تحریک لبیک کا احتجاج اور حکومت کی سولو فلائٹ


پورے ملک میں چند روز قبل ہونے والے دھرنوں اور مظاہروں کے بعد حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جس پر بروز جمعہ متوقع ردعمل کو روکنے کے لیے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بند کر دیا گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس موقع پر تو کوئی ناگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن اتوار کی دوپہر لاہور میں خون کا جو کھیل کھیلا گیا ، اس نے مشرف دور کے سانحہ لال مسجد کے زخموں کو تازہ کر دیا۔ کرائے کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت میں کہاں اتنا شعور کہ معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کر پائے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں اور خصوصاً ان جماعتوں کو ساتھ ملایا جاتا جو ماضی میں حکومت پر فائز رہی ہیں تاکہ مسئلے کا پر امن حل نکالا جاتا۔ لیکن پہلے تو حکومت نے حالات کو بگاڑا اور بعد میں رکن پارلیمنٹ امجد علی خان سے فرانسیسی میگزین کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے خلاف قرارداد پیش کروا کر پارلیمنٹ کا سہارا لیا۔ وہ بہروپیا یا جو ایک زمانے میں تحریک لبیک کی تحریک کے قافلے میں کہنیاں مار کر آگے بڑھ کر اس قافلے کو اچکے لینا چاہتا تھا اور دعویٰ وہ پنڈی کے فرزند ہونے کا کرتا ہے لیکن اس وقت ناموس رسالت کے سپاہی کا تمغہ سینے پر لگایا اور عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ آج وہی بہروپیا وزارت پر آن بیٹھا ہے تو اسی تحریک پر پابندی لگانے کے لیے بھی اسی طرح عذر تراشے جس طرح ماضی میں لوگوں کو گالیاں دیتے وقت تراشتا اور پھر ان ہی لوگوں کے لیے رطب اللسان ہونے پر گھڑتا۔

چند ماہ قبل جب تحریک لبیک نے فرانس سے تعلقات توڑنے اور اس کے سفیر کی ملک بدری کے مطالبات کیے تو حکومت نے اس موقع پر بھی عارضی حل نکال کر تحریک لبیک سے پارلیمنٹ کے ذریعے اس معاملے کا حل نکالنے کے لیے وعدہ کیا جس پر تاخیر پر تحریک لبیک نے احتجاج اور دھرنوں کا تازہ سلسلہ شروع کیا۔ تحریک لبیک پر پابندی پر جو جواز حکومت نے بتائے کہ تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف ملک کے بیشتر شہروں میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں، رکاوٹوں اور پتھراؤ سے عوام کو پریشانی ہوئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو اغواء کیا گیا، ان پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں دو اہلکاروں سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے، ایمبولینسوں کو بھی روکا گیا جس کے سبب مریضوں کو بروقت طبی امداد نہیں مل سکی۔

ان وجوہات کی بنا پر حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی لگانے والا ہی ان سے مذاکرات بھی کر رہا ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہے کہ پابندی لگانے کا فیصلہ درست تھا یا پھر کالعدم تنظیم سے مذاکرات کرنا۔ حکومت نے پابندی کے حوالے سے جو جواز بتائے ہیں اس کے اپنے دھرنوں کے دوران بھی یہی کچھ عوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔

اتوار کو لاہور میں ہونے والے واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے حالات کی نزاکت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے قوم سے خطاب کا فیصلہ کیا جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ تحریک لبیک سے حرمت رسول کے لیے حکمت عملی پر اختلاف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وزیراعظم نے جس طرح اقوام متحدہ میں جس طرح اس مسئلے کو اجاگر کیا اور عالمی رہنماؤں کو اس سلسلے میں ہمنوا بنانے کی کوشش کی وہ قابل ستائش ہے۔ لیکن وزیراعظم کو عالمی سطح پر اس معاملے کو مزید اٹھانے کے ساتھ ساتھ داخلی سطح پر اور خاص کر اپنی صفوں میں ایسے افراد سے جان چھڑانی چاہیے جو معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھاؤ پیدا کرتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ گستاخی کا جواب پچاس اسلامی ممالک کی جانب سے یورپ کا تجارتی بائیکاٹ ہے لیکن اسلامی ممالک نے تو اپنی ساری ذمہ داری اس غریب ملک پر ڈال رکھی اور خود اسرائیل کو تسلیم کرنے سے لے کر ہر معاملے میں امریکہ اور یورپ کے آگے بچھے ہوئے ہیں۔

مغرب میں آزادی رائے کے نام پر گستاخانہ خاکوں کا جو سلسلہ شروع ہے، ہر مسلمان کا غم و غصے کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ ہمیں مغرب سے احتجاج بھی کرنا چاہیے اور ہر وہ حربہ بھی اختیار کرنا چاہیے جس سے اسے احساس ہو کہ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت اس باب میں کیا ہے۔

ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم آپﷺکے اسوہ حسنہ کو عام کریں۔ جس کے لیے سب مؤثر ذریعہ ہمارا عمل ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم اس پیغمبر کی امت ہیں ہیں جو خدا کی حتمی ہدایت کا قیامت تک آخری ذریعہ ہیں۔ مغرب کے فتنہ باز اور گستاخ لاکھ کوشش کر لیں آپﷺکی سیرت مبارکہ کا سورج قیامت تک روشن رہے گا۔

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

وطن عزیز کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں گیا کہ سیاسی عمل ہی وہ واحد حل ہے جس سے عوام کو جوڑا جاتا ہے، یہ سیاسی عمل ہی سے ممکن ہے کہ قومی معاملات پر عوام کو ہم آواز بنایا ہے جائے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم نے ہمیشہ اس بنیادی حقیقت سے نظریں چرا کر سیاسی جماعتوں کو جس طرح دیوار سے لگایا ہے، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور عہدیداروں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سربراہ جلسوں میں قتل بھی ہوتے ہیں اور قاتل پکڑے بھی نہیں جاتے، انھیں پھانسیاں بھی دی جاتی ہیں اور بعد میں اس پر ٹسوے بھی بہائے جاتے ہیں۔ انہیں ملک بدر بھی کیا جاتا ہے اور ذلیل و رسوا بھی کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست دان اپنی تمام تر کمزریوں، کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ایک سیاسی عصبیت رکھتے ہیں اور یہی سیاسی عمل کا ایک روشن پہلو ہے۔

حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں قرار، پیش کر دی اور ساتھ ہی مقدمات کی واپسی اور فورتھ شیڈول سے عہدیداران کے نام نکالنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ، یہی کام آج سے چند روز قبل ہو جاتا تو ملک میں بے گناہ افراد جان سے ہاتھ دھوتے نہ نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچتا۔

تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو مزید وسعت دینی چاہیے اور حکومت ملک کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن کے ساتھ بھی اسی طرح مذاکرات کرے، کورونا کی وبا نے جس طرح زوال پذیر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا ہے اور عوام کو مصائب سے دوچار کیا ہے ، ایسے میں اختلافی معاملات کے باوجود قومی اور ملکی امور سیاسی مفاہمت اور اشتراک عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments