ایلون مسک کی سپیس ایکس پر انڈونیشیا کا یہ چھوٹا سا جزیرہ کیوں ناراض ہے؟

ایومی امیندونی اور یویت تان - بی بی سی نیوز


The SpaceX Falcon Heavy launches from Pad 39A at the Kennedy Space Center in Florida

انڈونیشیا نے ویسٹ پاپائو میں اپنے جزیروں میں سے ایک کو ایلون مسک کے سپیس ایکس پروجیکٹ کے ممکنہ لانچ سائٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔ سپیس ایکس کا مذکورہ پروجیکٹ ایک مرتبہ پھر انسانوں کو چاند پر پہنچانا چاہتا ہے۔

اگرچہ ابھی ایلون مسک نے اس پیشکش کو منظور نہیں کیا ہے تاہم انڈونیشیا نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے بیاک نامی اس جزیرے کے حوالے سے خلائی مشن کے سلسلے میں اہم عزائم ہیں۔ اور یہ چیز وہاں کی مقامی آبادی کو پریشان کر رہی ہے۔

مارکس ابرو نے اپنی ساری زندگی بیاک جزیرے پر گزاری ہے۔ 54 سالہ مارکس آٹھ بچوں کے دادے ہیں اور وہ اس جزیرے کے مقامی قبیلے ابرو سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی نسلوں سے یہیں بستے ہیں۔

مگر اب انھیں فکر ہیں کہ اگر ان کا جزیرہ لانچ سائٹ بن گیا تو ان کے لیے مسآیل پیدا ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر یہاں وہ بن جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے اپنی زندگی گزارنے کے لیے اس زمین پر انحصار نہیں کر سکتے۔’

‘وہ سمندر اور جنگل تباہ کر دے گا۔’

Palm trees and pile dwellings, Biak island, Papua New Guinea.

قدرتی وسائل سے بھری زمین

بیاک صرف 1746 مربع کلومیٹر ہے، یعنی لندن شہر سے بس تھوڑا سا بڑا ہے۔ یہ نیو گنی میں انڈونیشیا کے حصے کے علاقے جسے ویسٹ پاپاؤ کہتے ہیں میں موجود ہے۔ یہاں تقریباً ایک لاکھ لوگ رہتے ہیں۔

اس جزیرے میں تقریباً ایک درجم مختلف نسلوں کے لوگ رہتے ہیں اور اگرچے اس جزیرے پر کہی کہیں شہری علاقہ بن گیا ہے مگر زیادہ تر یہاں پر دیہاتی علاقہ ہی ہے۔

یونیورسٹی آف سڈنی کی محقق سوفی چاؤ کہتی ہیں کہ ‘پاپاؤ کے زیادہ تر رہائشی ابھی بھی اپنے ارد گرد کے کی زمین پر انحصار کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں، مچھلی پکڑنا، شکار کرنا وغیرہ وغیرہ،۔’

مگر بیاک میں ایک دو اور خصوصیات بھی ہیں جو کہ اسے کسی بھی ایسے شخص کے لیے پرکشش بناتے ہیں جس کے خلائی سفر کے عزائم ہوں۔

یہاں نکل اور تانبا بہت پایا جاتا ہے اور ان دونوں کا راکٹ سازی میں استعمال ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ خط استوا ،سے ایک ڈگری نیچے موجود ہے جو کہ اسے خلائی جہاز لانچ کرنے کے لیے بہترین مقام بناتا ہے اور مدار تک پہنچنے میں کم ایندھن درکار ہوگا۔

اور اصل میں انڈونشیا کے بیاک کے حوالے سے خلائی عزائم ایلون مسک سے پہلے بھی تھے۔

انڈونیشیا کی خلائی ایجنسی لاپان کی اس جزیرے پر کئی دہائیوں سے نظر ہے اور 1980 میں انھوں نے 100 ہیکٹر زمین خرید بھی لی تھی مگر مختلف مسایل کی وجہ سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

Graphic

اور اس مقام کے قریب ہی ایک اہم شکاری علاقہ ہے اور پاس میں ہی ایک مچھلیاں پکڑنے کی جگہ ہے۔

اس کے علاوہ یہ لانچ سائٹ قریب ترین رہائشی علاقے ساؤکوبے گاؤں سے صرف دو کلومیٹر دور ہے اور وہاں کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ انھیں نقل مکانی پر مجبور کیا جائے گا۔

‘قتل و غارت ہوگا‘

یہاں کے مقامی رہائیشوں میں سے زیادہ تر کو زمین نسل در نسل وراثت میں ملتی ہے۔

مارکس کہتے ہیں کہ ‘ہمیں اسی زمین پر رہنا پڑتا ہے جو ہمیں دی جاتی ہے۔ ہم کہیں اور نہیں جا سکتے۔ اگر ہم کہیں اور چلے جائیں تو نسلی قتل ہوتے ہیں۔ قبیلوں کے درمیان لڑائی ہوگی، اور جس قبیلے کی زمین ہے وہ اس قبیلے سے لڑے گا جو وہاں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔’

بیاک کی رسمی کونسل کے سربراہ اپولوس سرویر کا کہنا ہے کہ سپیس ایکس کو پیشکش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انڈونیشیا قبائلی لوگوں کے حقوق کو کس قدر غیر سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔

‘پاپاؤ میں زیادہ تر پروجیکٹ ہمارے درمیان تناؤ پیدا کرتے ہیں۔ ‘

انڈونیشیا اور ویسٹ پاپاؤ کے درمیان رشتہ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہ جزیرے ماضی میں ہالینڈ کی کالونی تھی اور 1963 میں انڈونیشیا میں شامل ہوتے تاہم بہت سے لوگ ابھی بھی آزادی کی بات کرتے ہیں اور ان کے انڈونیشیا کی جانب خیالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔

ایک بین الاقوامی سپیس ڈیسٹینیشن

ادھر لاپان کے سربراہ جمالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پروجیکٹ سے جزیرے میں درکار جدت آ جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ممکنہ لانچ پیڈ سے ںیاحت اور سیٹلائٹ کی صنعتیں بیاک میں آ جائیں گی اور یہ ایک دہائی میں جدید معادرہ بن جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم بیاک کے لوگوں کی روایتی عقائد برقرار رکھیں گے مگر وہاں کے لوگوں کو شکار پر منحصر نہیں ہونا پڑے گا یا فصلوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یہاں زیادہ جدید صنعتوں کے آنے سے زمین کے استعمال کی نوعیت بدل جایے گی۔’

ان کا مزید دعویٰ ہے کہ انھیں بیاک کے 60 روایتی رہنمائوں کی جانب سے انھیں حمایت کے خط موصول ہوئے ہیں تاہم اس بات کی مارکس تردید کرتے ہیں۔

جمالادین کا کہنا ہے کہ لاپان اس وقت دو ممکنہ صورتحالوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہاں پر چھوٹا سی لانچ سائٹ ہو جو 100 کلوگرام سے کم وزن کی سیٹلائٹیں خلا میں بھیج سکے۔

ایسی سائٹ سپیس ایکس کے لیے بھی کافی ہوگی اور لاپان کے پاس موجود 100 ہیکٹر میں بن سکتی ہے۔

دوسری صورتحال یہ ہے کہ ایک بڑا انٹرنیشل سپیس پورٹ بنایا جائے جس کے لیے بہت ساری زمین درکار ہوگی۔

سپیس ایکس نے ابھی تک اپنی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے تاہم جمالادین کا کہنا ہے کہ صدر انڈونیشیائی صدر نے اسے ایلون مسک کے سامنے ذکر کیا تو وہ دلچسپی دیکھا رہے تھے۔

جمالدین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد گذشتہ جنوری میں جب سپیس ایکس کے ساتھ بات چیت کی گئی تو کوئی مسائل سامنے نہیں آئے۔ بی بی سی نے سپیس ایکس سے ان کی رائے مانگی ہوئی ہے۔

مگر لاپان کے اس جزیرے کے حوالے سے پلانز میں صرف سپیس ایکس نہیں ہے۔ انھوں نے چاپان، کوریا، چین، اور انڈیا سب سے اسی سلسلے میں رابھے کیے ہیں۔

مگر اس میں انڈونیشیا کے لیے کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے انڈونیشیا خطے میں ایک اہم کھلاڑی بن جائے گا اور سیاسی بنیادوں پر اس کا انڈونیشیا کو بہت فائدہ ہوگا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے رہائشی جس طرح کا جزیرہ چاہتے ہیں اور جیسا حکومت چاتی ہے، یہ دونو ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔

‘خلائئ سفر، تلاش اور دریاست ایک اچھا کام ہے اور بڑا خواب ہے مگر یہاں کے لوگوں کے خواب کچھ چھوٹے ہیں۔ بیاک بہت سے خوابوں کی جگہ ہے مگر سارے خواب سچ نہیں ہو سکتے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp