سمیع چوہدری کا کالم: مگر عثمان قادر بھاری پڑ گئے

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


شان ولیمز کا خیال تھا کہ سہہ پہر میں ہرارے سپورٹس کلب کی وکٹ بیٹنگ کے لئے آسان ہو جائے گی۔ اسی لئے انہوں نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا کہ ان کے خیال میں یہاں مجموعہ ترتیب دینے کی نسبت ہدف کا تعاقب کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔

ان کا خیال کافی حد تک درست تھا۔ پہلی اننگز میں بیٹنگ خاصی مشکل تھی۔ گیند ٹھیک سے بلے پہ نہیں آ رہا تھا۔ جنوبی افریقی وکٹوں کی نسبت یہاں باؤنس کم تھا اور پاکستانی بلے بازوں کے لئے اس سے ہم آہنگ ہونا کافی دشوار تھا۔

یہی وہ بہترین موقع تھا کہ شان ولیمز کی پوری ٹیم ایک جتھے کی طرح اپوزیشن پہ پل پڑتی۔ کسی بھی لحاظ سے کوئی کسر نہ چھوڑتی اور انڈر پریشر مڈل آرڈر کو پوری طرح آشکار کر دیتی۔ کوئی اضافی رن نہ دیا جاتا۔ کوئی کیچ، کوئی چانس ہاتھ سے جانے نہ دیا جاتا۔

کیونکہ ایک ہی دن پہلے تو ولیمز کہہ رہے تھے کہ پریشر تو محض ایک غیر مرئی چیز ہے۔ اس پہ قابو پانا ہی اصل کام ہے۔ اگر وہ پریشر پہ قابو پانا سیکھ جاتے تو یہ ان کے لئے سیریز کا خوابناک آغاز ہو سکتا تھا۔

کرکٹ میں تو یہ محاورہ سدا سے مستعمل رہا ہے کہ catches win matches

یعنی کیچز ہی میچ جتواتے ہیں۔ مگر زمبابوین ٹیم نے اہم ترین مواقع پہ اہم ترین کیچز ڈراپ کر دیے۔ اس سے سوا یہ کہ بیس اوورز کی اننگز میں پندرہ ایکسٹرا رنز دے دیے۔ پاکستان جیسی ڈگمگاتی ٹیم کے لئے یہ اضافی رنز کسی تحفے سے کم نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’مدِمقابل کوئی بھی ہو، پاکستانیوں نے آسانی سے نہیں جیتنا‘

سمیع چوہدری کا کالم: اب نمبر ون رینکنگ والے دن دور نہیں

سمیع چوہدری کا کالم: اگر ذرا سا بھی ڈرامہ نہ ہو تو جیت کا کیا مزا؟

سمیع چوہدری کا کالم: یا پھر قصور ٹاس کا ہی نکلے گا؟

پاکستانی مڈل آرڈر حسبِ معمول ایک بار پھر بری طرح آشکار ہوا۔ زمبابوین بولنگ میں خوبی یہ رہی کہ ولیمز نے کسی بھی بولر سے لمبا سپیل نہیں کروایا بلکہ پے در پے اینڈ تبدیل کرتے رہے اور پاکستانی بلے بازوں کے لئے وکٹ کی رفتار سے ہم آہنگ ہونا مشکل رہا۔

کرکٹ

پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز محمد رضوان نے بنائے۔ انھوں نے 82 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔

محمد رضوان کی اننگز نے بہر حال میچ کو زندہ رکھا اور آخری اوور میں انہوں نے پاکستانی مجموعے کو ایک قابلِ قدر سطح تک پہنچایا ورنہ تو دوسری اننگز میں پورے اوورز پھینکے جانے کا بھی امکان نہیں تھا۔

زمبابوے کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ وہ اپنے تجربہ کار، مستند اوپننگ بلے باز برینڈن ٹیلر کی خدمات سے محروم تھے۔ ان کی موجودگی میں اس بیٹنگ لائن کے اعتماد کا عالم کچھ اور ہوتا۔ مگر ان کی غیر موجودی کے سبب مڈل آرڈر کافی دباؤ میں نظر آیا۔

ٹاپ آرڈر میں ایک بڑی پارٹنرشپ لگنے کے بعد دوبارہ کوئی بھی پارٹنرشپ لگانا مشکل تھا۔ کیونکہ قدرے پرانے گیند کے سامنے اس وکٹ پہ ایڈجسٹ ہونا آسان نہیں تھا۔ اور زمبابوین ٹیم اپنے روٹین کے بیٹنگ آرڈر کے بغیر یہ ہدف حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔

زمبابوین بلے بازوں نے بہرطور ہمت تو خوب دکھائی اور ایک مقام پہ اپنا رن ریٹ بھی اس سطح پہ لے آئے کہ پاکستان کے لئے میچ میں واپسی لگ بھگ ناممکن ہو چلی تھی۔ عثمان قادر کے پہلے اوور میں تو یہ خدشات اور بھی بڑھ گئے۔

لیکن اس کے بعد عثمان قادر نے اپنا کنٹرول واپس حاصل کیا اور کریگ ایرون کی وکٹ وہ اہم ترین مرحلہ تھا کہ جہاں سے پاکستان کی میچ میں واپسی ممکن ہوئی۔ اور ابھی زمبابوے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ عثمان قادر نے کپتان ولیمز کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔

زمبابوے کے لئے یہ کافی سارے اگر مگر کا قضیہ تھا۔ جیت ان کے بالکل قریب آ کر بھی غچہ دے گئی۔ اگر ایروِن یا ولیمز میں سے کوئی ایک بھی بلے باز ڈیتھ اوورز تک وکٹ پہ موجود رہتا تو ایک تاریخی فتح یقینی طور پہ ان کا مقدر ٹھہرتی۔ مگر عثمان قادر ان کی سبھی توقعات پہ بھاری پڑ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp