روس کو دھمکانے والے گیڈر ہیں: صدر پوتن


صدر پوتن نے روس کے دونوں ایوانوں سے اپنے سالانہ خطاب میں دو ٹوک انداز میں روس مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کو انتباہ کیا ہے کہ کسی بھی ملک کو ریڈ لائن عبور نہیں کرنے دیں گے۔ صدر پوتن کا خطاب موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں نہایت اہمیت کا حامل رہا کیونکہ امریکہ سمیت بعض یورپی ممالک کی جانب سے روس کو سیاسی و سفارتی سطح پر دبانے کی کوشش بھرپور انداز سے کی جا رہی ہیں۔ صدر کے سالانہ خطا ب میں بیلا روس، یوکرائن اور امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسے ممالک کو گیڈر سے تشبہ دی جو روس کو دھمکا رہے ہیں، روسی صدر کے خطاب سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے جارحانہ پالیسیوں سے قطعی پریشان اور دبے ہوئے نہیں معلوم ہوتے بلکہ روس کے خلاف غیر دوستانہ اقدامات و عدم استحکام کو جاری رکھنے والے اقدامات کا بھرپور جواب کی صلاحیت کا اظہار کرتے نظر آئے، آنے والے دنوں میں ولادیمیر پوتن یورپ کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اپنی پالیسی میں بھی سخت گیر رویہ اپنانے کا عندیہ دے چکے ہیں، روسی صدر کے مطابق یہ روس مخالف ممالک کی عادت ہے لہذا روس بھی ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لائے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے روس کے خلاف صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت پر کشیدگی میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کے الزام میں 32 افراد اور اداروں پر پابندیاں لگائیں، ان میں چھ پاکستان کے شہری اور پانچ کمپنیاں شامل ہیں جب کہ روس کے کئی شہری اور کمپنیاں بھی پابندیوں کی زد میں آئے۔ وائٹ ہاؤس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جن 32 کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے (مبینہ طور پر) روس کی حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے صدارتی انتخابات کے بارے میں غلط معلومات پھیلائیں اور انتخابات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے۔

گو کہ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے صرف الزامات سامنے آئے ہیں، ایسے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے، جس سے امریکی موقف کی تائید ہوتی ہو، ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے روس کے خلاف نئے محاذ کھولنے کی بنیادی وجہ جو بیان کی گئی ہے، وہ ایک امریکی رپورٹ ہے، امریکی انٹیلی جنس اداروں کی نئی رپورٹس کے مطابق، ”چین اور روس کے درمیان طاقت کے حصول کی جنگ اور سائبر سپیس میں لاحق خطرات میں اضافہ اب امریکہ کے لئے دہشت گردی سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

جبکہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کے دوران بھی، حریف ممالک خصوصاً چین کی جانب سے امریکہ کے خلاف سرگرمیاں جاری رہیں“ ۔ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹرز آفس نے امریکہ کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ستائیس صفحات پر مشتمل مشترکہ رپورٹ جاری کی، جس میں آئندہ سال امریکہ کو درپیش سنگین ترین خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔

ایک نئی سرد جنگ کا آغاز پر جو بائیڈن انتظامیہ نے ماضی کی روش برقرار رکھتے ہوئے روس پر پابندیاں عائد کرنا شروع کردی اور دس سفارت کاروں کو بھی بیدخل کر دیا گیا۔ روس، امریکی رویئے کا بغور مطالعہ کر رہا تھا، اس نے بھانپ لیا تھا کہ امریکی صدر، روس کے خلاف کارروائیوں کا تسلسل جاری رکھیں گے، چونکہ ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آ سکے، جس میں امریکی صدر کے اقدامات کو تائید ملتی ہو، واضح رہے کہ اس سے قبل سابق صدر ٹرمپ پر بھی انہی الزامات کے تحت کارروائی کی کوشش کی گئی تھی، جو ناکام رہی۔

جو بائیڈن کا روس کے ساتھ سخت گیر رویہ کی دوم وجہ، دراصل عالمی مفادات پر ضرب لگنے کے باعث سامنے آ رہا ہے، امریکہ ماضی کی اس پوزیشن پر واپس جا چکا ہے، جب دنیا میں طاقت کے استعارے کے طور پر دو بلاک، طاقت کے توازن کو برقرار رکھتے تھے، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کو موقع ملا اور واحد سپر پاور کے حیثیت سے عالمی بنیادوں پر من مانے فیصلے مسلط کرنا شروع کردیے، اس وقت ضرورت اس امر کی سمجھی گئی کہ عالمی طاقت کے توازن کے لئے امریکہ مخالف بلاک کا بننا ا ناگزیر ہے تاکہ امریکہ کو ایسے فیصلوں سے روکا جاسکے جومختلف خطوں میں طاقت کے توازن کو بگاڑتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے دیگر عالمی طاقتوں کی روک تھام میں مدد ملے گی، جن کے مخصوص بلاک کے ساتھ وابستہ مفادات سے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو پریشانیاں ہیں۔

سفیروں کی بے دخلی کا عمل کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے پہل کرتے ہوئے روسی سفارت کاروں کو بے دخل کیا تو روس نے بھی آٹھ امریکی عہدیداروں کی ملک میں مستقل داخلے پرپابندی عائد کی جب کہ پولینڈ کے پانچ سفارتکار ملک بدرکردیے، نیزروسی وزارت خارجہ نے ماسکو میں چیک سفارتخانے کے بیس ملازمین کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے یوکرائن اور روس کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کا اصل مقصد یورپی ممالک کو روس سے دور کرنا ہے۔

نارڈ اسٹریم اور ترکش اسٹریم پائپ لائنز پراجیکٹس افتتاح ہونے کے بعد روس اور یورپی ممالک میں تعلقات بہتری کی جانب گامزن تھے لیکن امریکہ نہیں چاہتا یہ پراجیکٹس پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ فرانس کے صدر میکراں نے روسی صدر سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے جب کہ امریکہ ایک جانب کشیدگی و پابندیوں کو بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب روسی صدر کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے، دونوں ممالک کے صدور کی میزبانی آسٹریا کرے گا۔

روسی صدر کا ایوان بالا میں امریکہ و یورپی ممالک کو سخت انتباہ دینا، ان خدشات کو بڑھا رہا ہے کہ اگر حالیہ کشیدگی کو بہتر انداز میں کنٹرول نہیں کیا گیا تو یوکرائن کی سرحد سے شروع ہونی والی جنگ پھیل سکتی ہے۔ روس کے خلاف ایسے معاملات و الزاما ت بھی سامنے لائے جا رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر ایسی فضا بنانا چاہتا ہے، جو روس کو دبانے میں کارگر ثابت ہو سکے۔ روسی صدر نے آئین میں ترمیم کے بعد اپنی سیاسی پوزیشن بھی مضبوط کرلی ہے، نئے قانون کے مطابق پیوٹن 2024 میں موجودہ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد 6 سال پر مدت کی صدارت کے لیے دو مزید دو مرتبہ اہل ہوں گے۔

خیال رہے کہ روس میں گزشتہ برس آئین میں تبدیلیاں کی گئی تھیں اور اس حوالے ریفرنڈم کیا گیا تھا اور اب اس قانون پر صدر پیوٹن نے باقاعدہ دستخط کر لیے ہیں۔ روس میں گزشتہ برس منعقدہ عوامی ریفرنڈم میں 68 سالہ پیوٹن کو 83 برس کی عمر تک حکمران رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ پیوٹن اس وقت اپنی صدارت کی مسلسل دوسری مدت مکمل کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر چوتھی مدت ہے۔ روسی عوام کی اکثریت صدر پوتن کو روس کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں، گو کہ اپوزیشن کی جانب سے اسی آئینی تبدیلی کو آئینی قبضہ قرار دیا جاتا ہے تاہم زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے کہ صدر پوتن نے روس کی شناخت اور عالمی طور پر عالمی قوت کی حیثیت سے دوبارہ جگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، عالمی رہنماؤں میں صدر پوتن ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں، یورپ و امریکہ کے لئے صدر پوتن کی پالیسیوں کے خلاف یکسو ہونا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ روس سے اگر خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کی وجہ پوتن ہیں۔ روس کے چین و ترکی کے ساتھ نئے بلاک و دفاعی معاہدوں سے دنیا ایک مرتبہ پھر دو بڑے عالمی طاقتوں کے بلاک میں منقسم ہو گئی ہے، جس سے دنیا میں طاقت کے توازن کو قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments