کورونا وائرس: انڈیا میں کووڈ 19 کی بگڑتی صورتحال پر پاکستانی صارفین کا ردعمل، وزیرِ اعظم سے انڈیا کی مدد کرنے کی اپیل


انڈیا

کہتے ہیں کہ جب تک کوئی مصیبت خود پر نہیں پڑتی تب تک اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ بات کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران عین درست ثابت ہو رہی ہے۔

گذشتہ چند روز سے ہمسایہ ملک انڈیا سے آنے والی افسوسناک خبریں دیکھ کر پاکستانیوں کے دل بھی پگھلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے کیسز اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد میں حالیہ دنوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر دونوں ملکوں کے شہریوں کے درمیان عموماً ہر معاملے پر نوک جھونک جاری رہتی ہے تاہم کورونا کے معاملے پر حالات مختلف نظر آتے ہیں اور پاکستانی صارفین انڈین شہریوں کی خیریت کے لیے فکرمند دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان میں گذشتہ 36 گھنٹوں سے انڈیا کے ہسپتالوں میں آکسیجن کی قلت، ملک میں کووڈ 19 کی بگڑتی ہوئی مجموعی صورتحال اور انڈیا میں وفاقی حکومت پر ہونے والی تنقید سے متعلق ٹرینڈز گذشتہ ایک روز سے ٹاپ پر ہیں۔

بیشتر پاکستانی صارفین اس مشکل وقت میں اپنے ہمسایوں کے لیے نیک تمناؤں سے بھرے پیغامات پوسٹ کر رہے ہیں جو یقیناً انڈین صارفین کے لیے باعث اطمینان ہو گا۔

انڈیا

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

کورونا وائرس کی نئی انڈین قسم: کیا ویکسینز اس کے خلاف مؤثر ہوں گی؟

’اب تو غم کا بھی احساس نہیں ہوتا، میں پوری طرح بے حس ہو چکی ہوں‘

انڈیا میں کورونا: ’جس طرف بھی دیکھیں لاشیں اور ایمبولینس نظر آتی ہیں‘

2019 کے دسمبر میں چین کے صوبہ ہوبائی سے شروع ہونے والی اس وبا نے کئی ممالک میں ڈیرے ڈالے اور تباہی پھیلائی۔ ہوبائی کے بعد اس کا پہلا مرکز اٹلی تھا، جہاں وبا کے آغاز میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو گئی۔

وہاں سے یہ وبا امریکہ اور برازیل میں مزید تباہی کی وجہ بنی تو 2020 کے آخر تک مختلف ویکسینز کے متعارف ہونے کے بعد ایسا لگا کہ شاید سال 2021 کے آغاز سے صورتحال قابو میں آ جائے گی۔

تاہم دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس کی مختلف اقسام سامنے آنے لگیں اور برطانیہ کو دوسری لہر کے دوران متاثر کرتے ہوئے یہ وائرس اب جنوبی ایشیا، خاص کر انڈیا میں انتہائی تشویشناک حد تک پھیل چکا ہے۔

انڈیا

وہ انڈیا جہاں فروری کے وسط تک یومیہ صرف 14 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے، وہاں گذشتہ کئی روز سے تین لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

انڈیا سے بی بی سی سمیت مختلف میڈیا کے اداروں کی جانب سے جب دل دہلا دینے والی رپورٹس، ویڈیو پیغامات، اور تصاویر سامنے آنے لگیں تو پاکستان میں صارفین اس حوالے خاصے پریشان دکھائی دیے اور اب تک اس حوالے سے مختلف موضوعات پر بحث جاری ہے۔

جہاں پاکستانی صارفین انڈین شہریوں کے لیے دعائیں کر رہے ہیں وہیں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اب کی بار تو یہ مصیبت بالکل ہمارے پڑوسیوں کو تنگ کر رہی ہے تو پاکستانی حکومت اس سے فوری سبق کیوں نہیں سیکھ رہی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر کی جانب سے این سی او سی کے اجلاس کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں پاکستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز اور سنگین ہوتی صورتحال پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔

انھوں نے ہمسایہ ملک انڈیا اور ایران کی مثالیں دیتے ہوئے پاکستانیوں سے احتیاط کی درخواست کی تھی تاہم اس دوران انھوں نے عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو بھی قواعد نافذ نہ کروا سکنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ‘خدا دونوں ملکوں پر رحم کرے، ایسے حالات کسی کو نہ دیکھنے پڑیں۔’

ایسے میں اکثر صارفین وفاقی حکومت سے انڈیا میں آکسیجن کی قلت پوری کرنے کے لیے فوری مدد کی اپیل کرتے رہے۔

سماجی کارکن اسامہ خلجی نے لکھا کہ ‘میں ان ہزاروں پاکستانی شہریوں کے ساتھ مل کر حکومت سے انڈیا کی مدد کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ مجھے دل کی گہرائیوں سے خوشی ہے کہ ’انڈیا کو آکسیجن چاہیے‘ اور انڈین زندگیاں بھی قیمتی ہیں جیسے موضوعات پر ٹرینڈّز پاکستان میں مقبول ہو رہے ہیں۔

‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دل صحیح جگہ پر ہیں’

صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا کہ ‘انڈیا میں صورتحال دل دہلا دینے والی ہے۔ خدا کرے کے ہر کوئی کووڈ سے صحتیاب ہو جائے اور اس سے محفوظ رہیں۔ انڈیا کے لیے دعائیں۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ‘سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہم پاکستانیوں کی دعائیں انڈین بھائی بہنوں کے ساتھ ہیں۔ اللہ سب کو صحت دے۔’

اکثر پاکستانی صارفین انڈیا کی صورتحال پر کی جانے والی ٹویٹس کے بارے میں تبصرے کرتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیے کہ ہمیں اس صورتحال سے سبق سیکھنا ہو گا، کہیں کل ہماری صورتحال ایسی نہ ہو جائے۔

صارف ماہم ناصر نے انڈین شہریوں کو محبت اور دعائیں بھیجتے ہوئے کہا کہ ‘کسی کو بھی اپنی حکومت کی نااہلی کے باعث اپنے پیاروں کی زندگیوں کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔’

ایک صارف نے لکھا کے کوئی بھی حکومت کسی نہ کسی ایک لہر کے دوران صورتحال پر قابو نہیں پا سکی اور اس کی وجہ ان کا ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے۔

صارف اور سپورٹس تجزیہ نگار ریحان الحق نے بی بی سی کی انڈیا کی صورتحال سے متعلق ایک ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ انتہائی تباہ کن ہے۔ خدارا غفلت کی نیند سے اٹھ جائیں اور کووڈ کو سنجیدگی سے لیں۔ حفاظتی تدابیر اپنائیں اور سازشی نظریات پر کان مت دھریں۔ اور اگر آپ کووڈ سے بخیر و عافیت بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہر کوئی ہو گا۔ لوگوں کو یہ نہ بتائیں۔

تاہم کچھ صارفین ایسے بھی تھے جنھوں اس موقع پر بھی انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا اور یاد دلایا کہ انڈیا نے پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کی ایک سکیم کوویکس کے ذریعے کورونا ویکسین بھجوانی تھی لیکن عین وقت پر ویکسین کی درآمدات روک دی گئیں۔

واضح رہے کہ انڈیا کی جانب سے ویکسین کی برآمد کا یہ عمل صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی روکا گیا ہے اور حکام کے مطابق اس کی وجہ انڈیا میں کورونا کے بڑھتے کیسز اور ویکسین کی فراہمی میں سست روی شامل ہے۔

انڈیا

ادھر انڈین صارفین اپنی حکومت پر بڑے پیمانے پر آکسیجن درآمد کرنے کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں اور یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا انڈین زندگیاں قیمتی نہیں ہیں؟

یہی نہیں، صارفین نریندر مودی پر انڈیا میں کورونا وائرس کے عروج کے دوران مغربی بنگالی میں الیکشن منعقد کروانے اور وبا کے موقع پر سیاست کرنے پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔

شاید ان کی بات میں وزن بھی ہے، کیونکہ جہاں 23 اپریل کو انڈیا نے ایک بار پھر یومیہ متاثرین کی تشخیص کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے 28 اپریل کو ہونے والے انتخاب کے حوالے سے بی جے پی بنگال کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی ہے کہ جیسے ہی مغربی بنگال میں ان کی حکومت آئے گی وہ عوام کو کووڈ 19 کی ویکسین مفت میں فراہم کرے گی۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp