھ سکتا تھا مگر شمس الرحمٰن فاروقی جیسے نابغہ روزگار کی موت کی خبر پر ’ایک شہنشاہ کی موت‘ لکھ کر انہیں سب سے پہلے خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سے تھا۔

تخلیق کے اس بھرپور، پرلطف اور معنی خیز سفر میں زندگی کے ڈھیر سارے فلسفوں کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے، وقت کے نہ جانے کس مقام اور پڑاؤ پر وہ ’مقابلے‘ کو تیاگ چکا تھا، کچھ ہوں کہ اب اسے مقابلے میں رہنے کی وحشت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ وہ ادب عالیہ کے حوالے سے ایسے مقابلوں اور موازنوں کو بچکانہ سمجھتا رہا اور ادب میں بڑے یا چھوٹے کی تفریق کا قائل نہ تھا۔ بقول ذوقی کہ ”اور یہ کون طے کرے گا کہ گوگول کی ڈیڈ سول کمزور ناول ہے اور مارخیز سب سے آگے؟“

یوں لگتا ہے اسے جلدی تھی سب کچھ لکھ جانے کی، کہہ دینے کی، ساری حقیقتیں منکشف کر دینے کی، سارے اسرار بیان کر دینے کی، وقت کی قید سے ماورا ہونے کی اور مستقبل کی یاترا کرنے کی اور وہ کچھ برسرعام کہہ دینے کی جسے ہم سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اردو ادب کے اس منفرد ادیب کو خوف سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جہاں وہ تاریخ کے چوراہے پر بیٹھ کر تہذیبوں سے مکالمہ کرتا تھا وہیں حال کی چیرہ دستیوں کو مستقبل کی عینک سے دیکھ کر اپنے حصے کا پورا سچ بول دینے پر قادر تھا۔

بے باکی، بے خوفی، حوصلہ مندی اور جرات اظہار ذوقی کی وجہؑ امتیاز ہے جو اکثر ادیبوں میں ناپید ہے۔ وہ پوری دنیا کے ادب کو اپنا سمجھتا تھا۔ بلکہ اس کے لئے ادب ہی زندگی تھا۔ وہ جب لکھتا تھا تو کائنات کو مٹھی میں جکڑ کر لکھتا تھا۔ وہ جو عہد حاضر کے ہر لمحے کو ادب میں محفوظ کر رہا تھا۔ وہ جسے رامائن اور مہابھارت کی حکایتیں ازبر تھیں، جب مہا یدھ لکھنے بیٹھا تو موت کا سفاک درندہ اسے نگل گیا۔

زندگی کی بے معنویت کو کوئی کیسی ہی عظیم معنویت دینے کی کوشش کیوں نہ کرے، بے رحم اور بے ضمیر موت اپنے بیہودہ مذاق سے باز نہیں آتی اور انسان کی محنتوں، کاوشوں اور ریاضتوں پر خندہ زن رہتی ہے۔ اب فیس بک پر مجھے غیر حاضر پا کر کوئی نہیں پوچھے گا تم ٹھیک تو ہو نہ، کہاں گم ہو۔ تمہارے لکھے لفظوں سے مجھے ہمت ملتی ہے۔ وہ ہم سب سے جڑا رہنے کا خواہشمند تھا، اپنا لکھا کم اور ہم سب کا لکھا زیادہ پڑھتا تھا۔ اور کمال محبت سے تبصرہ کرتا تھا۔

ادب کی پراسرار دنیا کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر بڑا ادیب اپنی سرشت میں یگانہ ہوتا ہے، منفرد اور انوکھا۔ جو بڑا ادیب گزر جاتا ہے ویسا دوسرا پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ایک ہی مشرف عالم ذوقی تھا۔ اب اس پر مٹی ڈال دی جائے گی اور اس کی کہانیاں اور کتابیں بین ڈالیں گی۔ درد کی یہ بھرپور گھٹا جب رو رو کر تھم جائے گی تب ہماری آنے والی نسلیں ان کتابوں سے آج کے حال کی بازیافت کریں گی۔ ذوقی نے نامعلوم کس کیفیت کے زیر اثر لکھا تھا:

”اضافی کیا ہے، جو اوجھل ہے اور دکھائی نہیں دیتا۔ کبھی ہم اس کی طرف لپکتے ہیں تو فلسفوں کا آتش فشاں ملتا ہے۔ ناول نگار اس وقت خود سے محبت نہیں کرتا جب وہ لکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ ہزار سورجوں کے نرغے میں ہوتا ہے۔ اور سورج تو ستاروں سے اضافی طور پر گردش میں ہے۔ اس لئے ناول نگار بیک وقت اندھیرے اور اجالے دونوں طرح کی دنیاؤں کے درمیان ہے۔ اور جب لفظ جنم لیتے ہیں وہ مطلق اپنی جگہ سے غائب ہو چکا ہوتا ہے۔“

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments