1857 کی ’جنگ آزادی‘: انگریزوں کے چھکے چھڑانے والے تاتیا ٹوپے جن کی موت اب بھی ایک معمہ ہے

اومکار کرمبیلکر - بی بی سی مراٹھی


تاتیا ٹوپے

تاتیا ٹوپے کا فرضی خاکہ جس میں انگریز فوجیوں کے ہاتھوں ان کی گرفتاری کا منظر پیش کیا گیا ہے

یہ سنہ 1863 کی بات ہے۔ اس وقت کے میجر جنرل جی ایس پی لارنس نے انڈین حکومت کے سیکریٹری کو لکھا تھا ’ہمارے 40 ہزار فوجی ’اصلی‘ تاتیا ٹوپے اور اُن کے پانچ ہزار فوجیوں کی گرفتاری کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘

تاتیا ٹوپے کے ساتھ جنگ اور اُن کی موت کے تقریباً چار سال بعد بھی انگریزوں کو یقین نہیں آیا تھا کہ تاتیا ٹوپے کی موت واقع ہو چکی ہے۔

تاتیا ٹوپے سنہ 1857 کی جنگ آزادی (یا انگریزوں کے خلاف ہونے والی بغاوت) کے اہم رہنما تھے اور برطانوی افواج کے لیے دردِ سر بن چکے تھے۔

تاتیا ٹوپے کی موت کے بارے میں اس طرح کی داستانیں اُس دور میں ضرور معروف رہی ہوں گی کیونکہ چند لوگوں کا خیال تھا کہ تاتیا ٹوپے کو کبھی بھی اور کوئی بھی نہیں مار سکتا۔

آج شاید اس کی تصدیق ممکن نہیں ہے لیکن برطانوی میجر جنرل کے خط سے یہ بات ظاہر ہے کہ تاتیا ٹوپے برطانوی سلطنت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکے تھے۔

سنہ 1857 کی جنگِ آزادی کو آج تقریباً 165 سال پورے ہونے کو آ رہے ہیں لیکن تاتیا ٹوپے کی موت کے بارے میں اب بھی بہت سارے سوالات موجود ہیں اور اسی وجہ سے ان کی موت کے بارے میں آج بھی لوگوں میں کافی دلچسپی اور تجسس پایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عجب خان آفریدی اور انگریز لڑکی کے اغوا کی کہانی

ایک پٹھان کا عہد اور کالے پانی میں انگریز وائسرائے کا قتل

قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتا

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ 1857 میں برطانوی حکمرانوں کی مخالفت کا جو عمل شروع ہوا تھا اس ہی کے باعث لگ بھگ 90 سال بعد یعنی سنہ 1947 میں انڈیا کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔

تاہم سنہ 1857-1858 میں انڈیا میں جو کچھ ہوا اس کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا جاتا رہا ہے۔

چند لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آزادی کی لڑائی تھی جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ جاگیرداروں کی اپنے اپنے مفادات کی جنگ تھی۔ کیا وہ غیر ملکی حکمرانی سے آزاد ہونا چاہتے تھے؟ بہت سارے انڈین اور غیر ملکی مصنفین نے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

تاتیا ٹوپے

تاتیا ٹوپے کون تھے؟

تاتیا ٹوپے کا اصل نام رام چندر پانڈورنگ ٹوپے تھا۔ مہاراشٹر کا ضلع یولا اُن کا آبائی گاؤں تھا۔ ان کے والد پانڈورنگ ایک پڑھے لکھے شخص تھے جنھیں ہندو مذہبی کُتب ’وید‘ اور ’اُپنِشد‘ حفظ (زبانی یاد) تھیں۔

اسی وجہ سے باجی راؤ دوئم (میراٹھا سلطنت کے آخری پیشوا) نے اُنھیں (تاتیا کے والد کو) پونے بلایا۔ جب باجی راؤ دوئم پونے چھوڑ کر شمالی انڈیا کے شہر کانپور کے علاقے بیتور آئے تو پونے سے بہت سے خاندان بھی اُن کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ ان میں پانڈورنگ خاندان بھی شامل تھا۔ پانڈورنگ اپنی بیوی اور بچوں رام چندر اور گنگا دھر کے ساتھ بیتور آئے تھے۔

بیتور میں تاتیا ٹوپے کا پیشوا نانا صاحب اور موروپنت تنبے کے ساتھ رابطہ ہوا۔ اس کے بعد وہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی سے بھی رابطہ میں آئے۔ تاتیا ٹوپے ان سب سے عمر میں بڑے تھے۔

سنہ1857 کی بغاوت

سنہ 1857 میں نانا صاحب پیشوا، تاتیا ٹوپے، رانی لکشمی بائی، اودھ کے نواب اور مغل حکمرانوں نے بندیل کھنڈ میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا۔

اس کا اثر جنوبی ہندوستان کی ریاستوں تک بھی پہنچا۔

بہت سے برطانوی اور انڈین مؤرخین کا خیال ہے کہ گوالیار کے شندے حکمران اس بغاوت میں شامل نہیں تھے لیکن کچھ انڈین مؤرخین کے مطابق گوالیار کے حکمران بھی اس بغاوت میں شامل ہو گئے تھے۔

بائیجا بائی شندے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے بغاوت کی تیاری کی تھی۔ بہت سے حکمران جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔

تاتیا ٹوپے کا کیا کردار تھا؟

تاتیا ٹوپے

تاتیا ٹوپے پیشوا کی خدمت میں تھے۔ اُنھیں فوجی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن اُنھوں نے اپنی کوششوں کی وجہ سے یہ بھی حاصل کر لیا۔

سنہ 1857 کے بعد وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک مسلسل جنگ میں مصروف رہے۔

تاتیا ٹوپے کی نسل سے تعلق رکھنے والے اور تاتیا ٹوپے کے ’آپریشن ریڈ لوٹس‘ کے مصنف پراگ ٹوپے کے مطابق اس بغاوت کی سوچ کے بانی بائیجا بائی شندے تھے۔

تاتیا ٹوپے کو بہت سارے کرداروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ وہ نانا صاحب کے دوست، دیوان، وزیر اعظم اور آرمی چیف جیسے عہدوں پر فائز رہے تھے۔

سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے ابتدائی دنوں میں تاتیا ٹوپے کا منصوبہ کافی حد تک کامیاب رہا۔

دلی میں 1857 کے بغاوت کے بعد لکھنؤ، جھانسی اور گوالیار جیسی سلطنتیں آزاد ہوئیں، تاہم بعد میں جھانسی کی رانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ دہلی، کانپور، اعظم گڑھ، وارانسی (بنارس) الہٰ آباد، فیض آباد، بارابنکی اور گونڈا جیسے علاقوں کو بھی انگریزوں سے مکمل طور پر آزاد کروا لیا گیا تھا۔

اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ تاتیا ٹوپے نے نانا صاحب کی فوج کو پوری طرح سنبھال لیا تھا۔

اس میں فوجیوں کی تقرری، ان کی تنخواہیں، انتظامیہ اور ان کے منصوبوں کی دیکھ بھال سبھی تاتیا ٹوپے کر رہے تھے۔

تاتیا ٹوپے کو بروقت اور بڑے فیصلے کرنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا تھا اور اسی وجہ سے اُنھیں اس معاشرے میں انتہائی عزت کا مقام حاصل تھا۔

انھیں حاصل عزت کا اظہار نانا صاحب کے چیف سیکریٹری محمد اسحاق اور تاتیہ ٹوپے کے مابین ہونے والی خط و کتابت سے بھی ہوتا ہے۔

جھانسی کو آزاد کرنے کی جنگ

جب برطانوی فوج نے جھانسی پر قبضہ کیا تو اُنھوں نے جھانسی کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیا۔ ایسی صورتحال میں جھانسی کو بچانا ضروری تھا اور پیشواؤں نے یہ اہم ذمہ داری تاتیا ٹوپے کو سونپی۔

تاتیا کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ تھا۔ کانپور کے قریب کالپی سے تاتیا ٹوپے اپنی فوج کے ساتھ تیزی سے جھانسی کی طرف بڑھے۔

وشنوبھٹ گوڈسے نے اپنے سفر نامہ ’سانجھا پرواس‘ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں تاتیا ٹوپے کی فوج بہت بہادری سے لڑی لیکن تاتیا یہ جنگ نہیں جیت سکے۔

ان کے ہتھیاروں کو بھی انگریزوں نے قبضے میں لے لیا تھا لیکن اس جنگ سے جھانسی کے لوگ بہت جوش میں آ گئے تھے۔

جھانسی، کالپی اور گوالیار

جب پیشوا جھانسی پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے تو رانی لکشمی بائی کے پاس جھانسی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

وہ برطانوی فوج کو چکمہ دیتے ہوئے کالپی کی جانب بڑھے۔

جھانسی کی رانی اور تاتیا ٹوپے کی بھی کالپی میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی لیکن اُنھیں کامیابی نہیں ملی۔

اس کے بعد اُن کی فوج گوالیار کی طرف بڑھی۔ جب گوالیار کی فوج کو شکست ہوئی تو گوالیار کے راجہ نے دھولپور کے راستے آگرہ میں پناہ لی۔

گوالیار کی ساری شاہی جائیداد پر قبضہ کرنے کے بعد تاتیا نے فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی اور پھر انگریزوں سے گوالیار کو بچانے کا کام شروع کیا۔

جب برطانوی فوجیوں کو معلوم ہوا کہ پیشوا، جھانسی کی رانی اور تاتیا ٹوپے گوالیار میں ہیں تب وہ گوالیار کی طرف بڑھے۔

17 جون 1858 کو برطانوی فوج گوالیار کے قریب پہنچی۔ یہاں جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزوں سے براہ راست جنگ لڑی اور ہلاک ہو گئیں۔

رانی لکشمی بائی کی موت کی خبر کے بعد میدان جنگ کا منظر بدل گیا۔ گوالیار پر پیشوا کی جیت چند لمحوں کی ہی ثابت ہوئی۔

نانا صاحب کے بھتیجے راؤصاحب، تاتیا ٹوپے اور باندہ کے نواب علی بہادر سب گوالیار سے لاپتہ ہو گئے۔

اس سے قبل 10 جون کو برطانوی فوج نے رانی لکشمی بائی اور علی بہادر کی گرفتاری پر 10 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا۔

رانی لکشمی بائی کی موت کے بعد تاتیا ٹوپے اور راؤ صاحب کو پکڑنے پر دس ہزار روپے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔

راؤ صاحب نے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی لیکن برطانوی حکام نے انگریزوں کے خلاف سازش میں ملوث ہونے کی صورت میں اُنھیں کسی بھی طرح کی رعایت دینے سے انکار کر دیا۔

ایسی صورتحال میں اُنھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ علی بہادر نے انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اُنھیں پنشن دے کر اندور بھیج دیا گیا۔

لیکن تاتیا ٹوپے اور راؤ صاحب نے جدوجہد جاری رکھی۔

تاتیا ٹوپے گوالیار کے بعد کہاں گئے؟

گوالیار سے رخصت ہونے کے بعد تاتیہ ٹوپے ہوشیاری سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ پہلے راجپوتانہ گئے، پھر مالوا اور مختصر وقت کے لیے گجرات میں بھی رہے۔

گوالیار سے نکلتے ہی وہ متھرا گئے اور راجستھان پہنچے۔ پھر مغرب اور وہاں سے جنوب کی سمت گئے۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سفر کی سمت تبدیل کرتے رہتے تھے۔

تاتیا ٹوپے اور راؤ صاحب اس دوران قبائلی عوام کے درمیان بھی رہے تھے اور یہ کوششیں بھی کرتے رہے کہ انگریزوں کے خلاف مہم بند نہ ہو۔

پرتیبھا راناڈے نے اپنی کتاب ’جھانسی کی رانی لکشمی بائی‘ میں راؤ صاحب اور تاتیا ٹوپے کے آخری ایام کا تذکرہ کیا ہے۔

راؤ صاحب جب جموں کے قریب تھے تو بھیم راؤ نامی ایک شخص نے انگریزوں کو اطلاع دی اور وہ گرفتار ہو گئے۔

کانپور میں ان پر مقدمہ چلایا گیا مگر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ پھر بھی 20 اگست 1862 کو اُنھیں بیتور میں پیشوا کے محل کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔

اس وقت تاتیہ ٹوپے گوالیار کے قریب شیوپوری جنگل میں تھے تب اُن کی کی ملاقات نرور کے راجہ مان سنگھ سے ہوئی۔ مان سنگھ نے انگریزوں کو اُن کے بارے میں اطلاع دے دی۔

سات اپریل 1869 کو تاتیا ٹوپے کو شیوپوری لایا گیا تھا اور 10 دن کے بعد 18 اپریل کو اُنھیں پھانسی دے دی گئی۔

پرتبھا راناڈے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جس پتھر پر تاتیا ٹوپے کو پھانسی دی گئی تھی وہاں انگریزوں نے لکھوایا تھا ‘یہاں 18 اپریل 1859 کو بدنام زمانہ تاتیا ٹوپے کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔’

لیکن برطانوی افسر اوٹرم سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جس شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا وہ تاتیہ ٹوپے نہیں تھے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جس شخص کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے وہ بڑودا کا بھاؤ تمبے نامی شخص تھا۔ دراصل تاتیہ ٹوپے ہونے کے شبہے میں بہت سارے لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

تاتیا ٹوپے کا خاندان کیا کہتا ہے؟

تاتیا ٹوپے کا خاندان ان کی موت کے بارے میں کیا کہتا ہے، اس سوال کے جواب میں پیراگ ٹوپے نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ تاتیا ٹوپے جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے اور برطانوی فوجیوں کے ساتھ اُن کی یہ لڑائی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پر چھپابروڈ میں ہوئی تھی۔

پیراگ ٹوپے نے اپنی کتاب ’آپریشن ریڈ لوٹس‘ میں میجر پیجٹ کے حوالے سے تاتیا ٹوپے کی آخری جنگ کے بارے میں لکھا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پیجٹ نے لکھا ہے کہ تاتیا ٹوپے کی موت ایک سفید عربی گھوڑے پر سوار جنگ کے دوران ہوئی تھی اور اُن کے لوگ لاش لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

لیکن برطانوی فوجی کئی مہینوں تک ان کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے۔ پیراگ ٹوپے کے مطابق تاتیا ٹوپے کے ساتھی رام سنگھ، راؤ سنگھ اور جل جنگ افواہیں پھیلاتے رہے کہ تاتیا ٹوپے زندہ ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تاتیا ٹوپے کو پھانسی دی گئی تھی لیکن کچھ کا خیال ہے کہ تاتیا ٹوپے راہب کے لباس میں بیتور، ییولا اور بڑودہ میں گھومتے دکھائی دیے تھے۔ حقیقت کچھ بھی ہو مگر 1857 سے 1859 کے درمیان تاتیا ٹوپے نے اپنی غیر معمولی بہادری سے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp