کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


مظاہرے

پاکستانی حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کے چار روز بعد ہی حکومت نے نہ صرف تنظیم کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کیے بلکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔

اس معاہدے کے تحت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ پارلیمان میں زیر بحث لانے کے لیے حکومت کی جانب سے قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ آرڈیننس برائے امنِ عامہ (ایم پی او) کی شق 16 کے تحت تحریک لبیک پاکستان کے گرفتار 650 سے زیادہ افراد کو رہا بھی کیا جا چکا ہے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کالعدم تحریک کے سربراہ سعد رضوی پر مقدمے سمیت 210 ایف آئی آر جو دفعہ 302 اور انسداد دہشتگری کے قانون کے تحت درج کی گئی ہیں وہ قانونی عمل سے گزریں گی۔

بہت سے ذہنوں میں سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک ایسی تنظیم جس کو حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، اس کے ساتھ مذاکرات اور پھر معاہدے کی آخر قانونی حیثیت کیا ہے اور اس تنظیم کو قانونی اعتبار سے کیا حقوق حاصل ہیں۔

کالعدم تنظیم کے ساتھ معاہدے کی قانونی حیثیت

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں قانون کی پروفیسر مروہ خان کے مطابق کسی بھی معاہدے کی قانونی حیثیت کو جانچنے کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک معاہدے کی شرائط اور دوسرا معاہدے کے فریق۔

مروہ خان کے مطابق حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی جو شرائط سامنے آئیں ہیں ان میں سے کوئی بھی بظاہر پاکستانی قانون کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کا حق حکومت اور ہر رکن قومی اسمبلی کو حاصل ہے اور قرارداد کے متن پر بھی بحث پارلیمان میں ہو سکتی ہے کیونکہ پارلیمانی نظام میں ایوان کا فیصلہ ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

احتجاج ختم لیکن تحریک لبیک کے گرفتار افراد کی رہائی پر ’کنفیوژن‘ موجود

تحریک لبیک کا اہم ’مطالبے پر حکومت کی جانب سے عمل کے بعد‘ احتجاج ختم کرنے کا اعلان

کیا تحریکِ لبیک پر پابندی موثر ثابت ہو گی؟

کالعدم تحریک لبیک تشدد کے راستے پر کتنا آگے جا سکتی ہے؟

حکومت-ٹی ایل پی مذاکرات: ’ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو‘

اُن کے مطابق اس معاہدے کی دوسری شرط جو تحریک لبیک پاکستان کے گرفتار کارکنان کی رہائی سے متعلق ہے وہ بھی غیر قانونی نہیں کیونکہ حکومت ماضی میں بھی ایم پی او کے تحت گرفتار افراد کو رہا کر چکی ہے۔

مظاہرے

’یہ شق اس صورت غیر قانونی ہوتی اگر حکومت اس معاہدے کے تحت قتل اور دہشتگردی کے مقدمات بھی ختم کر دیتی کیونکہ قتل کے مقدمات میں معافی کا حق ریاست کے پاس نہیں ہوتا بلکہ صرف مقتول کے ورثا ہی مقدمہ واپس یا اس کے بدلے دیت لے سکتے ہیں، چنانچہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں قتل اور دہشتگردی کے مقدمات برقرار رہیں گے۔‘

مروہ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی تیسری شق جو مظاہرین سے متعلق ہے، اس پر سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کا فیض آباد دھرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ موجود ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج کرنے سے متعلق حقوق اور فرائض واضح کیے گئے ہیں جبکہ حکومت کے لیے بھی مظاہرین سے نمٹنے سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔

مروہ خان کا کہنا ہے کہ جہاں تک اس معاہدے کے فریقین کی قانونی حیثیت کی بات ہے تو ابھی تحریک پر مکمل طور پر پابندی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے کیونکہ انسداد دہشتگری کے قانون 1997 کے مطابق ابھی تنظیم کے پاس نہ صرف وزارت داخلہ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہے بلکہ اس کے بعد یہ تنظیم عدالت سے بھی رجوع کر سکتی ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ابھی تحریک لبیک پاکستان کو بطور سیاسی جماعت بھی تحلیل نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے قانون میں طے شدہ طریقہ کار کے تحت اس کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک لبیک پاکستان کی معاہدے کے وقت کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔

مظاہرے

فرانسیسی سفیر کی پاکستان بدری کے لیے ملک بھر میں مختلف تنظیموں اور گروہوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے

تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد اکرم شیخ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ معاہدے ہمیشہ برابر کے فریقین کے درمیان ہوتے ہیں اور کالعدم تحریک کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لہٰذا اس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

معاہدے کی بین الاقوامی حیثیت

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ حکومت کی جانب سے کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے گئے ہوں۔ اس سے قبل حکومت نے سنہ 2008 میں کالعدم قرار دی گئی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے۔

ماہرِ قانون بیرسٹر سعد رسول کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے امن قائم کرنے کے لیے نہ صرف کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کیے بلکہ معاہدے بھی کیے، اور اس میں سرِفہرست ملک امریکہ ہے جس نے افغان طالبان کے ساتھ نہ صرف تفصیلی مذاکرات کیے بلکہ ایک تاریخی امن معاہدہ بھی کیا اور یہ سب تب ہوا جب افغان طالبان میں شامل بہت سے عناصر بین الاقوامی سطح پر اور امریکہ کے اپنے قانون کے تحت بھی کالعدم قرار دیے جا چکے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے کبھی بھی افغان طالبان کو دہشتگرد تنظیم قرار نہیں دیا۔ اگرچہ امریکی دفتر خارجہ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم تحریک طالبان پاکستان، حقانی گروپ اور القاعدہ کو دہشتگر تنظیمیں قرار دے چکا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق افغان طالبان کو دہشتگرد تنظیم قرار نہ دینے کی اہم وجہ یہ رہی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جب بھی طالبان سے مذاکرات یا معاہدہ کرے تو اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائیں جائیں۔

تاہم سعد رسول کا کہنا ہے کہ کسی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے، بلکہ امن و امان کے قیام اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ریاست کسی بھی گروہ سے مذاکرات اور معاہدے کرنے کے لیے خود مختار ہے، بشرطیکہ معاہدے کی شرائط انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔

چنانچہ سعد رسول کے مطابق حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات غیر قانونی نہیں اور نہ ہی حکومت نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو آج سے پہلے دنیا میں نہ ہوا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp