داخلی انتشار و ریاست کا کردار


اس وقت ملک داخلی انتشار سے نکل چکا۔ لاہور میں پولیس کی کالعدم تحریک کے کارکنان پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سارے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت رہی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ لیکن اب حکومت اور کالعدم جماعت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو چکے جس کے بعد توقع یہ کی جا سکتی ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں صورتحال نارمل ہو جائے گی۔ ان تمام تر حالات و واقعات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس تمام تر صورتحال کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہو گا۔

ہمیں واقعات کے اس تسلسل کو سمجھنے کے لئے تھوڑا ماضی کی طرف جانا ہو گا۔ کالعدم تحریک لبیک کا آغاز ممتاز قادری کی پھانسی کے وقت ہوا لیکن تب یہ ایک اتنی مقبول جماعت نہیں تھی۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ختم نبوت کے حوالے سے آئین میں ایک ترمیم پر اس جماعت نے اپنا ایک احتجاج ریکارڈ کروایا، تب یہ جماعت اپنی ایک مذہبی شناخت قائم کر چکی تھی۔ اس کے بعد اس جماعت نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا تو نہ صرف پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئی بلکہ پاکستان میں بھی اچھے خاصے ووٹ حاصل کر کے اپنی ایک سیاسی پوزیشن بھی قائم کی۔

اس جماعت پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اسے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی سپورٹ حاصل ہے کیونکہ نواز لیگ کے دور میں ختم نبوت کے حوالے سے آئین میں ترمیم کی کوشش پر جب اس جماعت نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا ، تب کچھ ایسی چیزیں ہوئیں جن کی وجہ سے اس جماعت کے تانے بانے کہیں اور ملانے کی کوشش کی گئی اور اسی حوالے سے ایک مقدمہ بھی معزز عدالت میں چلایا گیا، جس کے فیصلے میں ان عناصر کی نشاندہی کی گئی تھی یا ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی گئی۔

معزز عدالت کے جج جنہوں نے یہ فیصلہ دیا، آج خود اپنے اوپر لگے الزام کا عدالت عظمیٰ میں سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا یہ الزام ہے کہ ان پر لگنے والے الزامات کی وجہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے وہ فیصلہ ہے جس میں انہوں نے اہم اداروں کے مشکوک کردار پر اعتراض کیا تھا۔

اس کے بعد تحریک انصاف کے دور حکومت میں آسیہ مسیح کیس میں عدالت عالیہ کی جانب سے ایک فیصلے پر اس جماعت کی طرف سے ایک بھرپور احتجاج سامنے آیا۔ حکومت وقت اس بار عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے ساتھ کھڑی تھی اور حکومت وقت کسی نہ کسی طریقے سے اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئی۔

ایک عرصے بعد جب فرانس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہٖ و سلم کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی تو مذکورہ جماعت نے ایک بار پھر احتجاج کیا اور حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے اور فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔ حکومت نے اس احتجاج کو اس وقت قابو کرنے کے لئے یا مظاہرین کے دباؤ میں آ کر ایک معاہدہ کیا جس میں حکومت فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پر پارلیمان میں پیش کرے گی اور پارلیمان اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرے گی جس پر حکومت عملدرآمد کرے گی۔

حکومت نے جیسے تیسے یہ معاہدہ تو کر لیا لیکن اس معاہدہ پر مقررہ وقت پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی بلکہ پہلے معاہدے میں توسیع کر کے ایک دوسرا معاہدہ کیا جس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا معاملہ ایوان کے سامنے رکھے گی لیکن حکومت معاہدے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی۔ حکومت کو یہ چاہیے تھا کہ اگر اس نے اس فریق سے معاہدہ کیا ہے تو اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ ایوان میں لے کر آتی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجہ تھی کہ حکومت معاہدے کے باوجود اس معاملے کو ایوان کے سامنے نہیں لا سکی اور اگر حکومت ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی تو اسے یہ معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا، حکومت نے یہ معاہدہ کیوں کیا اور اگر نہ کرتی تو کیا کرتی؟

اس مسئلہ یہ تھا کہ شاید حکومت کو اس وقت یہ لگتا تھا کہ وہ ایک معاہدہ کرے گی تو احتجاج وغیرہ سے ان کی جان چھوٹ جائے گی، باقی یہ مسئلہ شاید وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو دے گا اور حکومت کو دوبارہ کسی احتجاج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت نے وقتی طور پر دباؤ میں آ کر ایک معاہدہ کیا تھا لیکن شاید حکومت کو اس مسئلے کی نزاکت کا اندازہ نہیں تھا یا انہوں نے یہ خیال نہیں کیا تھا کہ یہ مسئلہ کسی طور پر ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔

اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کو اگر اس مسئلے کی نزاکت کا علم یا ادراک تھا تو حکومت کی فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے کیا اپروچ تھی اور اس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ خطاب میں کیا؟

حکومت یہ سمجھتی تھی کہ صرف فرانس کے سفیر کو نکالنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جب تک تمام امت مسلمہ کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل نہیں آتا تب تک مغرب میں اس قسم کی سرگرمیوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کی یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ مغرب کی طرف سے ہر چند سال بعد ایسی کچھ چیزیں ہوتی ہیں جن میں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے اور اس کو اسی طریقے سے ہی حل کیا جانا چاہیے کہ تمام مسلم دنیا اس حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے اور مغرب کو معاملے کی حساسیت کے بارے میں آگاہ کرے۔

اس حوالے سے حکومت نے جو کام کیا ہے اس پر تعریف کرنی چاہیے۔ عمران خان نے بار بار بین الاقوامی میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر اس حوالے سے بات کی ہے۔ حکومت اپنے طور پر احتجاج ریکارڈ کروا سکتی تھی لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو شاید عملاً حکومت کے لئے کرنا اتنی زیادہ آسان نہ ہوں جیسے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی بات ہے۔ کیا یہ ممکن ہے پاکستان جیسا ملک جس کی ایک کمزور معیشت ہے، جس کو فیٹف میں گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے اور دیگر ایسی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ وہ ملک اقوام عالم سے اپنے تعلقات اس طرح سے خراب کرے؟

ریاست کی اپنی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ریاست اپنی ان مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہے۔ میرا خیال ہے آپ حکومت وقت کے سامنے اپنے مطالبات تو رکھ سکتے ہیں لیکن ریاست و حکومت کو دباؤ میں لا کر اس سے اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کروا سکتے۔ جو فیصلے ریاست نے کرنے ہیں، وہ انہیں کرنے دیں۔

حکومت سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ اس نے مذکورہ جماعت سے ایک ایسا معاہدہ کیا جس پر عمل کرنا شاید ان کے لئے اتنا آسان نہیں تھا اور دوسری غلطی متعلقہ جماعت کے سربراہ کی گرفتاری تھی کیونکہ حکومت کالعدم جماعت کے سربراہ کو گرفتار کر کے ان کے احتجاج کو روکنا چاہتی تھی جس کی وہ تیاری کر رہے تھے یا اس کا ارادہ رکھتے تھے۔ کالعدم جماعت کے سربراہ کی گرفتاری سے معاملات اور زیادہ خراب ہوئے جس کا ردعمل آیا۔ ریاست اس ردعمل کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

ایک دفعہ پھر معاملات تب خراب ہوئے جب ریاست نے اپنی رٹ اسٹیبلش (Establish) کرنے کے لئے طاقت کا استمال کیا۔ اگر ریاست کی طرف سے ایسا نہ کیا جاتا تو شاید حالات یوں نہ خراب ہوتے مگر ریاست کا یہ موقف تھا کالعدم جماعت نے مذہب کی آڑ میں جو تشدد کیا، اس لیے ریاست ایسا کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس کے بعد جو حالات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔

دو دن تک پورا ملک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ حکومت و متعلقہ جماعت کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے جو بالآخر اب کامیاب ہو چکے۔ حکومت نے متعلقہ جماعت کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پارلیمان میں پیش کرنے جا رہی ہے اور اس حوالے سے ایک قرارداد ایوان میں لائی جائے گی۔ اس کے ساتھ حکومت نے احتجاجی مظاہرین کے دیگر کچھ مطالبات بھی تسلیم کیے ہیں، امید ہے کہ ان پر پیش رفت ہو گی اور حالات اب نارمل ہو جائیں گے۔

اس سارے عمل میں اگر دیکھا جائے تو ریاست اس معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی اور یہ کہ متعلقہ جماعت کی طرف سے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا جو کہ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ بہرحال اب یہ معاملہ کسی نہ کسی حد تک اپنے حل کی طرف جا رہا ہے تو ہم سب کو اس میں سے بہتری کی امید کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments