بادشاہ تیمور کا عزم


تیمور کا مطلب فولاد ہے اور امیر تیمور سچ میں فولاد تھا، تیمور 1336 میں سمرقند کے نزدیک گاؤں کیش میں ایک متوسط زمیندار کے گھر پیدا ہوا ، اس کا تعلق ترک منگول قبیلے برلاس سے تھا۔ وہ بچپن سے ہی بڑا دلیر بہادر انسان تھا، اللہ پاک نے اسے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا ، وہ بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں سے لکھ سکتا تھا ، حافظہ اس قدر تیز کہ فقط 3 برس کے عرصے میں تیمور نے قرآن پاک مکمل طور پر حفظ کر لیا تھا۔

ایک دن تیمور کے استاد علی بیگ نے اس کے والد کو ملاقات کے لیے بلایا ۔ اس کا باپ یہ سمجھا کہ شاید تیمور کی کوئی شکایت وغیرہ استاد نے کرنی ہے ۔ علی بیگ نے ملاقات میں بتایا کہ اپنے بیٹے تیمور کی قدر کریں، اس نے آج تک مجھ سے کبھی مار نہیں کھائی ، میں جو بھی سبق اس کو یاد کرنے کے لیے دیتا ہوں وہ سبق یہ نہیں بھولتا، اللہ تعالیٰ نے اسے کمال کا حافظہ عطا فرمایا ہے۔

وقت تیزی کے ساتھ گزرتا رہا اور تیمور نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ، وہ اپنی قابلیت بہادری کے باعث سمرقند کا حکمران بننے میں کامیاب ہو گیا۔

تیمور نے اپنی رعایا کا بڑا خیال رکھا ، نظام عدل قائم کیا اورایک طاقتور سپاہ کی بنیاد رکھی۔ رفتہ رفتہ تیمور نے اپنے اردگرد کی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور اپنی تیموری سلطنت کو وسعت دی۔ امیر تیمور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی ، وہ اپنے سے چار گنا بڑی افواج سے مقابلہ کرنے سے نہیں ڈرتا تھا ، اس کا رعب و دبدبہ پوری دنیا میں پھیل گیا ، متعدد جنگوں میں شرکت کرنے کے باعث اسے بے شمار زخم لگے۔

ایک جنگ میں تیمور کی دائیں ٹانگ اور بازو پر شدید زخم آئے جس کے باعث وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلتا تھا۔ وہ کمال کا منصوبہ ساز تھا ، دوران جنگ ایسی شاندار حکمت عملی ترتیب دیتا تھا کہ شکست و بربادی دشمن کا مقدر بن جاتی تھی۔ تیمور سمرقند میں اپنے عالیشان محل میں پرسکون زندگی برسر کر رہا تھا ، دنیا والے اس کا نام سن کر ہی کانپ جاتے تھے ، اس عیش وعشرت والی زندگی بسر کرنے کے سبب تیمور بڑا ہی سست اور کمزور ہو چکا تھا۔

ایک دن اس نے اپنی شاہی تلوار اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر جنگی مشق کرنا شروع کر دی ، فقط چند منٹ ہی تیمور نے تلوار چلائی تھی کہ اس کی سانسیں پھول گئیں،  وہ تھکاوٹ محسوس کرنے لگا۔ تیمور اپنی یہ حالت دیکھ کر ششدر رہ گیا، وہ بڑا سخت پریشان تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ اس کو وہ وقت بڑا شدت سے یاد آ رہا تھا جب وہ کئی کئی گھنٹے تلوار چلانے کی مشق کیا کرتا تھا ، نیز وہ جنگوں میں دشمنوں کی صفوں پر سب پہلے خود حملہ کیا کرتا تھا۔

اس تناظر میں تیمور کے پاس فقط دو ہی راستے تھے یا تو وہ پرسکون عیش و آرام والی زندگی بسر کرتا رہے اور کسی دن طاقتور دشمن کے حملے میں اپنی زندگی تخت و تاج سلطنت ہمیشہ کے لیے کھو دے یا تیمور پھر سے فولاد بن جائے۔ اس نے فولاد بننے کا فیصلہ کیا ، تیمور نے اپنی رہائش محل سے دور کر لی، وہ سخت مشقت اور تلوار چلانے کی مشق کئی کئی گھنٹے کرنے لگا، اس نے اپنا وزن بھی پہلے کی نسبت کافی کم کر لیا ، تیمور نے پختہ عزم کیا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا بادشاہ بنے گا۔

 1398 میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے برصغیر پہنچا۔ تیمور نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی ، دہلی فتح کرنے کے بعد بھی اس نے قتل غارت گری کا سلسلہ جاری رکھا، اپنے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو وہ نشان عبرت بنا دیتا تھا۔ تیمور پر دنیا فتح کرنے کا جنون سوار تھا ، اس کے راستے میں کافر یا مسلمان جو بھی کوئی بادشاہ آتا، وہ اس کی سلطنت پر قبضہ کر لیتا۔

تیمور میں سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ وہ اپنے مخالفوں کو شکست دینے کے بعد مخالف فوجوں کے شہر جلا کر راکھ کر دیتا اور اگر مخالف فوجیں اس کی اطاعت قبول کر لیتیں تو ان کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔ ترک بادشاہ سلطان بایزید یلدرم نے ایشیائے کوچک میں تیموری سلطنت کے چند حصوں پر حملہ کر دیا۔ بادشاہ تیمور پہلی بار معاملات افہام و تفہیم ، خط وخطابت سے حل کرنا چاہتا تھا۔ افسوس تیمور کی تمام تر کوششوں کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا۔

تیمور نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ترکوں پر حملہ کر دیا ، شہر انقرہ میں سلطان بایزید اور امیر تیمور کی فوجوں کے مابین جنگ ہوئی ، ترکوں کو شکست ہوئی اور سلطان بایزید گرفتار ہوا۔ اس فتح نے تیمور کو دنیا کے سب سے بڑے رقبے پر حکمرانی کرنے والا بادشاہ بنا دیا ، اتنی بڑی سلطنت قائم کرنے کے باوجود تیمورمیں دنیا کی مزید ریاستوں کو فتح کرنے کا جنون سوار تھا۔ تیمور بوڑھا ہو چکا تھا لیکن اس کا عزم اور دل ابھی بھی جوان تھے ، چین پر قبضہ کرنے کی خواہش اس کے دل میں عرصۂ دراز سے مچل رہی تھی۔

تیمور نے اپنی فوجوں کا رخ چین کی جانب موڑ دیا۔ سخت سردیوں برف باری کے دن تھے ، راستے میں تیمور کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ چین فتح کرنے کی خواہش دل میں لیے 69 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔

تیمور میں بہت سی خوبیاں اور برائیاں موجود تھیں ، لیکن لوگ آج بھی اس کے پختہ عزم کو یاد کرتے ہیں ، جس کی بدولت وہ فاتح عالم بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments