رینو آگال: جن کی زندگی بھی اُن کی صحافت کی طرح بھرپور تھی

ایلیا حیدر - صحافی


رینو آگال، بی بی سی، بی بی سی اردو

سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ لندن میں 28 نومبر 1997 کی اُس شام سے جب بی بی سی اردو سروس کے اُس وقت کے ایڈیٹر عباس ناصر نے مجھے ایک گول مٹول موٹی عینک لگائے انتہائی خوش گفتار لڑکی سے ملوایا، یا پھر بُش ہاؤس کی کینٹین میں گھنٹوں ہونے والی بحث سے، جو شروع پاکستان، انڈیا تعلقات سے ہوتی مگر ‘غیر شادی شدہ خواتین کا بی بی سی میں کام کرنا کتنا مشکل ہے’ کے موضوع پر ختم ہوتی۔

آج رینو آگال کی موت کی خبر سُن کر مجھے نومبر 1997 کی وہ ٹھنڈی شام یاد آ گئی جب میری رینو سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

کچھ لوگوں سے مل کر آپ کو لگتا نہیں کہ یہ ملاقات پہلی بار ہو رہی ہے۔ رینو کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔

انتہائی ملنسار، خوش اخلاق اور محنتی۔ اپنے کام میں مگن لیکن ساتھ ساتھ ہر ساتھی کا خیال بھی۔ بی بی سی کی اُردو سروس اُس وقت اپنی ریڈیو نشریات کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی جاتی تھی۔

میں پہلی بار لندن آئی تھی اور بُش ہاؤس (اُس وقت بی بی سی کا دفتر) میں اُردو اور ہندی سروس کے تمام ساتھی ایک ساتھ جُڑے دو کمروں میں بیٹھتے تھے۔ نہ کوئی آن لائن تھی نہ کوئی ڈیجیٹل، بس دنیا بھر سے خبریں بھیجنے والے رپورٹرز کے مراسلے بناؤ، خبر تیار کرو اور ختم۔

شروع کے دنوں میں مائیک پر لائیو پروگرام کرنا انتہائی دُشوار لگتا ہے لیکن بی بی سی میں ٹریننگ کے دوران یہ سکھایا جاتا ہے کہ مائیک میں نہیں بولنا بلکہ مائیک سے بات کرنی ہے۔

یہ خوف دور کرنے میں رینو نے جتنا ساتھ دیا، کسی اور نے نہیں دیا۔

رینو آگال، بی بی سی، بی بی سی اردو

پاکستان میں جس طرح مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہے، اس کے باعث یہ لگتا ہے کہ سارے ہندوستانی شیو سینا کے پیروکار ہیں، لیکن رینو کی محبت اور خلوص نے اِن خیالات کی نفی کر دی۔ جس طرح اس کی اور میری دوستی پروان چڑھی، لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم دونوں الگ ماحول، ملک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

رنگ و نسل اور مذہب کی قید سے آزاد صرف انسانیت کے زور پر زندگی گزارنے والی رینو نے صحافتی میدان میں یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی) کے ذریعے قدم رکھا تھا۔ کام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ دن کی شفٹ ختم کرنے کے بعد کئی مرتبہ رات کی ڈیوٹی بھی مکمل کرنے کے بعد گھر جاتی۔

بی بی سی میں رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ رینو ایک انتہائی سُگھڑ خاتون بھی تھی۔ گھر کے کام میں طاق۔ گو کہ رینو نے کبھی زندگی میں گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا، لیکن اُس کے ہاتھ کی پکی ہوئی سبزیاں، مٹر پنیر اور میتھی کے پراٹھے پورے بُش ہاؤس میں مشہور تھے۔

کتابوں سے انتہائی محبت کرنے والی رینو نے مجھے لندن میں کئی ایسے مقامات دکھائے جہاں پرانی کتابیں مفت میں ملتی تھیں۔ میرے پوچھنے پر اس کا جواب تھا کہ یار نئی کتاب پر پانچ پاؤنڈز خرچ کرنے کے بجائے مفت کتاب لے کر پڑھو اور پانچ پاؤنڈز کہیں عطیہ کر دو۔

اس کے دو ہی شوق تھے۔ کتابیں، اور گھومنا پھرنا۔ کوئی ایسا ویک اینڈ نہیں تھا جب وہ کہیں کا منصوبہ نہیں بناتی تھی۔ میں نے یورپ کا پہلا سفر بھی اس کے ساتھ ہی ٹرین میں کیا تھا۔ خوف تھا کہ رات کو ٹرین میں کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ رینو کا جواب تھا کہ یہ پاکستان یا انڈیا تھوڑی ہے کہ اکیلی عورتوں کو دیکھ کر کوئی چھیڑے گا۔

رینو آگال، بی بی سی، بی بی سی اردو

رینو ایک انتہائی سمجھدار، زمانہ شناس اور ترقی پسند خاتون تھی۔ اُس زمانے میں ہیومن رائٹس اور فیمینیزم پر زیادہ زور نہیں تھا۔ یہ سب تحریکیں چل رہی تھیں لیکن اتنے زور و شور سے نہیں جیسے آج کل۔

اس کے باوجود لندن میں اپنے قیام کے دوران متعدد بار میں اس کے ساتھ ایسے احتجاجی جلوسوں میں شریک ہوئی جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا جانوروں کے ساتھ بُرے سلوک پر احتجاج ہو رہا ہوتا تھا۔

کارگل کی جنگ ہو یا سپین کی ٹرین میں بم دھماکہ۔ مشرف کا اقتدار میں آنا ہو یا 1998 کے جوہری دھماکے، ہر ایک بڑی خبر کے دوران انٹرویو کی تگ و دو کرنا، پاکستان کا نکتہ نظر بیان کرنا اور غیر جانبداری سے پیش کرنا رینو کا خاصہ تھا۔

’نئی پیڑھی‘ کے نام سے نوجوانوں کا ایک بہت مقبول شو تھا جو اُس نے کیا۔ انتہائی مہمان نواز اور انسان دوست رینو نے بی بی سی کو چھوڑ کر نئی دنیا میں قدم رکھا۔ اُس نے رپورٹنگ کو خیرباد کہہ کر کتابوں کی ایڈیٹنگ کا کام سنبھالا اور کئی برسوں تک مشہور اشاعتی ادارے پینگوئن انڈیا کی ایڈیٹر رہیں۔

اپنے حادثے سے پہلے وہ نامور صحافی شیکھر گپتا کے ساتھ ’دی پرنٹ‘ کے لیے کام کر رہی تھیں۔ اُن کی غیر متوقع وفات پر شیکھر گپتا کا کہنا تھا کہ وہ ایک انتہائی محنتی اور کام سے محبت کرنے والی ساتھی سے محروم ہوگئے ہیں۔

اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اس ناگہانی موت پر رینو کے والدین کی کیا حالت ہو گی۔ اس کی ایک بہن جو کہ انڈیا میں ہے وہ کتنی افسردہ ہو گی کیونکہ جوان اولاد کا اس طرح چلے جانا بہت بڑا دکھ ہے۔

رینو آگال، بی بی سی، بی بی سی اردو
رینو آگال، بائیں سے دوسرے نمبر پر

مجھے ہمیشہ یاد رہے گا جب میں، نصرت جہاں، رومیلا داس گپتا، پریا اور بھارتی ٹومسو ایک ٹولے کی صورت میں بیٹھتے اور رینو کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ شادی کر لے تو اس کا جواب ہوتا کہ شادی کر کے کیا ہو گا، مزید ذمہ داری؟ اور مر جاؤ تو اپنی ذمہ داری دوسروں کو سونپ جاؤ، اس سے بہتر ہے کہ کنوارے رہو تاکہ تمہاری ذمہ داری سے دوسرے بچیں۔

رینو واقعی اپنی ذمہ داری سے دوسروں کو بچا گئی مگر دکھ اور درد کا وہ باب کھول گئی جو زندگی بھر بند نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp