مشرف عالم ذوقی اور تبسم فاطمہ کی یاد میں



تعلق جتنا بھی مضبوط ہو لیکن
ہمیشہ رابطوں کا محتاج ہوتا ہے

محترمہ تبسم فاطمہ نے یہ سچ کر دکھایا کہ بنا رابطے کے کوئی رشتہ نہیں، کہ جب ملن و ہم رکابی نہیں تو پھر کیسی محبت، چنانچہ اپنے شوہر کے غم‌ میں وہ بھی آخرت سدھار گئیں۔

انا‌ للہ و انا الیہ راجعون

ابھی ہم ذوقی صاحب کے غم سے نکل بھی نہ پائے تھے، کہ ان کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر پانے کی وجہ ان کی اہلیہ محترمہ بھی ان سے جا ملیں۔ ‌ ہائے!

نوحہ گر چپ ہیں کہ روئیں بھی کس کو روئیں

مشرف عالم ذوقی فکشن کی دنیا ایک مشہور نام تھا، جس نے اپنے گہربار قلم سے اردو دنیا کو مالا مال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، انہوں نے پچاسوں کتابیں ادبی دنیا کو دی، جن میں چودہ خوبصورت ناول بھی شامل ہیں، خاص طور سے ”مرگ انبوہ“ ، ”نالہ شب گیر“ اور ”مردہ خانے میں عورت“ نے عالمی طور پر مقبولیت و پذیرائی حاصل کی، اور خوب ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔

ذوقی صاحب جہاں فکشن کی سلطنت کے شہنشاہ تھے، وہیں اعلیٰ ظرفی کا حسین پیکر بھی تھے، ایک مشہور و معروف شخصیت ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے چھوٹوں سے بڑی فراخ دلی سے ملتے تھے، میری کبھی ان سے بالمشافہ تو ملاقات نہیں ہوئی، مگر واٹس ایپ اور فون پر بات ہوتی رہتی تھی، ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازنا آپ کی فطرت تھی، اور اس طرح سے ”پیارے“ یا ”بچے“ لفظ کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے، گویا اپنے گھر کے کسی بچے سے گفتگو کر رہے ہیں، اس مقام پر پہنچ کر اس طرح سے گفتگو کرنا ان کی دریا دلی اور نوعمروں کی حوصلہ افزائی کرنے کا‌‌ اعلی ثبوت ہے، مگر

وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیاں کے لیے

انہوں نے ادب کے میدان میں خدمات انجام دیتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا، حق کے راستے میں اپنے قلم کو کبھی بکنے دیا اور نہ ہی کبھی جھکنے دیا، ان کے کالم آج بھی ان‌ کی شخصیت کے آئینہ دار ہیں، جن سے آنے والی باضمیر نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں ‌گے ‌۔

ان کے جانے کے ایک ہی دن بعد ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ کا بھی آخرت کے سفر میں اس طرح ان کے ہمرکاب ہو جانا ادبی دنیا کے لئے دوہرے غم سے کم نہیں ہے، اور اردو شائقین کے لئے کسی یتیمی کے الم سے کم نہیں ہے۔

تبسم ‌فاطمہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، وہ ایک صحافی، افسانہ نگار، مترجم کے ساتھ ساتھ عمدہ ذوق کی شاعرہ بھی تھیں، انہوں نے ”ستاروں کی آخری منزل“ ، ’’تمہارے خیال کی آخری دھوپ ”،“ سیاہ لباس ”اور“ جرم ”جیسے سے کئی گراں قدر مجموعے اور کتابیں ادبی دنیا کو دی ہیں، جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔

میری تبسم میم سے شناسائی آج سے تقریباً دس بارہ برس پہلے ہوئی تھی، جب میں نے اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا تھا، اس وقت وہ پابندی سے راشٹریہ سہارا اور انقلاب کے لیے کالم لکھا کرتی تھیں، لہٰذا ادارتی صفحات پر نظر ڈالتے وقت ان کے مضمون پر بھی نظر پڑ جاتی تھی، اور گاہے بگاہے ان کی تحریر پڑھ لیتا تھا، جو عام طور پر حالات حاضرہ سے متعلق ہوتی تھی، مگر کم سنی اور لاشعوری کی وجہ سے مضمون کا مکمل احاطہ محال تھا۔

مگر ابھی چند برسوں میں جب ذوقی صاحب سے شناسائی ہوئی، اور جب مجھے ان کی بے لوث محبتیں ملیں، تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی اہلیہ محترمہ ہیں، ایک دفعہ میں نے کہہ دیا، سر میم کو میں عرصہ سے جانتا ہوں، مگر یہ اہم راز اب کھلا کہ وہ آپ کی اہلیہ ہیں، ہنس کر کہنے لگے خدا خیر کرے بچے، آپ نے ان کے توسط سے مجھے جانا، یہ بھی ان کی مہربانیاں۔

الغرض دونوں لوگ اعلیٰ ظرفی کا حسین پیکر تھے، جو اپنی ذاتی صفات اور صلاحیتوں کے ساتھ نئی نسل کو سنوارنے کا خوبصورت ملکہ رکھتے تھے، اور یہ دراصل ان کے اخلاق فاضلہ کا پرتو تھا، جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

رب کریم دونوں شخصیات کی بال بال مغفرت فرمائے۔

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments