تحریک لبیک کا احتجاج ختم لیکن گرفتار افراد کی رہائی پر ’کنفیوژن‘ موجود

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


ٹی ایل پی
ٹی ایل پی کے حمایتی لاہور میں ایک مظاہرے کے دوران
حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان نے مذاکرات کے بعد لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اپنا احتجاج تو ختم کر دیا ہے لیکن اس معاہدے کے تحت احتجاج کے دوران جن سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی رہائی سے متعلق حکومت ’کنفیوژن‘ کا شکار ہے۔

اس کے علاوہ اس جماعت کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کے بارے میں حکومتی آرا بھی مختلف ہیں۔

حکومت کی جانب سے تنظیم کی کلعدم حیثیت اور گرفتاریوں پر بیان

وزیرِاعظم عمران خان سے منسوب مقامی میڈیا پر چلنے والے ایک بیان کے مطابق انھوں نے کہا ہے کہ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیے جانے کا فیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کے مطابق تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن واپس لینے میں کچھ عرصہ درکار ہو گا۔

یہ بھی پڑھیئے

کالعدم ٹی ایل پی سے مذاکرات: حکومت کو اپنا رویہ تبدیل کیوں کرنا پڑا؟

لاہور میں اتوار کو ٹی ایل پی اور پولیس کا تصادم، عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

حکومت-ٹی ایل پی مذاکرات: ’ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو‘

سعد حسین رضوی، دیگر ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی، قتل کے مقدمے درج

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے، جو کہ تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل تھے، مذاکرات کے بعد اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انھوں نے یہ کہا کہ جن لوگوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کو خارج کیا جائے گا۔

تاہم بدھ کو وفاقی وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرس میں کہا ہے کہ صرف ان افراد کو رہا کیا جائے گا جنہیں خدشہ نقص امن کی تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

پشاور

ایک پولیس اہلکار پشاور میں ٹی ایل پی کے ایک کارکن کو گرفتار کر کے لے جاتے ہوئے

وزیر داخلہ کے بقول ان احتجاجی مظاہروں کے دوران 733 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 669 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے، ان کے مطابق ان میں سے زیادہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں سے ہے۔ اس پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے تفصیلات نہیں بتائیں کہ رہا کیے جانے والے افراد کو کن کن شہروں سے حراست میں لیا گیا تھا۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کے بعد اب تک ملک بھر میں 210 مقدمات درج ہوچکے ہیں اور ٹی ایل پی سے مذاکرات کے نتیجے میں ان مقدمات کے اخراج کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو کہ ان مقدمات کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ریاست کی رٹ کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا اور جن افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملہ کر کے انھیں ہلاک اور زخمی کیا ہے انھیں کسی طور پر بھی رہا نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول صرف خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کیا جا رہا ہے تاہم پراسیکوشن برانچ کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں سے ایسے افراد کی نشاندہی کرنا کافی مشکل ہے جنہیں صرف خدشہ نقص امن کی تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

ٹی ایل پی

کراچی میں ٹی ایل کے کارکن پولیس پر اینٹیں پھیکنتے ہوئے

تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری سے لیکر اس جماعت کو کالعدم قرار دینے تک ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والے افراد اور سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں وزارت داخلہ کو معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران دو ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان میں سے تین سو سے زائد ایسے افراد ہیں جن کو خدشہ نقص امن کے تحت احتجاجی مظاہرے شروع ہونے سے قبل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔

پنجاب کے محکمہ پراسکیوشن کے مطابق حکومت کی طرف سے حراست میں لیے گیے افراد کو رہا کرنے کا اعلان ابھی تک صرف بیان کی حد تک ہے جبکہ انھیں تحریری طور پر اس بارے میں کوئی احکامات نہیں دیے گئے۔

پنجاب کی پراسیکویشن برانچ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں، پولیس اہلکاروں پر تشدد اور قتل سمیت متعدد قوانین کی خلاف ورزیوں پر دو سو سے زائد مقدمات درج ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان مقدمات میں کچھ افراد نامزد ہیں جبکہ باقی افراد نامعلوم ہیں جن کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

راولپنڈی

راولپنڈی: مظاہروں کے دوران مری روڈ کو کنٹینرز کے ذریعے بند کیے جانے کا ایک منظر

اہلکار کے مطابق متعدد مقدمات میں جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کو صرف خدشہ نقص امن کے تحت ہی گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ان پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملہ کرنے اور لوگوں کو حملے کے لیے اکسانے کے بھی الزامات ہیں۔

اہلکار کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جنہیں احتجاجی مظاہروں کے دوران حراست میں لیا گیا۔

پراسکیوشن برانچ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں فوجداری مقدمات کی پیروی ان کے ادارے نے ہی کرنی ہے اس لیے ان مقدمات میں ایسے افراد کی نشاندہی کرنا جنہیں صرف خدشہ نقص امن کے تحت گرفتار کیا گیا ہے کافی مشکل امر ہے۔

فوجداری مقدمات کے پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کرسکتی ہے لیکن جس معاملے میں کسی فرد یا جائیداد کو نقصان پہنچا ہو، ایسے مقدمات اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک کہ جس شخص کو مالی نقصان پہنچا ہو وہ عدالت میں آ کر اس بارے میں بیان نہ دے، چاہے ریاست اس مقدمے میں مدعی ہو۔

انھوں نے کہا کہ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران سینکٹروں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں اور جب تک وہ عدالت میں آ کر بیان نہیں دیں گے مظاہرین کے خلاف مقدمات ختم نہیں ہوں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مقدمے کے اخراج کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تفتیشی افسر عدالت میں بیان دے کہ اس مقدمے میں ملزمان کے خلاف شہادتیں نہیں ملیں اس لیے اس مقدمے کو ختم کر دیا جائے۔

کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی کے خلاف پولیس اہلکاروں کے قتل کے علاوہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات بھی درج ہیں۔ اگرچہ ان کو احتجاجی مظاہروں سے پہلے ہی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ان مقدمات میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 بھی لگائی گئی ہے جو کہ اعانت مجرمانہ سے متعلق ہے۔ ان مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات کا بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت اگر مدعی مقدمہ معاف بھی کر دے تو پھر بھی عدالت اس کو تسلیم نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp