مسٹر ’فے‘ کی کمپنی (1)۔


جدید مصنوعات تیار کرنے والی بین الاقوامی کمپنی نے جب اس چھوٹے سے شہر میں اپنی فیکٹری کھولنے کا اعلان کیا تو لوگوں کو خاصی حیرت ہوئی۔ ویسے تو اس شہر میں تمام سہولیات موجود تھیں مگر یہاں کبھی کوئی بڑا کارخانہ نہیں کھولا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جگہ کسی صنعتی علاقے میں آتی تھی اور نہ ہی یہاں کسی قسم کی کوئی کاروباری چھوٹ میسر تھی۔ ملک کے مشہور اسکولوں کی اکا دکا شاخیں یہاں موجود تھیں، ایک جدید اسپتال تھا، ابھی حال ہی میں چند نوجوانوں نے مل کر مقامی ریڈیو چینل بھی قائم کیا تھا مگر اس کی نشریات کا دائرہ چند کلومیٹر تک محدود تھا۔

شہر کے مضافات میں کچھ چھوٹے چھوٹے کارخانے تو تھے مگر ان کی تیار شدہ اشیا کی کھپت زیادہ نہیں تھی، مقامی لوگ روزگار کی خاطر زیادہ تر بڑے شہروں میں ملازمت کرنے جاتے تھے۔ یہ لوگ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے اس لیے انہیں ملازمت کے حصول میں کبھی کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر آپ اسے متوسط طبقے کے لوگوں کا شہر کہہ سکتے ہیں مگر یہاں کے چند خاندان جدی پشتی رئیس تھے جن کی کافی شہرت تھی۔ شہر کا ایک خوبصورت سا تاریخی ریلوے سٹیشن بھی تھا جسے مقامی لوگ اپنے تئیں تعمیراتی شاہکار سمجھتے تھے ورنہ سچی بات یہ ہے کہ ایسے ریلوے سٹیشن ملک میں بہتیرے تھے۔

بہر حال جو بھی ہو اس بین الاقوامی کمپنی نے جب کارخانے کا افتتاح کیا تو مقامی لوگوں کو صحیح معنوں میں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ ترقی کیا ہوتی ہے۔ افتتاح کے موقع پر نہ صرف شہر کے معززین کو مدعو کیا گیا تھا بلکہ کمپنی کے مقامی ڈائریکٹر نے اس بات کا خاص اہتمام کیا تھا کہ عام لوگوں کو بھی اتنی ہی تعظیم دی جائے جتنی ایسے موقعوں پر رؤسا اور انتظامیہ کے افسران کے دی جاتی ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر کا تعارف ہم بعد میں کروائیں گے۔

کمپنی نے اپنی پیداوار کا آغاز بچوں کے کھلونوں سے کیا۔ ایک چھوٹا سا روبوٹ بازار میں متعارف کروایا گیا جو بچوں کے حکم کے مطابق چلتا تھا، اس روبوٹ میں بچوں کے اسکول کے نصاب سے متعلق تمام معلومات بھر دی گئی تھیں، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا مگر اس کمپنی کی شہرت ایسی ہی غیر معمولی چیزیں بنانے کی تھی۔ سو بچے جب اس روبوٹ نما کھلونے سے کوئی سوال پوچھتے تووہ جھٹ سے اپنے مشینی انداز میں اس کا جواب بتا دیتا۔ کمپنی نے اس روبوٹ کی تعارفی قیمت بہت کم رکھی جس کی وجہ سے وہ ہاتھوں ہاتھوں بک گیا۔

بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی یہ کھلونا بہت پسند آیا، انہیں لگا کہ اس روبوٹ کی مدد سے ان کے بچے کھیل ہی کھیل میں پڑھائی کی باتیں بھی سیکھ جائیں گے۔ کچھ عرصے بعد کمپنی نے روبوٹ کا ایک بہتر ماڈل متعارف کروا دیا، اس ماڈل میں روبوٹ مشینی انداز کی بجائے بالکل انسانوں کی طرح بات کرتا اور اس میں معلومات بھی پہلے سے زیادہ بھر دی گئیں تھیں۔ اب اسکول کے علاوہ کالج کے طلبا بھی روبوٹ سے استفادہ کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ میں ہی کمپنی کی بکری میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور اس کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔

اپنی بین الاقوامی شناخت کی وجہ سے کمپنی کی ساکھ تو پہلے ہی اچھی تھی مگر روبوٹ نے اس میں چار چاند لگا دیے۔ شہر کے لوگ جو ملازمت کی تلاش میں بڑے شہروں میں جاتے تھے اب انہیں اپنے ہی شہر میں کمپنی میں نوکری مل گئی تھی، کمپنی کی منشا تھی کہ ملازمت میں مقامی لوگوں کو ترجیح دی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس چھوٹے سے شہر میں پیسے کی ریل پیل ہو گئی، کمپنی کا منافع بڑھتا تو ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا۔ شہر کا کوئی گھر نہیں بچا تھا جو کمپنی سے کسی نہ کسی انداز میں مستفید نہ ہوا ہو۔

کچھ عرصے بعد کمپنی نے ایک اور اچھوتی چیز متعارف کروائی۔ یہ ایک چھوٹی سی کمپیوٹر ’چپ‘ تھی جو باآسانی کسی بھی شخص کے بازو میں پیوست کی جا سکتی تھی۔ اس چپ کی خصوصیت یہ تھی کہ اسے لگوانے والے شخص کو بالکل روبوٹ کی طرح پابند کیا جا سکتا تھا، یہ چپ اس شخص کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رکھتی تھی جس کے بازو میں اسے پیوست کیا جاتا تھا۔ شروع شروع میں لوگوں نے اس چپ میں کوئی خاص دلچسپی نہ کیونکہ اس کی قیمت بہت زیادہ تھی، کمپنی نے چونکہ اس چپ کی تیاری پر بہت سرمایہ لگایا تھا اس لیے کمپنی اپنے پراڈکٹ کی ناکامی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

کمپنی کے ڈائریکٹر نے، جس کا نام مسٹر فے تھا، چپ کو کامیاب بنانے کے لیے ایک اسکیم سوچی۔ مسٹر فے کو اس کمپنی میں آئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور اس شہر میں بطور ڈائریکٹر یہ اس کی پہلی تعیناتی تھی۔ یہ ایک پستہ قد آدمی تھا جس کی توند نکلی ہوئی تھی، سر پر کوئی بال نہیں تھا، آنکھیں چھوٹی تھیں مگر ان میں بچوں جیسی معصومیت تھی، چہرے پر گھنی مونچھیں تھی جس کی وجہ سے اس کی شخصیت مضحکہ خیز لگتی تھی، اور پھر وہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی شگوفہ ضرور چھوڑتا تھا۔

ان باتوں کی وجہ سے اس کی شخصیت کا مجموعی تاثر ایک یار باش اور خوش مزاج شخص کا بنتا تھا، لوگ اس کی بات پر فوراً یقین کر لیتے تھے۔ مسٹر فے نے تجرباتی طور پر اپنے کارخانے کے چند ملازمین کے بازو میں وہ چپ پیوست کی اور انہیں بطور ماڈل کمپنی کے شو روم میں کھڑا کر دیا۔ اب جو شخص بھی وہاں آتا اسے کمپنی کی خوبصورت سیلز گرلز نہایت موثر انداز میں بریفنگ دے کر سمجھاتیں کہ کیسے ان انسان نما روبوٹس سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیا جا سکتا ہے۔

لڑکی کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول قسم کا ایک آلہ ہوتا جس کی مدد سے وہ چپ والے شخص کو مختلف ہدایات دیتی اور وہ انسان ان ہدایات پر بالکل اسی طرح عمل کرتا جیسے کمپنی کا تیار شدہ روبوٹ کرتا تھا۔ کئی ہفتوں کی محنت کے بعد بالآخر مسٹر فے کی اسکیم رنگ لے آئی اور کمپنی کی چپ امیر طبقے میں مقبول ہو گئی۔ (جاری ہے ) ۔

مسٹر ’فے‘ کی کمپنی (آخری حصہ)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments