کورونا وائرس: برازیل، جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں شناخت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

مشیل رابرٹس - ہیلتھ ایڈیٹر، بی بی سی نیوز آن لائن


coronavirus
انڈیا میں 2020 کے آخر میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی ایک نئی قسم اب برطانیہ میں بھی پائی گئی ہے۔

برطانیہ میں صحت عامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ جن جینیاتی تبدیلیوں سے وائرس کی یہ نئی قسم گزر چکی ہے اس کے بعد اس میں بڑے پیمانے پر پھیلنے کی صلاحیت بہتر ہو گئی ہے اور ممکن ہے کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف مکمل تحفظ فراہم نہ کرتی ہوں۔ تاہم اس بات کے حتمی فیصلے کے لیے مزید تحقیق درکار ہے۔

کووڈ 19 کی انڈین قسم کیا ہے؟

کووڈ 19 کی کئی اقسام اس وقت تک سامنے آ چکی ہیں۔ برطانیہ میں انڈین قسم کے طور پر جانے جانے والی قسم بی.1.617 کے 100 سے زیادہ کیسز اب تک سامنے آ چکے ہیں۔ یہ تعداد بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے مگر برطانیہ میں جینیاتی ٹیسٹ میں ڈالے گئے کووڈ نمونوں میں سے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ ان میں کچھ کیسز میں بظاہر سفر کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اس بات کی تفتیش کی جا رہی ہے کہ پھر بھی یہ کیسز کیسے سامنے آئے۔

وزیراعظم بورس جانسن نے رواں ماہ کے آخر میں ہونے والا اپنا انڈیا کا دورہ منسوخ کر دیا ہے اور انڈیا کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کورونا: ’جس طرف بھی دیکھیں لاشیں اور ایمبولینس نظر آتی ہیں‘

کورونا کے دور میں تبلیغی اجتماع غلط تو کمبھ کا میلہ ٹھیک کیوں؟

انڈیا کورونا کے پھیلاؤ کے وجوہات کو تسلیم کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟

تاہم ابھی اتنی معلومات موجود نہیں ہیں کہ انڈین قسم کو باعث پریشانی سمجھا جائے جیسا کہ برطانوی، برازیلی اور جنوبی افریقی اقسام کے حوالے سے سوچا جاتا ہے۔

نہ ہی ابھی تک یہ بات واضح ہے کہ یہی قسم انڈیا تیزی سے بڑھتے ہویے کیسز کا باعث ہے۔

برازیلی، برطانوی، اور جنوبی افریقی اقسام کیا ہیں؟

coronavirus

کووڈ 19 کی یہ اقسام زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور کسی حد تک قوتِ مدافعت سے بھی بچ جاتی ہیں۔

برطانوی قسم (بی.1.1.7) اب 50 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور بظاہر اب بھی یہ اپنی ہیت تبدیل کر رہی ہے۔

جنوبی افریقی قسم (بی.1.351) برطانیہ سمیت کم از کم 20 اور ممالک میں پائی گئی ہے۔

برازیلی قسم برطانیہ میں بھی پائی جا چکی ہے۔

نئی اقسام کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمام وائرس خود کو تبدیل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر کیسز میں یہ تبدیلیاں غیر اہم ہوتی ہیں۔ مگر کچھ تبدیلیاں ان کے پھیلاؤ کی صلاحیت بڑھا کر انھیں زیادہ خطرناک بنا سکتی ہیں۔

کیا نئی اقسام زیادہ مہلک ہیں؟

اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ان اقسام سے ہونے والی بیماری زیادہ شدید یا زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ ابتدائی ورژن کی طرح یہ بڑی عمر کے لوگوں اور پہلے سے بیمار لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

برطانوی قسم کے بارے میں کچھ غیر حتمی اور غیر نتیجہ خیز تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ دیگر کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ مہلک ہے۔

وائرس نئی قسم میں تبدیل کیسے ہوتے ہیں؟

برطانیہ، برازیل اور انڈین اقسام تینوں میں ان کی سپائک پروٹین میں تبدیلی ہوئی ہے۔ سپائک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جو انسانی خلیوں سے جڑتا ہے۔

ان میں سے ایک تبدیلی جسے این 501 وائی کہتے ہیں، وہ بظاہر وائرس کو خلیوں کو انفیکٹ کرنے کی بہتر صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ برطانوی قسم 70 فیصد زیادہ پھیل سکتا ہے تاہم حکومت محققین نے اسے 30 سے 50 فیصد زیادہ پھیلنے والا قرار دیا ہے۔

جنوبی افریقہ اور برازیلی اقسام میں بھی مختلف تبدیلیوں کا امکان ہے۔

ان میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس کا نام ای 484 ہے اور اس کی مدد سے وہ قوت مدافعت سے لڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق برطانوی قسم میں بھی یہ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ انڈین قسم کے وائرس میں بھی متعدد اقسام کی تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں جو کہ اس کے انسانی قوتِ مدافعت کو مات دینے میں مدد دے سکتی ہیں۔

کیا ان اقسام کے خلاف ویکسینز کام کریں گی؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ ویکسینز ان نئی اقسام کے خلاف کام تو کریں گی مگر شاید اتنی موثر نہ ہوں۔

ایک حالیہ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ برازیلی قسم لوگوں میں موجود اینٹی باڈیز کے خلاف کامیابی حاصل کر سکا ہے اور ان لوگوں کو بھی متاثر کر رہا ہے جن کو پہلے کووڈ ہو چکا ہے۔

تاہم ابتدائی نتائج کے مطابق فائزر کی ویکسین ان نئی اقسام کے خلاف بھی مؤثر ہے۔ یہی نتائج ایسٹرا زینکا کے حوالے سے بھی سامنے آئے ہیں۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بدترین حالات میں بھی موجودہ ویکسینوں کو تبدیل کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp