اختلاف رائے پر بائیکاٹ کا رویہ، امریکی تعلیمی اداروں میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے؟


ویب ڈیسک — امریکہ میں حال ہی میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے ایک سروے کے نتائج میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 64 فی صد امریکی جن میں لبرل اور قدامت پسند، دونوں قسم کے افراد شامل ہیں ‘کینسل کلچر’ یا اختلاف رائے پر بائیکاٹ کے کلچر کو اپنی آزادی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت سے طلبہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ‘کینسل کلچر’ لوگوں کو نسلی، صنفی، سیاسی نظریات، عمر اور طبقات کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں بہت آگے نکل گیا ہے۔

واضح رہے کہ ‘کینسل کلچر’ سے مراد وہ رویہ ہے جس میں متنازع بات یا عمل کرنے کی بنیاد پر معروف افراد یا کمپنیوں کی حمایت ختم کر دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی معروف اداکار پر جنسی ہراسانی کا الزام لگتا ہے تو ان کی فلموں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی ہے اور انہیں مزید فلمیں یا کام دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔

لیکن ‘کینسل کلچر’ معروف لوگوں سے ہوتا ہوا اب عام لوگوں کی زندگی میں بھی داخل ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ‘کینسل کلچر’ کے حوالے سے یونی ورسٹی آف جارجیا کی طالبہ آریانہ مبوانے کی وجہ سے ایک بحث شروع ہوئی تھی۔ ستمبر 2020 میں مبوانے نے ٹوئٹر پر Ariexposeuga@ کا اکاؤنٹ بنا کر یونی ورسٹی کی ایک ‘فریٹرنٹی’ کے گروپ کے سکرین شاٹ پوسٹ کیے تھے جن میں نسل پرستی پر مبنی پیغامات بھیجے گئے تھے۔ فریٹرنٹی امریکی یونیورسٹیز میں طلبہ کا گروپ ہوتا ہے اور عموماً یونانی نمبروں سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔

مبوانے کی جانب سے سکرین شاٹ پوسٹ ہونے کے بعد اس گروپ نے اپنی فریٹرنٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا تھا۔

مبوانے نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ان پیغامات کے سکرین شاٹ اس لیے لگائے تھے کہ لوگوں کو اپنے غلط رویے کے بارے میں احساس ہو۔

انہوں نے ای میل جواب کا دیتے ہوئے لکھا کہ “کبھی کبھی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے، کبھی نہیں ہوتی، یہ ان افراد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔”

لیکن مبوانے کے تمام کلاس فیلو اس معاملے کو اسی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ کچھ نے مبوانے کو یونی ورسٹی میں ‘کینسل کلچر’ پروان چڑھانے کا الزام دیا۔ ان کے خیال میں یہ اقدام خیالی طور پر متنازع بات کرنے پر افراد اور اداروں کو عوامی سطح پر بے عزت کرنے انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کے بائیکاٹ کرنے کے کلچر کا حصہ ہے۔

یونی ورسٹی کے ایک اور طالب علم پیٹرک موسلے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مبوانے کے اس اقدام کی وجہ سے یونی ورسٹی میں ‘کینسل کلچر’ پروان چڑھا۔ ان کے مطابق اگر آپ یونی ورسٹی کے لبرل طبقے سے باہر ہیں تو آپ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

یونی ورسٹی آف ورجینیا شارلٹس ول میں میڈیا اسٹڈیز کے شعبے کی ڈائریکٹر میریڈتھ کلارک نے ‘کینسل کلچر’ کا دفاع کرتے ہوئے اکتوبر 2020 میں جرنل کمیونی کیشن اینڈ دی پبلک میں لکھا کہ ‘کینسل کلچر’ اپنی مرضی کا اظہار ہے۔

اُں کے بقول اس اظہار میں آپ کسی شخص یا ادارے کی جانب سے اپنا منہ موڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں کیوں کہ آپ کو ان کے اقدار اور ان کی باتیں اس قدر متنازع محسوس ہوتی ہیں کہ آپ اپنی موجودگی، پیسہ اور وقت ان پر صرف کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

لیکن معروف شخصیات، سیاست دانوں یا کمپنیوں کو ‘کینسل’ کرنے یا مسترد کرنے کے رویے پر لبرل اور قدامت پسند طبقات کا اختلاف ہے۔

ہارورڈ یونی ورسٹی کی کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے پیپا نورس نے اگست 2020 میں ‘کینسل کلچر’ کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اس رویے کا ذکر ملتا ہے جب مذہب سے انکار کی وجہ سے اختلاف کرنے والوں کو انتہا پسندی پر مبنی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ آج کے تناظر میں یہ خدشہ درست ہے کہ کیا ایسی تنقید آزادیٔ اظہار سے متعلق برداشت ختم کر رہی ہے اور دوسروں پر بائیں بازو کے نظریات مسلط کر رہی ہے۔

لیکن انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ چند واقعات کے علاوہ اس بارے میں کیا کوئی ثبوت بھی موجود ہے؟

امریکی شہر نوکسول میں واقع یونی ورسٹی آف ٹینیسی کی طالبہ میمی گرووز کو یونی ورسٹی سے اپنا داخلہ واپس لینا پڑ گیا۔ اس کی وجہ ان کی ‘اسنیپ چیٹ’ کی ایک ویڈیو بنی جو انہوں نے 15 برس کی عمر میں بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں انہوں نے نسلی تعصب پر مبنی ایک گالی کا استعمال کیا تھا۔ تین سیکنڈ کی یہ ویڈیو تین برس پرانی تھی۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ تنازع مئی 2020 میں شروع ہوا جب گرووز نے ایک ٹوئٹ میں لوگوں کو بلیک لائیوز میٹرز تحریک کے لیے باہر نکلنے کو کہا۔ ان کے ایک کلاس فیلو نے ان کی ٹوئٹ پر اعتراض کرتے ہوئے وہ ویڈیو پوسٹ کر دی۔

نیو یارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے گرووز نے بتایا کہ ان کو جلد ہی یونی ورسٹی کی چیئر ٹیم سے نکال دیا گیا اور داخلہ آفس کی جانب سے مسلسل دباؤ کی وجہ سے انہوں نے یونی ورسٹی سے داخلہ واپس لے لیا۔ وائس آف امریکہ نے ان سے تبصرہ لینے کے لیے ان سے رابطہ کیا مگر کامیابی نہ مل سکی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بعض واقعات میں پروفیسرز کو بھی طلبہ کی جانب سے مسترد کرنے والے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکہ کے جارج ٹاؤن لا سکول نے رواں برس مارچ میں پروفیسر سانڈرا سیلرز کو ایک ویڈیو کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا۔ وہ وائرل ویڈیو میں اپنے سیاہ فام طلبہ کے بارے میں نسلی تعصب پر مبنی جملہ کہتی سنائی دیتی ہیں۔

ایسے ہی ریاست نارتھ کیرولائنا کی ڈیوک یونی ورسٹی کی پروفیسر میگن نیلی کو جنوری 2019 میں شدید تنقید کے بعد اپنی ملازمت سے استعفی دینا پڑا۔ انہوں نے ایک ای میل میں یونی ورسٹی میں پڑھنے والے چینی طلبہ سے یہ کہا تھا کہ وہ محکمے کی عمارت کے اندر انگریزی میں بات کیا کریں۔

کچھ طلبہ کا کہنا تھا کہ اپنے بعض نظریات کی وجہ سے وہ اپنے تعلیمی ادارے میں کینسل ہونے یا مسترد کیے جانے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا لبرل یا ڈیموکریٹ سوچ کی اکثریت والی یونی ورسٹی میں اقلیتی تعداد میں ہونا ہے۔

پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں کالج ری پبلکنز کی سرگرمیوں میں شریک ہونے والے اینڈریو والڈمین نے بتایا کہ “یہ ٹوئٹر کی طرح کا کھلم کھلا ‘کینسل کلچر’ نہیں ہے بلکہ یہ سماجی بائیکاٹ کا کلچر ہے۔ یعنی اگر آپ قدامت پسند ہیں تو لوگ آپ کے نظریات کی حمایت نہیں کریں گے اور نہ ہی انہیں سنیں گے۔”

ان کے بقول لوگ قدامت پسندوں کے ساتھ کام کرنے اور ان کی بات سننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ‘کینسل کلچر’ یا مسترد کیے جانے والے اس رویے میں یہ خرابی ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ کی مدد کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

والڈمین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو کسی کی بات پسند نہیں آتی تو اس سے مکالمہ کریں۔ مکالمے کو روکنے سے ایک کم علم آبادی پیدا ہوتی ہے۔ اسی کی وجہ سے سیاسی تقسیم بھی بڑھتی ہے۔

ہائیر ایجوکیشن میں ‘کینسل کلچر’ سے پیدا ہونے والے خدشات کے پیشِ نظر فلوریڈا کے ایوانِ نمائندگان میں رواں برس مارچ کے اواخر میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت تعلیمی اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ خیالات کے تنوع کو برقرار رکھیں اور یونی ورسٹیوں کے لیے یہ ممنوع ہوگا کہ وہ کسی بھی متنازع سوچ کے حامل اسپیکر پر پابندی لگائیں۔ اس بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی تعلیمی اداروں میں آزادیٔ اظہار پر اس کا بر اثر پڑے گا۔

جہاں اکثر امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ‘کینسل کلچر’ ایک مسئلہ ہے، وہیں ہارورڈ کے پول کے مطابق لوگوں میں اسے روکنے کے طریقۂ کار میں بھی اختلاف ہے۔

پینسلوینیا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے اینڈرو والڈمین کے بقول، ‘کینسل کلچر’ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مناسب لوگ ہیں جن سے کچھ غلطی ہو گئی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم ان لوگوں کی مدد کیسے کریں اور انہیں سمجھائیں کہ ایسی باتیں کرنا اب مناسب نہیں رہا۔

والڈمین کا کہنا تھا کہ ضروری یہ ہے کہ ہم مکالمے کو بڑھانے کے بارے میں سوچیں، نہ کہ اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچتے رہیں۔

لیکن دیگر افراد لوگوں کے غلط رویوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے فاش کرنے کو سماجی انصاف کی ایک کڑی سمجھتے ہیں۔

مبوانے کا خیال ہے کہ ان کی پوسٹس لوگوں کو مسترد کرنے کے لیے نہیں تھیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے سماجی انصاف کے متعلق شعور پھیلا رہی ہیں اور صحت اور حفاظت کے ایسے مسائل کی بات کر رہی ہیں جو ان کی کمیونٹی کو متاثر کرتے ہیں۔

ان کے بقول “جو لوگ ‘کینسل کلچر’ کے بارے میں شکایات کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو احتساب سے ڈرتے ہیں۔ یہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ماضی کی گئی ان کی غلطیاں سامنے آ جائیں گی۔

مبوانے کے مطابق ایسے لوگ بجائے اس کے کہ احتساب کو خوش آمدید کہیں اس سے ڈرتے ہیں جب کہ یہ رویہ تبدیل ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments