انڈونیشیا میں افغان مہاجرین کی خودکشیاں: بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑنے والے جنھیں غم اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا

کاوون خموش - بی بی سی ورلڈ سروس


مجتبیٰ قلندری فون پر اپنے دوست علی جویا کی تصویر دیکھ رہے ہیں
مجتبیٰ قلندری فون پر اپنے دوست علی جویا کی تصویر دیکھ رہے ہیں
اپنے پیاروں سے جدا ہونے کے بعد علی جویا نے اپنے دوست مجتبی قلندری کو ہی اپنا خاندان سمجھا۔ ان دونوں افغان باشندوں نے انڈونیشیا میں آبادکاری کے انتظار میں کئی برس گزارے۔

مجتبی قلندری کہتے ہیں کہ علی ایک بہت روشن انسان تھا۔ ’ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ ایک دن بیرون ملک آباد ہو جائیں گے تاکہ وہ افغانستان میں موجود اپنی والدہ اور خاندان کو سپورٹ کر سکیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ وہ اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں اور بیوی بچے چاہتے ہیں۔‘

لیکن یہ انتظار علی کے لیے کافی طویل رہا اور گذشتہ برس انھوں نے اپنی جان لے لی۔ وہ 20 کے پیٹے میں تھے اور تقریباً آٹھ برس سے آبادکاری کا انتظار کر رہے تھے۔

ان کے دوست مجتبیٰ قلندری صدمے سے اپنے ہوش کھو بیٹھے ہیں۔

انڈونیشیا کے شہر تنگرانگ میں افغان پناہ گزینوں کے مقامی نمائندے محمد یاسین علیمی کے مطابق علی انڈونیشیا میں مقیم ان کم از کم 13 افغان باشندوں میں سے ایک تھے جنھوں نے گذشتہ تین برسوں کے دوران خودکشیاں کی ہیں۔

یہ 13 افراد گذشتہ چھ سے دس برس کے عرصے سے اس بات کے منتظر تھے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے انھیں بتایا جائے گا کہ انھیں کہیں اور آباد کیا جائے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں سے بیشتر کی عمریں 20 کے پیٹے میں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان سے بچ کر بھاگ نکلنے والے افغان پناہ گزین کی کہانی

’افغان مہاجرین کی جبری واپسی میں اقوام متحدہ ملوث ہے‘

’دنیا میں سات کروڑ سے زیادہ لوگ پناہ گزین ہیں‘

عالمی سطح پر یو این ایچ سی آر کے رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے 27 لاکھ افغان شہری ہیں۔ سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سکیورٹی، سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کیا ہے۔

دسمبر 2020 تک انڈونیشیا میں آٹھ ہزار کے قریب افغان مہاجرین اور سیاسی پناہ گزینوں نے یو این ایچ سی آر کے ساتھ اندراج کیا تھا لیکن اس ملک (انڈونیشیا) نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہوئے ہیں اور مستقل آباد کاری پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ان افراد کا انڈونیشیا آ کر کام کرنا غیر قانونی ہے اور اس وجہ سے وہ عام طور پر صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ بہت سے افراد کیمپوں میں قید ہیں۔ ان میں سے کچھ نے کسی اور ملک میں آبادکاری کے لیے دس برس بھی انتظار کیا۔

مجتبیٰ قلندری اور ان کا خاندان

مجتبیٰ قلندری اور ان کا خاندان

مجتبیٰ قلندری نے افغانستان میں جاری جنگ سے بچنے اور بہتر مستقبل کے لیے سنہ 2015 میں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ انڈونیشیا آئے تھے۔

ان کی اہلیہ گلسم نے انڈونشیا میں ایک اور بیٹے اور بیٹی کو جنم دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ انتظار دونوں میاں بیوی کے لیے شدید ڈپریشن کا باعث بن رہا ہے۔

’ہم نے سنہ 2015 میں یو این ایچ سی آر کے ساتھ خود کو رجسٹر کیا لیکن تب سے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ہمیں بھلا دیا گیا ہے۔‘

کوئی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خاندان کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ انھیں مہاجر سمجھا جاتا ہے یا تارکین وطن۔

محمد یاسین علیمی کہتے ہیں کہ انھوں نے خود کشی کے واقعات میں اضافہ دیکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اس کی بنیادی وجہ یو این ایچ ایس سی آر کے ذریعے آبادکاری کا لمبا عمل ہے۔ انتظار کی سب سے کم مدت چھ برس ہے۔‘

’اس کے علاوہ مالی مسائل، مستقبل کا خوف اور بے چینی وہ دیگر مسائل ہیں جو ان کے جان لینے کا باعث بنتے ہیں۔‘

عالمی معاملہ

دنیا کے کسی اور علاقے میں بھی موجود آبادکاری کے منتظر افراد کو ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق دنیا بھر میں ایسے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد 14 لاکھ ہے جو اپنی پناہ کے ملک کے بجائے کسی اور ملک میں مستقل آبادکاری چاہتے ہیں۔

اس کی وجہ ذاتی ضرورتیں، سکیورٹی اور بین الاقوامی معاہدوں کی کمی ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے وبائی مرض کے آغاز سے پہلے یعنی 2019 تک 26 ملین مہاجرین اور چار ملین ایسے افراد تھے جو تارکین وطن تھے۔

عبدل

عبدل نے دسمبر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا

مجتبیٰ حسینی ایک اور قریبی دوست سے بھی محروم ہوئے ہیں۔

36 برس کے عبدل گذشتہ چھ برس سے انڈونیشیا میں مقیم تھے اور اس دوران وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں سے دوبارہ ملنے کی امید رکھے ہوئے تھے جو ان کے ساتھ انڈونیشیا نہیں آ سکے تھے۔

مجتبیٰ کہتے ہیں کہ لیکن دسمبر میں وہ ہمت ہار گئے اور انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

اس سب کے مجتبیٰ پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ وہ انڈونیشا میں ایک دوسرے کے انتہائی قریبی دوست تھے۔

مجتبیٰ کہتے ہیں ’وہ زندگی سے بھرپور انسان تھے، جو ہر وقت مذاق کرتے رہتے اور جم جانا ان کا مشغلہ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ زندگی ہمیں کہیں بھی لے جائے ہم مستقبل میں دوبارہ ملیں گے لیکن وہ اس سفر کے درمیان مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔‘

مجتبیٰ ابھی بھی تینگرانگ شہر کے ایک تنگ کمرے میں رہتے ہیں جس میں صرف ایک کھڑکی ہے جو وہ عبدل کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ آبادکاری کا انتظار کرتے ہوئے ان کی زندگی کا ایک تہائی حصہ اس کمرے میں ’ضائع‘ ہو گیا ہے۔

انڈونیشیا میں یو این ایچ سی آر کی نمائندہ این میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ خودکشیاں دل توڑنے والی ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ’حکومت، مقامی افراد یا بین الاقوامی امداد کے ذریعے صرف کچھ کام ہی ہو سکتے ہیں۔‘

میمن نے کہا کہ یو این ایچ سی آر مہاجرین کے لیے دماغی صحت کی خدمات، جیسا کہ مشاورت، میں اضافہ کرے گا لیکن انھوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ یہ کیسے ہو گا یا کتنے لوگوں کی مدد کی جائے گی۔

میمن نے مشورہ دیا کہ مہاجرین جہاں رہ رہے ہیں انھیں وہاں ہی ضم ہو جانا چاہیے لیکن چونکہ انڈونیشیا اقوام متحدہ کے مہاجر کنونشن کا حصہ نہیں تو لہذا وہاں انضمام صرف غیر رسمی ہو سکتا ہے۔

انڈونیشیا میں زیادہ تر افغان باشندے کسی تیسرے ملک خصوصاً آسٹریلیا میں آباد ہونے کی امید کرتے ہیں لیکن میزبان ممالک نئی درخواستیں کم ہی قبول کر رہے ہیں کیونکہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کو خود میں شامل کرنے کے بارے میں عوامی رویہ سخت ہے۔

انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے لوگ ان کے ملک میں منتظر ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2016 میں 1271 پناہ گزین انڈونیشیا سے دوسرے ممالک جا کر آباد ہوئے لیکن یہ تعداد اگلے سال تقریباً نصف ہو گئی اور سنہ 2018 تک صرف 509 مہاجرین کو دوسرے ملکوں میں دوبارہ آباد کیا گیا۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے 42 برس کے ٹی وی صحافی موسی سزوار ان اعدادوشمار کی سرد حقیقت کو محسوس کرتے ہیں۔

اپنے آنسو روکتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنی بیوی کو جنوب مغربی افغانستان کے صوبہ غزنی میں چھوڑا تو وہ حاملہ تھیں۔

’میرا بیٹا اب آٹھ برس کا ہو گیا ہے لیکن میں ابھی تک اس سے نہیں ملا۔ میں نے اسے ابھی تک محسوس نہیں کیا۔ میں نے اسے گلے نہیں لگایا۔‘

موسی سزوار

موسیٰ سمارٹ فون پر ویڈیو کالز کے ذریعے ہی اپنے خاندان کو دیکھ سکتے ہیں

اپنے کام کے دوران مقامی باغی گروہوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد موسیٰ کے اہلخانہ نے اصرار کیا تھا کہ وہ افغانستان سے چلے جائیں۔

’میری بیوی نے کہا کہ وہ ہمارے بیٹوں کا خیال رکھے گی۔ یہ بہتر ہے کہ وہ بڑے ہوں اور جان لیں کہ ان کے والد بہت دور ہیں لیکن زندہ ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ مر جائیں اور ہمارے بچے یتیموں کی طرح بڑے ہوں۔‘

موسیٰ کے افغانستان چھوڑنے کے ایک برس بعد نیٹو نے افغانستان میں اپنے جنگی مشن کو ختم کیا، امریکہ نے اپنی فوج کی ایک قابل ذکر تعداد واپس بلا لی اور پورے ملک میں تشدد میں بے حد اضافہ ہوا۔ جس کے بعد لاکھوں مزید افغان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اور اب آٹھ ہزار کلومیٹر دور بیٹھے موسیٰ سمارٹ فون پر ویڈیو کالز کے ذریعے ہی اپنے خاندان کو دیکھ سکتے ہیں۔

’یہ بہت مشکل ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں باپ ہوں لیکن حل کیا ہے؟ یہ سب ان چیلنجز کی وجہ سے ہے: ہجرت اور ملک کی حالت جس نے ہمیں مہاجر بنا دیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اپنے خاندان کو بہتر مستقبل دینے کے لیے اپنا ملک چھوڑنے میں غم اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

’میرے زندگی کے بدترین سال وہ ہیں جو میں نے اپنے خاندان سے دور گزار دیے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp