دہشت گردی کے خلاف وزیر اعظم کے کھوکھلے دعوے


وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل میں کار دھماکہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ملک دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ ہار نہیں سکتا۔ یہ اسی سربراہ حکومت کا بیان ہے جس نے اس ہفتہ کا آغاز ہی ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مفاہمت سے کیا تھا اور قوم کے نام اپنے خطاب میں تسلیم کیا تھا کہ ان کی حکومت اور تحریک لبیک کے مقاصد ایک ہیں۔ لیکن بس طریقہ کار میں اختلاف ہے۔

ناجائز مطالبہ کی بنیاد پر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے کی شہرت رکھنے والے ایک چھوٹے سے گروہ کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بعد عمران خان نہ جانے کس منہ سے دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان کے علاوہ جس گروہ نے تحریک لبیک کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا تھا، وہ تحریک طالبان پاکستان تھی۔ اسی گروہ نے کل کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل میں دھماکہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خود کش حملہ آور نے سیرینا ہوٹل کی کار پارکنگ میں اپنی کار سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس حملہ میں پانچ افراد جاں بحق اور درجن بھر زخمی ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ حملہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے چین کے سفیر اور وفد کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے چینی عہدیدار دھماکہ کے وقت ہوٹل میں نہیں تھے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم رات گئے تک خود کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گر د دھماکہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی نگرانی کرتے رہے تھے۔ تاہم ان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کی پھرتی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے آج صبح ایک پریس کانفرنس میں اس حملہ کو طالبان پاکستان کے دعوے کے مطابق ’خود کش حملہ‘ قرار دیا۔ حالانکہ پولیس حکام ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کر سکے۔ پولیس ذرائع کا خیال ہے کہ دھماکہ خیز مواد ایک کار میں نصب کر کے اسے ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑا کر دیا گیا تھا۔ معاملہ کی تفصیلی تحقیقات کے بعد ہی کوئی بات واضح ہوسکے گی۔ شیخ رشید کو اپنے باخبر ہونے کا تاثر دینے کی اتنی جلدی تھی کہ دہشت گرد وں کے دعوے کودرست مانتے ہوئے دھماکے کو خود کش حملہ قرار دیا۔ انہیں بطور وزیر داخلہ اس بات سے بھی آگاہ ہونا چاہئے کہ دہشت گردگروہ کسی بھی سانحہ میں ملوث نہ ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جانی و مالی نقصان کے بارے میں بڑھا چڑھا کر دعوے کرتے ہیں۔ تاکہ توجہ حاصل کر سکیں۔ بدنصیبی ہے کہ ملک کی وزارت داخلہ پر فائز شخص بڑی آسانی سے تحریک طالبان پاکستان کے جال میں آگیا اور ان کے دعوے کو اپنی باخبری کے ثبوت کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا۔

وزیر داخلہ نے اس سانحہ کو فرنٹیئر کور (ایف سی) کو بدستو بلوچستان میں تعینات رکھنے کا بہانہ بھی بنا یا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’اس واقعے سے قبل دیگر شہروں کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹس تھیں لیکن کوئٹہ اب پرامن شہر تھا۔ اس لئے ہم ایف سی کو یہاں سے نکالنے کا سوچ رہے تھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے‘۔ اس جواب کی غیر ذمہ داری پر بھی سر ہی پیٹا جاسکتا ہے۔ ایک طرف بتایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کی انٹیلی جنس موجود تھی پھر اس سانحہ کو روکنے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ کوئٹہ تو پر امن تھا بلکہ ہم ایف سی کو وہاں سے نکالنے کا سوچ رہے تھے، جو اب نہیں ہو سکے گا۔ شیخ رشید نے ایک پتھر سے دو نشانے لگانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اپنے بودے پن کی وجہ سے وہ کسی مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔

 انہوں نے اعتراف کیا کہ دہشت گردی کی انٹیلی جنس کے باوجود حکومت کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل جیسے اہم مرکز کی حفاظت نہیں کر سکی۔ اسی طرح دہشت گردی کے ایک واقعہ کی بنیاد پر کوئی تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی بلوچستان میں ایف سی تعینات رکھنے کی مجبوری بھی ظاہر کر دی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی سول حکومت اپنے طور پر بلوچستان سے فوج ہٹانے اور وہاں مکمل طور سے سول اختیار بحال کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ تحریک انصاف کی حکومت تو ویسے بھی اکثر معاملات میں اپنے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ بلوچستان میں سول عملداری جیسا اہم اور بنیاد ی جمہوری فیصلہ اس نظم حکومت میں ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ وزیر داخلہ کوبلوچ عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کی بجائے، ایف سی کے تسلسل کا عذر پیش کرتے ہوئے زخموں پر نمک پاشی نہیں کرنی چاہئے تھی۔

پاکستان مسلسل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کم سہی لیکن دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ہوتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ سانحہ کے جو ٹوئٹ پیغام میں بھی دہشت گردی ختم کرنے کا دعویٰ دہرایا ہے۔ عمران خان نے لکھا ہے کہ ’ مجھے گزشتہ روز کوئٹہ میں ہونے والے قابل مذمت اور بزدلانہ دہشت گرد حملہ میں ہونے والے جانی نقصان پر شدید دکھ ہے۔ ہماری قوم نے دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ ہم دوبارہ اسے سر نہیں اٹھانے دیں گے۔ ہم تمام اندرونی اور بیرونی خطروں سے چوکنا ہیں‘۔ یہ بیان لیڈروں کی طرف سے مذمت کرنے کا سکہ بند طریقہ ہے جسے سنتے سنتے اہل پاکستان نے ہزاروں جنازے اٹھائے ہیں۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب ان عوامل پر غور کیا جائے گا جو اسے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ریاست اور حکومت جب تک مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہے گی اور جب تک امور مملکت و حکومت کو دینی عقائد سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ یعنی آئین کی تمہید کے طور پر شامل کی گئی مارچ 1949 کی قرار داد مقاصد سے یا تو جان نہیں چھڑائی جائے گی یا اس کی جدید تشریح کرتے ہوئے یہ واضح نہیں کیا جائے گا کہ ملک کے کسی فرد کو اس کے عقیدہ کی وجہ سے اعزاز یا احترام حاصل نہیں ہوگا۔بلکہ اس ملک میں آباد سب لوگ اللہ کی مخلوق ہیں اور انہیں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بانی پاکستان کے الفاظ میں ’عقیدہ ہر شخص کا نجی معاملہ ہے اور وہ اس کے مطابق مسجد، مندر یا گرجا گھر جانے میں آزاد ہے‘۔

 کیا یہ حیرت کا سبب نہیں کہ جس اسمبلی نے جس آئین کے پیش لفظ کے طور پر قرار داد مقاصد کو منظور کیا تھا، اسے تو ایک جاہ پسند حکمران نے تحلیل کردیا۔ اور ملک کی عدالتوں نے اس حاکم کی پشت پناہی کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کر لیا لیکن ہم بدستور قرار داد مقاصد کی لکیر پیٹتے ملک میں خون کی لکیریں کھینچنے پر مصر ہیں۔ گزشتہ روز کوئٹہ میں ویسی ہی ایک لکیر کھینچی گئی ہے۔ اس رویہ سے جان چھڑانے کے لئے پہلے حکمرانوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم کو کسی انتہا پسند گروہ کی خوشامد میں اس کے اور اپنے مقصد میں مماثلت تلاش کرنے کی بجائے یہ کہنے کا حوصلہ کرنا پڑے گا کہ خارجہ معاملات کسی ایک گروہ کے نعروں یا ناروا مطالبوں کی وجہ سے طے نہیں کئے جاسکتے۔ حکومت یہ اصولی مؤقف تسلیم نہیں کروا سکی۔ بلکہ اپنی کمزوری میں قومی اسمبلی میں ایک افسوسناک قرارداد منظور کرواتی ہے، جس میں ایک غیر ملکی سفیر کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے ایوان میں بحث کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ دنیا کی سفارتی تاریخ میں ایک افسوسناک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم یورپی ملکوں بالخصوص فرانس کو مراسلوں کے ذریعے رسول پاکﷺ سے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کے بارے میں مطلع کریں گے۔ عمران خان جوش بیان میں پاکستانی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یورپ میں توہین رسالت کے واقعات ’لاعلمی‘ کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی اصلاح کر لیں یا وزارت خارجہ سے اس موضوع پر بریفنگ لے لیں کیوں کہ ان کی معلومات ناقص اور غلط ہیں۔ یورپ میں توہین مذہب کو آزادی اظہار کی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہی نظریہ ان ملکوں کے جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ یورپ پاکستان یا تمام مسلمان ملکوں کے کہنے پر اس اصول سے دست بردار نہیں ہوگا۔ عمران خان کو تو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں ہی کے خلاف اس قسم کی اشتعال انگیزی دیکھنے میں آتی ہے، ہندوؤں، سکھوں یا دوسرے عقائد کی مذہبی علامات کی یوں تضحیک نہیں کی جاتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے دھونس اور تشدد بلکہ دہشت گردی کے ذریعے اس طریقہ کو ختم کروانے کی کوشش کی ہے۔ صدر میکرون جب توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کو بنیادی جمہوری حق قرار دیتے ہیں تو اس کا مقصود کسی عقیدہ یا اس کے نمائیندے کی توہین کرنا نہیں بلکہ دہشت گردی کے طرز عمل کو مسترد کرنا ہوتا ہے۔ ہولو کوسٹ کو بھی ہٹلر کی دہشت گردی کی وجہ سے ہی مسترد کیا جاتا ہے یہودی ظلم و استبداد کا نشانہ بنے تھے۔ موجودہ حالات میں مسلمان دہشت گردی کو حفاظت دین کا جائز ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ نزاع ہے۔

مسلمان اگر توہین آمیز خاکوں کے خلاف آوز بلند کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو مسترد نہیں کرتے جنہوں نے معصوم لوگوں کی جان لی یا ایک استاد کو سر قلم کرنے جیسے بہیمانہ طریقے سے قتل کیا، اس کا پرچار و تائید کی تو کوئی دوسرا ملک کیسے اور کیوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا؟ قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لئے قرار داد لا تے ہوئے فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کسی ملک کے ساتھ ایسی بے حسی کا مظاہرہ برتنے کے بعد حکومت کیسے یہ توقع کر سکتی ہے کہ سفات کاری کی کسی بھی سطح پر فرانس یا یورپ کا کوئی بھی دوسرا ملک عمر ان خان اور ان کی حکومت کی کسی بھی بات پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔

حکومت کو جاننا چاہئے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے سارے دعوے پاکستان کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ دنیا پاکستان کو اب بھی دہشت گردوں کا ہمدرد سمجھتی ہے۔ حقیقت سے آنکھیں پھیر لینے سے سچائی تبدیل نہیں ہوجاتی۔ اس تفہیم کو بدلنے کے لئے ہمیں اپنی تنگ نظری کے حصار کو توڑنا ہوگا۔ دنیا کسی ایسے ملک کو دہشت گردی کے سامنے دیوار نہیں مانے گی جہاں کی حکومت تین روز تک تشدد کرنے والے ایک گروہ کی تحسین پر مجبور ہو۔ اس کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک غیر ملکی سفیر کی ملک بدری پر قومی اسمبلی میں بحث پر آمادہ ہو جائے۔ ایسے ملک کو کیوں کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ناقابل تسخیر قلعہ مانا جائے گا؟

 حکومت پہلے اپنی مجبوریوں پر قابو پائے اور اپنی ہی اسمبلی کے منظور کئے ہوئے قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے کا حوصلہ کرے۔ جس روز اس منصوبہ کو لاگو کرنے کا اقدام کیا گیا تو مدرسوں سے پہلے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لینا ضروری ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments