شادی کو آسان بنائیں


اللہ رب العزت نے انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات اور اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے اس کو عقل و دانش، دل و دماغ اور بے پناہ صلاحیتوں اور گوناگوں کمالات سے نوازا ہے۔ زمین پر اس کی بقاء کا انتظام اور بلندی و امتیاز کا دھیان رکھا۔ جہاں اس کی بہت ساری ضرورتوں کا خیال کیا وہیں قانون فطرت کے مطابق اس کے لیے جوڑا یعنی عورت بنائی۔ جو جنسی تسکین اور بہترین زندگی گزارنے کے لیے اس کی شریک حیات بنی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ایک ضابطے اور اصول سے ہوتے ہیں۔ اس اصول کا نام نکاح یا شادی ہے۔ اسی ضابطے سے ایک اجنبی عورت اور ایک اجنبی مرد ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی، شریک حیات اور رفیق بن جاتے ہیں۔ اس بندھن میں بندھنے کے بعد ان دونوں میں انس اور والہانہ محبت ہوتی ہے۔

شادی انسان کی فطری ضرورت ہے۔ یہ انسان کو تنہائی کی تلخیوں سے بچاتی ہے۔ تنہائی اور اکیلے پن سے جو ذہنی اور جسمانی بیماریاں لگ جاتی ہیں ان کا واحد علاج شادی ہے۔ یہ انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے اور ناجائز تعلقات کی دلدل میں گرنے سے اس کی حفاظت کرتی ہے۔ بے حیائی سے بچنے کے لیے شادی ضروری ہے۔ خدا عزوجل کا ارشاد ہے کہ

ترجمہ:۔
” تمہاری عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو“

نکاح سرکار دو عالم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ اس سے دین کی حفاظت ہوتی ہے۔ فرمان نبیﷺ ہے کہ جس نے نکاح کیا اس نے آدھے دین کو حفاظت میں لے لیا۔ شادی کے بعد انسان بدکاری اور بدنگاہی سے آسانی سے بچ سکتا ہے۔ شادی کے بعد خاوند جب اپنی بیوی کی طرف دیکھتا ہے تو اللہ رب العزت دونوں پر اپنی رحمتیں برساتا ہے۔ شادی شدہ کی ایک رکعت نماز غیر شادی شدہ کی ستر رکعتوں سے افضل ہے یعنی شادی شدہ مسلمان کو غیر شادی شدہ مسلمان پر فضلیت دی گئی ہے۔

غرض شادی نیکی کا عمل ہے جس سے قلبی، ذہنی، طبعی اور جنسی سکون میسر آتا ہے۔ اس سے انسان کا شمار پرہیزگاروں میں ہوتا ہے اور شادی ہی وہ عمل ہے جو افزائش نسل کو بڑھاتی ہے۔ رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ نکاح کرو، نسل بڑھاؤ کہ تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر میں فخر کروں گا۔ غرص نکاح سے انسان پاکباز، باعزت اور اپنے ایمان کو محفوظ کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس میں بے شمار رحمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ اس سے اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے، پاکیزہ اور خوشگوار خاندان کا وجود ہوتا ہے، اس سے ایک منزہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے وا ہوتے ہیں۔

یہ عمل سہل اور آسان ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے معاشرے میں شادی سے مشکل تر عمل کوئی نہیں۔ یہ عمل ظاہر داری کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ فریقین نے اس کو اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے کہ اب آسان یہی لگتا ہے کہ غیر شادی شدہ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ ہم نے ان چیزوں کو بالائے طاق رکھ دیا جو شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی میں دیکھنی چاہیے بلکہ ہم دوسری اور غیر ضروری چیزوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔

لڑکی کے والدین شادی سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکا سرکاری ملازم ہے، اچھا گھر ہے، جائیداد اور گاڑی وغیرہ ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ لڑکا دین دار ہے، حسن اخلاق والا ہے، بدمزاج، منہ پھٹ، ناشکرا، گستاخ، بے ادب، شرابی، جواری تو نہیں۔ گویا ہمارے معاشرے میں پہلی اہمیت دھن دولت، زمین جائیداد اور عمدہ و عالی شان گھر کو دی جاتی ہے۔ جو سرکاری ملازم نہیں، کاروبار کرتا ہے، اتنا ہی کماتا ہے جس سے گھر کا چولہا جلے، مزدوری کرتا ہے، گاڑی کا مالک نہیں، اچھا گھر نہیں رکھتا اس کی شادی ناممکنات میں ہے۔ حالانکہ مسلم معاشرے میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دینا چاہیے تھی۔ اللہ رب العزت نے ہر فرد کے رزق کا انتظام کر رکھا ہے اس پر ہمارا ایمان اور یقین ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تنگ دست ہے شادی تو اس کی تنگ دستی دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے تو شادی کر دینے سے اس کی بے روزگاری دور ہو جاتی ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ

ترجمہ:

” اور تم اپنے غیر شادی شدہ لوگوں کی شادی کر دیا کرو اور اپنے نیک غلام اور لونڈیوں کی بھی شادی کر دیا کرو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں (تو فکر نہ کرو) اللہ تعالی انھیں اپنے فضل و کرم سے غنی فرما دے گا“

لڑکی میں جو چیز دیکھی جاتی ہے وہ اس کی شکل و صورت، ظاہری خوبصورتی اور نمائش ہے۔ ہم بناوٹ کو دیکھتے ہیں نہ کہ دینداری، کردار، اخلاق و اخلاص کو۔ غرض شادی سے پہلے سو طرح کے امتحان دینے پڑتے ہیں۔ اس راستے میں مزید روڑے اٹکانے کے لیے ذات پات کو لایا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ یقین اور عقدہ ہونا چاہیے کہ اسلام میں ذات پات کا وجود نہیں ہے۔ ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ نے تو دنیا کو اسلام کے دائرے میں لاکر ذات پات کا خاتمہ کر دیا تھا۔

میرا یہ ہرگز مدعا نہیں کہ ہم روزگار اور زندگی کی چکی چلانے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں ان کو اہمیت نہ دے۔ کفو کا خیال رکھنا ہے لیکن ہم جس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ مناسب رشتہ ڈھونڈنا ضروری ہے ورنہ شادی شادمانی کا ذریعہ نہیں بلکہ عذاب کا باعث بنتی ہے لیکن جس پر ہمارا اختیار نہیں وہ خصوصیات اور خصائص ڈھونڈنا دانائی نہیں۔ نکاح نیبوں کی سنت مبارکہ ہے اس کو آسان کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ مشکل اور دشوار تر بنا کر اس کو ظاہر داری اور نمود و نمائش کی بھینٹ چڑھایا جانا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں شادی رسم و رواج کی جکڑ بندیوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ ہم نے اس کو نمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ سماج میں ناک اونچی اور عزت و دبدبہ تب ہی برقرار رہے گا جب داماد اونچے سے اونچے عہدے پر فائز ہو گا اور بہو بڑے گھر کی ہونے کے ساتھ ساتھ جہیز میں گاڑی اور طرح طرح کی آسائش و آرام کا سامان لائے۔ جو کام سادگی سے خوش اسلوبی سے انجام پا سکتا ہے اس کام کو مختلف مشکل رسموں کی بھینٹ چڑھانا عقل مندی نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین سرکاری ملازم، اعلیٰ سے اعلیٰ مکان، زمین جائیداد کو اہمیت دینے کے بجائے مناسب روزگار، اچھے اخلاق، بہترین کردار کو اہمیت دیں، عقل مندی اور دانائی اسی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments