پی ڈی ایم کے ضلع مالاکنڈ کی سیاست پر ممکنہ اثرات


سولہ ستمبر 2020ء کو پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی اور چوبیس نکات پر مشتمل اعلامیہ جاری کیا جس میں موجودہ حکومت کا مستعفی ہونا، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا اور اسٹبلشمنٹ اور استخباراتی اداروں کی سیاست میں مداخلت کے خاتمہ کے مطالبات شامل تھے۔

پہلے ہی دن سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون پی ڈی ایم کو بارگیننگ چپ کے طور استعمال کرتی رہی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، ان دونوں جماعتوں کی پردے کے پیچھے کی سرگرمیاں آشکار ہوتی گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک گروپ اسٹبلشمنٹ کے خلاف سخت لہجہ استعمال کرتا رہا تاکہ اپنے خلاف نیب کے مقدمات کو بند کر کے نئے انتخابات میں اپنے لیے راستہ ہموار کر سکے اور دوسرا گروپ مذاکرات کرتا رہا۔ زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت ہاتھ سے نہ جائے۔مرکز میں بھی کچھ ملے اور ساتھ ہی نیب کے مقدمات بھی آگے نہ بڑھیں۔

مولانا صاحب کی حکومت کے خلاف پہلے دن سے سخت موقف اختیار کرنے کی صورت میں مقتدر حلقوں کو ایک پوشیدہ پیغام دیا جاتا رہا کہ ہمارے جیسے تجربہ کار لوگوں کے ہوتے ہوئے ایک عام آدمی کو حکومت کی باگ ڈور کیوں حوالے کر دی گئی۔ مولانا نے پی ٹی ایم پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اپنے معاملات ان حلقوں کے ساتھ مزید درست کرنے کی کوشش کی تاکہ کچھ ہاتھ آ سکے۔ پی ڈی ایم کی ان تین بڑی سیاسی جماعتوں کے لائحہ عمل میں تضاد کی گرہیں چیئرمین سینیٹ اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے بعد کھل گئیں اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ پھوٹ گئی۔

پی ڈی ایم کی یہ تقسیم ضلع مالاکنڈ کے سیاسی منظرنامے اور آئندہ کے الیکشن کو ضرور متاثر کرے گی۔ مالاکنڈ میں پی پی، تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) ، مسلم لیگ نون، اے این پی اور جماعت اسلامی موجود ہیں اور وقتاً فوقتاً مالاکنڈ کے انتخابات میں انفرادی یا اتحاد کی شکل میں ہار جیت کے فیصلے میں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

تحریک انصاف مالاکنڈ میں دو دفعہ مسلسل انتخابات جیتنے کے بعد ناقابل تسخیر سیاسی قوت سمجھی جاتی تھی لیکن وہ موجودہ مہنگائی، معاشی امور میں آئی ایم ایف کی تجاویز اور پابندیوں کو بلا چوں و چرا ماننے اور اپنے انتخابی وعدوں سے انحراف کی وجہ سے اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ تاہم اپنی بعض سوشل سیکیورٹی کی سکیموں (صحت سہولت کارڈ وغیرہ) اور بے شمار پر عزم نوجوان جو عمران خان کے مخلص پیروکار ہیں، کے بل بوتے پر مالاکنڈ میں جداگانہ حیثیت سے انتخاب لڑنے کی صلاحیت اب بھی رکھتی ہے۔

شکیل خان کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی مالاکنڈ کو بیل آؤٹ مل گیا ہے اور تحریک انصاف کو مالاکنڈ میں ڈیلیور کرنے اور اپنی ساکھ بحال کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ مالاکنڈ کی سیاسی جماعتوں کے میڈیا میں پی ٹی آئی کے متعلق اشتعال انگیز اور سخت بیانات واضح اشارے دے رہے ہیں کہ اس کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوئی پارٹی تیار نہیں ہے۔

جب سے مالاکنڈ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا آغاز ہوا ہے، پی پی مالاکنڈ میں سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھری ہے اور اب تک علاقے میں سب سے زیادہ انتخابات اس پارٹی نے جیتے ہیں لیکن اندرونی اختلافات اور پارٹی کی اپنی مزاحمتی پالیسی سے ہٹ کر مصالحانہ طرز عمل اختیار کرنے سے پارٹی کی پوزیشن تھوڑی سی کمزور ہو گئی ہے۔ اگرچہ زرداری صاحب کی مصالحتی پالیسی کی روش حقیقت پسندانہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیالوں کی سیاسی نشوونما کوڑوں اور جیلوں میں ہوئی ہے، اس لئے وہ نظریاتی طور پر اس پالیسی پر ندامت محسوس کرتے ہیں۔

ماضی میں جب پی پی کی پوزیشن خاصی مستحکم ہوتی تھی تو وہ جے یو آئی، عوامی پارٹی (گوجر برادری) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی سے غیر مشروط اتحاد کر کے مالاکنڈ کا انتخابی معرکہ سر کرتی تھی۔ موجودہ ناموافق حالات میں تو بہت ضروری ہو گیا ہے کہ پی پی دوسری چھوٹے گروپس یا ایک پارٹی سے اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کرے لیکن پی ڈی ایم کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پی پی پی کا پی ڈی ایم کی دوسری پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ اے این پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں مشکلات پیش آئیں گی جس کی تفصیل آئندہ سطور میں آ جائے گی۔

پی پی پی کے لیے سب سے آخری اور بہترین آپشن جداگانہ حیثیت میں انتخابی دنگل میں کودنا ہے۔ اس میں کامیابی اس صورت میں ممکن ہے، اگر وہ اندرونی اختلافات کو جڑ سے اکھاڑ دے اور 1997ء، 2002ء، 2005ء، 2004ء اور 2018ء کی غلطیاں نہ دہرائے۔

گزشتہ چند سالوں سے جے یو آئی نے مالاکنڈ کی سیاسی سرگرمیوں اورعوامی مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے اپنی سیاسی پوزیشن کافی بہتر بنائی ہے اور اب مالاکنڈ کی سیاست میں اس کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ جمعیت ہمیشہ سے مالاکنڈ میں پی پی کی غیر مشروط اتحادی رہی ہے لیکن پی ڈی ایم کی موجودہ صورت حال، جنوری کے جلسے میں پی پی اور جمعیت کے رہنماؤں میں ناخوش گوار واقعے کا پیش آنا اور اس کے ساتھ جمعیت کی بہتر سیاسی پوزیشن کی وجہ سے پی پی کے ساتھ اس کا پہلے کی طرح اتحاد مشکل نظر آ رہا ہے۔ اگر ہو بھی گیا بھی تو غیرمشروط نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ وہ جمعیت اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی میں ہر ایک ساتھ انفرادی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے معرکۂ مالاکنڈ میں اچھے نتائج دے سکتی ہے۔

مالاکنڈ میں اے این پی کافی کچھ حاصل کر چکی ہے۔ اس کے ضلعی صدر کے ہر عوامی مسئلہ پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے سے پارٹی کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ اے این پی نے جداگانہ حیثیت میں کبھی الیکشن نہیں جیتا ہے۔ صرف 1997ء میں مسلم لیگ کے ساتھ مالاکنڈ کی دو صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت چکی تھی۔ پی ڈی ایم کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھ کر مالاکنڈ میں پی پی کا اے این پی کے ساتھ اتحاد کا امکان زیادہ ہے لیکن جے یو آئی کی طرح اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مشکل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پی پی کے لیے مالاکنڈ کی دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی سیٹ میں سے کسی ایک سیٹ کو دوسری سیاسی پارٹی کو دینا مشکل لگتا ہے۔

ہو سکتا ہے پی پی پی قومی اسمبلی کی سیٹ اے این پی کو دے دے لیکن اگر زارداری صاحب کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کچھ بات بن گئی جس کے سیاسی افق پر واضح اشارے نظر آرہے ہیں تو پھر قومی اسمبلی کی سیٹ پی پی کے لیے اہم ہو گی اور مرکزی لیڈر شپ کے لیے این اے کی سیٹ کسی کو دینا سوٹ نہیں کرے گا۔ پی پی آئندہ سینیٹ الیکشن میں مالاکنڈ کی سیٹ اگر آفر کرے لیکن اے این پی والے یہ آفر وعدۂ حور سمجھ کر مسترد کریں گے۔ اے این پی کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ جمعیت اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہو سکتی ہے تا ہم جمعیت کے ساتھ زیادہ مفید رہے گی۔

ضلع مالاکنڈ میں جماعت اسلامی کا ایک خاص مستقل اور ناقابل تسخیر ووٹ بینک ہے۔ جماعت اسلامی ماضی میں کئی دفعہ یہاں کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں جیت چکی ہیں لیکن جماعت اسلامی کے بعض رہنماؤں کا غیر فعال ہونے سے اس کی جداگانہ حیثیت میں جیت مشکل ہو گئی ہے۔ وہ کسی پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ایک سیٹ اپنے حق میں کر سکتی ہے۔ ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کھلی ہے۔ تاہم پی پی پی کے ساتھ ان کی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں ہوگا کیونکہ جیالوں اور جماعت اسلامی کے بنیادی اراکین کے درمیان بہت گہرے نظریاتی اختلافات چلے آرہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا مثالی اتحاد مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کے ساتھ ہو سکتا ہے جو ہر حوالے سے اس کے لیے موزوں رہے گا۔

مسلم لیگ نون مالاکنڈ کی سیاست میں کافی سرگرم اور متحرک ہے۔ اس کی ضلعی قیادت کی ہر عوامی ایشو میں دل چسپی لینے سے پارٹی کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوئی ہے اور اس کے ووٹ بینک کو نظرانداز کرنا حماقت ہو گی۔ وہ جماعت اسلامی یا جمعیت اور یا اے این پی کے ساتھ مل کر مالاکنڈ کے انتخابی دنگل کا نقشہ تبدیل کر سکتی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں وہ جمعیت کے ساتھ اتحاد کر کے غیر متوقع نتائج دے سکتی ہے۔

اس کے علاوہ چھوٹے گروپس مثلاً اتمان خیل مالاکنڈ، وردگ مالاکنڈ، مست خیل مالاکنڈ، گوجر برادری اور کسب گر سیاسی منظر نامے میں کسی بھی پارٹی کی جیت کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments