فرتاش سید؛ یادیں /ملاقاتیں


فرتاش سید سے میری پہلی ملاقات گول باغ، گلگشت ملتان میں ہوئی، ان دنوں وہ قطر سے واپس آئے ہوئے تھے اور اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے تھے۔ ان کی آمد پر ادبی تنظیم سخن سرائے نے ایک مختصر شعری نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں ارشد عباس ذکی، نعیم آزاد، اسامہ خالد، عمران عالی، طہ ابراہیم اور کچھ اور دوست شامل تھے۔ نشست کے آغاز سے پہلے یک دم تیز بارش شروع ہوئی اور جب تک ہم گول باغ سے نکل کر تباش ہوٹل تک پہنچے، سب دوست بھیگ چکے تھے۔

نشست میں سب دوستوں نے اپنا کلام سنایا اور بعد از نشست رسمی و غیر رسمی ہر دو طرح کی گفتگو ہوئی جس میں ان کی زندہ دلی و خوش مزاجی کا علم ہوا۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کبھی بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں سلیم واقف کے کمرے میں محفلیں جمی تو کبھی گلگشت میں پٹھان چائے کے ڈھابوں پر ساری ساری رات بیٹھے رہتے۔ کچھ ماہ بعد وہ قطر لوٹ گئے اور میں غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان چلا آیا۔ اس دوران رابطہ کم ہو گیا، ہاں البتہ جب وہ پاکستان آتے تو ان سے ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ مشاعروں میں بھی اکٹھے آنا جانا ہوتا تھا لیکن تفصیلی ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ تھم سا گیا تھا۔

2019 میں ایم اے کرنے کے لیے اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا تو ایک دن ان کا فون آیا، کہنے لگے پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کی مبارک ہو، میں بھی کچھ دنوں میں مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی، میں نے کہا جب بھی لاہور آئیں، انارکلی کے قریب میرا ہاسٹل ہے، ملاقات ضرور کیجیے گا۔

سونے کے معاملے میں میری کوئی مخصوص روٹین نہیں رہی۔ ایسے ہی ایک شام کمرے میں سو رہا تھا کہ بار بار دروازے پر دستک ہونے لگی۔ میں نے نیم خوابیدہ لہجے میں آواز لگائی: کون؟ پنجابی ڈیپارٹمنٹ کے ایک لڑکے نے پوچھا : یہ حمزہ یعقوب کا کمرہ ہے؟ میں نے کہا: جی کہیے! کیا کام ہے؟ کہنے لگا: پچھلے دو گھنٹوں سے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایک استاد تمھارے انتظار میں گیٹ پر بیٹھے ہیں۔ فون کرتے رہے، تم نے جواب نہیں دیا اور اب ان کے کہنے پر میں ایک ایک کمرے میں جا کر تمھیں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔

میں فوراً بھاگا بھاگا گیٹ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں فرتاش بھائی ہاسٹل کے سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ قہقہے لگا رہے ہیں۔ میں نے چھوٹتے ہی معذرت کی کہ آپ کو اتنی زحمت ہوئی تو کہنے لگے : نہیں یار، ان صاحبان (سیکیورٹی گارڈز) نے بڑی خدمت کی، بس تم اپنی سونے کی عادت ٹھیک کرو، ابھی تو نوجوان ہو، گھومو پھرو، کیا کمرے میں قید ہوئے پڑے ہو۔ میں نے قاسم حیات کو فون کیا اور ہم تینوں پاک ٹی ہاؤس چلے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ اب سے وہ لیڈز یونیورسٹی لاہور میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے ہیں لہذا ہفتے میں دو/تین دن لاہور اور باقی چار دن بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پڑھائیں گے۔

اس کے بعد شاعری، ادب، تعلیم و تدریس اور لاہور کے ادبی منظرنامے پر گپ شپ ہوتی رہی۔ میں نے پوچھا کہ آج رات لاہور رکیں گے یا واپس چلے جائیں گے تو کہنے لگے : وقت کافی ہو چکا ہے اب ادھر ہی رک جاتا ہوں۔ میں نے عرفان حیدر، مزمل صدیقی، اکبر انجم، دلاور عباس اور مشتاق احمد کو فون کیا کہ سب میرے کمرے میں جمع ہو جائیں فرتاش بھائی آئے ہیں تو ان کے ساتھ ایک شعری نشست ہو جائے۔ سب دوست آن جمع ہوئے اور رات دو بجے تک خوب محفل جمی، صبح وہ ملتان چلے گئے۔

یہ ان سے لاہور میں پہلی ملاقات تھی جس کے بعد ملاقاتوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ اسی دوران میں پنجاب یونیورسٹی لاہور نے مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا جس سے میں شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوا۔ میں نے تمام دوستوں سے رابطے ختم کر دیے۔ فرتاش بھائی کو پتہ چلا تو میرے ہاسٹل چلے آئے، کہنے لگے گھبراتے کیوں ہو، اگلے سال جہاں کہو گے تمھیں داخلہ لے دوں گا۔ پرائیویٹ پیپر دینا چاہو تو کوئی قدغن نہیں اور عدالت میں کیس کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی کرا دیتا ہوں لیکن تمھاری یہ حالت کسی طور قابل قبول نہیں۔

چلو کپڑے بدلو، تمھیں لاہور کی سیر کراتا ہوں۔ میں انکار کرتا رہ گیا لیکن وہ زبردستی مجھے اور قاسم حیات کو لے کر ماورا پبلیکیشنز پر چلے آئے، خالد شریف صاحب سے ہمارا تعارف کرایا، ہمارے شعر سنائے اور کچھ کتابیں خریدیں۔ وہاں سے الحمراء لے آئے، اعجاز کنور راجہ سے ملاقات کرائی، پھر انارکلی لے آئے، کھانا کھلایا اور جانے سے پہلے کہنے لگے : اب ایک بار ہنس کے دکھاؤ، ہم ایسے دوستوں کے ہوتے ہوئے بھی تمھاری یہ حالت ہو تو کیا فائدہ ہماری دوستی کا، میں ہنس پڑا اور وہ اپنے ہاسٹل چلے گئے۔

چند ماہ بعد انہوں نے ملتان کو خیر آباد کہا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں استاد مقرر ہوئے۔ جس دن جی سی یونیورسٹی لاہور میں ان کا انٹرویو تھا، اس دن بہت پرجوش تھے۔ انٹرویو سے لوٹے تو کہنے لگے : بہت اچھا انٹرویو ہوا، سب مجھے پہلے سے جانتے تھے، اب میں تمھارے ہاسٹل کے اور بھی قریب آ گیا ہوں۔ میں نے کہا اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد جیسے ہی جی سی یونیورسٹی میں ان کی کلاسز ختم ہوتیں، وہ سیدھا میرے ہاسٹل چلے آتے، ساری ساری رات گپ شپ کرتے، مال روڈ پر گھومتے، تھک جاتے تو انارکلی جا بیٹھتے اور آخر میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے اپنے ہاسٹل چلے جاتے۔

ان سے مل کر میری ہر پریشانی ختم ہو جاتی، لاہور میں اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں یونیورسٹی سے نکالے جانے والے معاملے پر خودکشی کر لیتا۔ روزانہ فون کرتے، بعض اوقات جی سی یونیورسٹی سے جلدی فری ہوتے تو اورئینٹل کالج آ جاتے۔ لان میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے اور رات گئے تک ساتھ رہتے۔ ہر تازہ غزل کہنے کے بعد مجھے سناتے اور کہتے اسے دشمن کی نظر سے سنو، رسمی داد دینے کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹریٹ کے موضوع سے متعلق کتاب کی اشاعت کا معاملہ درپیش ہوا تو نظر ثانی کے لیے مسودہ بھی مجھے دے گئے۔

وہ کتاب مکتبہ جدید نے : ”جدید اردو غزل کی شعریات؛ نمایاں خال و خد“ کے نام سے شائع کی ہے۔ ان دنوں میں بھی امراؤ جان ادا کے مستند متن کی از سر نو تدوین کر رہا تھا، اپنے تئیں ایک دو پبلشرز کے پاس گیا تو انہوں نے روکھے سوکھے جواب دے کر ٹرخا دیا۔ ایک دن خود ہی پوچھنے لگے کہ سال ہونے کو آیا ہے، تمھارے تحقیقی کام کا کیا بنا؟ میں نے کہا پبلشرز صحیح جواب ہی نہیں دے رہے، میں تو مایوس ہو گیا ہوں، اتنی محنت بھی کی اور اب اشاعت کے لیے بھی میں پیسے دوں؟

اگلے دن شام کو فون آیا کہ اورئینٹل کالج کے گیٹ پر پہنچو، پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں فرتاش بھائی ایک رکشے میں انتظار کر رہے ہیں، میں نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ کہتے بیٹھو تو سہی، میں بیٹھ گیا، رستے میں کچھ نہیں بتایا۔ جب رکشے سے اترے تو کہنے لگے آؤ مکتبہ جدید والوں سے بات کرتے ہیں، وہاں انہوں نے میرا تعارف کرایا اور ملاقات کے اختتام تک ظہیر بدر صاحب نے حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی اشاعت کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔

ہفتہ پہلے میں سرگودھا گیا جہاں سرگودھا یونیورسٹی میں ایک دوست کے تھیسس کا کچھ مسئلہ چل رہا تھا۔ 2015۔ 2019 سیشن تھا بی ایس اردو کا اور اب 2021 تک اس کا تھیسس جمع نہیں ہوا تھا۔ کچھ معاملات میرے دوست کی طرف سے خراب تھے اور کچھ نگران مقالہ بھی زود رنج واقع ہوئے تھے۔ بہرحال اس صورتحال کے سبب میرے دوست کی ڈگری کینسل ہونے والی تھی۔ فرتاش بھائی نے ڈاکٹر قاضی عابد، پروفیسر مقبول گیلانی، پروفیسر سجاد نعیم، اویس سجاد، شفیق ساحر، لیاقت علی اور نجانے کتنے ہی دوستوں کو فون کیے کہ میرا دوست سرگودھا گیا ہوا ہے، اس کا یہ مسئلہ حل کراؤ۔

میں جتنے دن سرگودھا رکا رہا، دن میں کئی بار فون کر کے پوچھتے کیا بنا؟ اور جب تک تھیسس جمع نہیں ہوا، ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ جب تھیسس جمع ہوا تو میں نے کہا سرگودھا سے واپسی پر میں لڈن آپ کو ملنے آ رہا ہوں، کہنے لگے ضرور آؤ۔ طبیعت کا پوچھا تو ہلکی ہلکی کھانسی کی تکلیف شروع ہوئی تھی، انہیں گمان ہوا شاید ملیریا کا اثر ہے۔ میں اگلے دن چک 474 سانگلہ ہل میں ڈاکٹر نوید کے پاس رک گیا۔ فرتاش بھائی کا فون آیا تو میں نے نوید سے ان کی بات کرائی، اس رات ان کا سانس بھی پھول رہا تھا اور گردوں کے قریب جسم میں درد کی شکایت بھی تھی، بخار اور تھکاوٹ کا مسئلہ البتہ نہیں تھا۔

نوید نے کہا پوسٹ کووڈ کیس لگ رہا ہے، نوید نے پہلے والی دوائی میں کچھ اضافے کیے اور صبح اپنی کنڈیشن بتانے کا کہا۔ میں نے صبح رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ میں دس گیارہ بجے سانگلہ ہل سے فیصل آباد آ گیا جہاں منظوم کے کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کو دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش تو پتہ چلا وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال وہاڑی میں داخل ہیں اور آکسیجن پر ہیں۔ دل یک دم گھبرا سا گیا، دوستوں سے دعاؤں کی اپیل کی، اگلی صبح ساڑھے چھ بجے ملتان کے لیے روانہ ہوا جب یہ اندوہناک خبر ملی کہ فرتاش بھائی انتقال کر گئے ہیں۔

ایسے لگا جیسے میرا وجود کسی آری نے چیر کر رکھ دیا ہو، بہت سے دوستوں نے تعزیت کے لیے فون اور میسجز کیے لیکن کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سانول عباسی صاحب کا فون اٹنڈ کیا تو لفظ ٹوٹنے لگ گئے، میں نے کال بند کر دی۔ ملتان پہنچا تو فیصل امام رضوی سے رابطہ ہوا، اس نے پوچھا جنازے پر جاؤ گے، میں نے کہا نہیں یار، میں کس منہ سے جاؤں گا، میں کیسے دیکھوں گا انہیں، مجھ سے برداشت نہیں ہو پائے گا۔ مجھے تو ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ روز شام کو حسب معمول ان کا فون آئے گا : کہاں ہو جانی، میں جی سی سے نکل رہا ہوں۔ روڈ پر آ جاو، انارکلی چلتے ہیں، بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments