مولانا وحیدالدین خان:حیات اور افکار


سکول کے زمانے میں ہم ہر شام مکتب دینیہ جاتے تھے۔ یوں ہم ہمیں دین دنیا کو سمجھے اور رہنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس عبادت گاہ میں ایک بڑی لائبریری موجود تھی جس میں ہم ہر روز بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہمارے لئے اردو پڑھنا تو کجا، بولنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ زبان کے معاملے میں اس نالائقی کے دور میں ایک دن مولانا وحید الدین خان کی سرپرستی میں چھپنے والا رسالہ ”الرسالہ“ ہمارے ہاتھ لگا۔

اس دور میں جب ایک عام قاری کی معیاری کتب تک رسائی تقریباً ناممکن سمجھی جاتی تھی، یہ رسالہ متجسس اذہان کے لیے گویا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس رسالے کی اہم بات یہ تھی کہ یہ ہلکی پھلکی زبان میں مذہبی معاملات پر مکالماتی انداز میں روشنی ڈالتا تھا۔ مولانا سے تعارف ہوا تو ان کی مزید کتب سے استفادہ کرنے کی کوشش شروع کی۔ اور یوں ان کی کتاب راز حیات بھی اسی دور میں پڑھ ڈالی۔ اس وقت چونکہ ہم نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا، سو ہم راز حیات کے فلسفے کو بھی جوانی کے جوش سے دیکھ رہے تھے۔ اسی وجہ سے مولانا کی راز حیات کو ہم زیادہ گہرائی میں سمجھ نہیں پائے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راز حیات کے مباحث سے دوبارہ واسطہ پڑا۔ اور تب ہی پتہ چلا کہ زندگی ایک راز ہے اور اس کو بامعنی گزارنا ایک فن ہے جو ہم میں تھا ہی نہیں۔

کالج کا دور کراچی میں گزارنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ الرسالہ باقاعدگی سے مل جاتا تھا۔ کراچی کے ریگل چوک اور پی آئی بی کالونی کی ریڑھیوں اور فٹ پاتوں پر ہم نے علم کے خزانوں کو بکھرا پایا۔ یہیں سے مولانا وحید الدین خان اور دوسرے نامور مصنفین کی کتابیں نہایت ہی سستی قیمت پر مل جاتی تھیں۔ یوں ہمارا زیادہ تر وقت ان کو سمجھنے کی کوشش میں گزر جاتا۔ مولانا صاحب کی تحاریر ہم جیسے طفل مکتب کے لئے ایک ذود ہضم خوراک کی مانند ثابت ہوئے۔

انھوں نے روایتی علماء کے فتویٰ ساز رویے سے انحراف کیا۔ مسلمانوں کے پاس کوئی علمی صنعت تو ہے ہی نہیں۔ ان کے پاس سب سے بڑی صنعت فتویٰ سازی کی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں اسلام میں داخل کرنے سے زیادہ اسلام سے خارج کرنے کا رجحان غالب ہے۔ اسی کی وجہ سے آج غیر مسلم لوگ مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں غیر مسلم نہیں بنا سکے جتنا مسلمانوں نے مسلمانوں کو غیر مسلم بنایا ہے۔ مسلمانوں کو کافر بنانے کا سب سے زیادہ کام اسلام کے اسی قلعے میں ہوا جسے خدادا مملکت پاکستان کہا جاتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب مولانا وحید الدین نے فتووں کی دکان کھولنے کی بجائے اپنے زمانے کے رویوں، سوالات اور افکار کی روشنی میں اسلام کی تشریح کی۔ اس مقصد کی خاطر انھوں نے ایک ادارے کی بھی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا نام مرکز برائے امن و روحانیت (The Centre for Peace and Spirituality) اس ادارے کا مقصد امن کی ثقافت کو ذہنی روحانیت کے ذریعے پروان چڑھانا تھا۔

مولانا وحید اگرچہ مذہب کے مطالعے کے متعلق کوئی نظریہ ساز تو نہیں تھے مگر اس کے ایک پرامن شارح ضرور تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت اور توجہ حالات حاضرہ سے پیدا ہونے والے سوالات اور معاملات کا جواب دینے میں گزرا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب کے متعلق تحقیق میں کوئی علمیاتی اور نظری جہت متعارف نہیں کروا سکے۔ اس لئے ان کی تحاریر اور افکار کو پرکھتے وقت جدید علمیات کے لازمی اصولوں اور سانچوں کی بجائے ان کو مولانا کے اپنے زمان اور مکان میں دیکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں گستاخی، ہندوستانی مسلمانوں میں مثبت رویہ، اور امن کے منشور پر کام کرتے اور عصر حاضر کے معاملات کو سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مولانا دنیا کے جس بھی حصے کا سفر کرتے، وہاں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر آتے تھے اور اس سبق کو ڈائریوں اور سفرناموں کی صورت میں شائع کرتے اور اسے عوام الناس تک پہنچانے کی سعی کرتے۔ ویسے تو جو جیسا ہوتا ہے اسے چیزیں بھی ویسی ہی نظر آتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے لوگ ملک سے باہر چلے جائیں تو انہیں سوائے عریانی، فحاشی، بے حیائی اور شارب نوشی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔

مولانا وحید الدین کی اردو اور انگریزی میں کتابیں زیادہ تر عصر حاضر کے معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ”اسلام اورعصر حاضر:عصری اسلوب میں اسلام کا تعارف“ ، ”علم جدید کا چیلنج“ ، ”مارکسزم: تاریخ جس کو رد کر چکی ہے“ ، ”مذہب اور جدید چیلنج“ ، ”سوشلزم اوراسلام“ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انگریزی میں ان کی کتابیں

The Issue of Blasphemy
Indian Muslims: The Need for a Positive Outlook
Islam: Creator of the Modern Age
عصرحاضر کے مسائل پر ہی بحث کرتی ہیں۔

مولانا وحید الدین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ مسلمان اس جدید دور میں اپنے عصری علمی، سماجی اور سیاسی پہلوؤں کو سمجھنے اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر اپنانے کے اہل بن جائیں، اور اندھی تقلید کے منحوس چکر میں پڑ کر اپنی زندگیاں نہ گزاریں۔ کیونکہ اندھی تقلید ہی کی وجہ سے ہی مسلمان اپنے خول میں بند ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کو نئی چیزوں کی تفہیم نہیں ہوتی ہے۔ اور جب ذہن فہم سے ہی خالی ہو تو انسان آسانی سے رائے زنی، فتویٰ گردی اور نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایسے لوگوں کا اگر کسی نئے خیال یا چیز سے واسطہ پڑ بھی جائے تو وہ اسے دین کے لئے خطرہ اور بدعت قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔ جدیدیت اور روشن خیالی کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔ رد اور مسترد کا یہ رجحان بزدل معاشرہ کرتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ خوف جدیدیت کے پیدا کردہ ہے۔ جب ہم باہر کی دنیا سے مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں، تو اپنے خول میں پناہ لیتے ہیں۔ یوں خول سے باہر کی ہر چیز ہمیں خوفناک لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر نئی چیز سے ڈر لگتا ہے۔

مولانا وحید نے اپنے تئیں کوشش کی کہ لوگوں کو جدید زمانے میں مذہب کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھا سکیں۔ ان کی عاجزی کی انتہا دیکھیے کہ وہ کہا کرتے ”جو اپنے آپ کو بے علم جانے وہی علم والا ہے“ ۔ وہ ساری زندگی فتوے کی دکانوں، نفرت اور دکھاوے کی دنیا سے بہت دور رہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے ان جیسی شخصیت کو بھی نہیں بخشا اور انہیں اسلام دشمن شخصیت قرار دے دیا۔

آج ہمارے معاشرے میں جذبات کی بہتات اور خرد کی کمی دیکھ کر اس چیز کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم صرف جذبات کے معاملے میں ہی جوان ہیں لیکن عقلی و شعوری سطح پر اب بھی عہد طفلی میں گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس یاسیت بھری فضاء میں مولانا وحید الدین خان کی وفات کے بعد مکالمہ اور فکر کی راہ اور بھی محدود ہو گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سطحی جذباتیت کا ایک طوفان امڈ آیا ہوا ہے جس کی آگ بڑی تیزی سے معاشرے سے عقلی فکروعمل کو بھسم کر رہی ہے۔

مولانا وحید الدین خان کی جس خوبی نے مجھے ہمیشہ ہی ان کی کتابوں سے جوڑے رکھا وہ ان کی، زندگی سے محبت تھی۔ وہ ہمیں مذہب کے ایسے پہلوؤں سے روشناس کراتے تھے جو زندگی سے محبت کرنے اور نہ صرف بامعنی بلکہ بھرپور طریقے سے گزارنے میں بھی مدد دیتی تھیں۔ یہی زندگی دوست رویہ ان کی کتابوں کے ٹائٹلز سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ راز حیات، راہیں بند نہیں، تعمیر حیات، حقیقت کی تلاش اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

آج کے مذہبی علماء تو ہمیں اس دنیا اور زندگی سے اتنا ڈراتے ہیں کہ ہمیں مرنا ہی خوبصورت عمل لگتا ہے۔ اور اسی خواہش مرگ نے ہماری زندگیوں سے سارے خوبصورت رنگ اور مسرتیں چھین لی ہیں۔ اس قریب المرگ ذہنیت سے نجات زندگی سے دوبارہ تعلق پیدا کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہماری زندگی فی الحال موت اور ہیبت کے سوداگروں کے ہاتھ گروی رکھی ہوئی ہے۔ اس لئے ہم زندگی جی نہیں رہے بلکہ گزار رہے ہیں۔ یاد رکھیے جیل میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے قیدی زندگی جیتے نہیں گزارتے ہیں۔

ہمارے زندگیاں بھی ان سوداگروں کے وجہ سے ایک ذہنی قید خانے میں مقید ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے اس قید خانے سے باہر نکلنے کی سزا موت ہی ہو گی۔ یاخدا جائیں تو کہاں جائیں۔ جیل کی کال کوٹھڑی میں گھٹن مار دیتی ہے اور باہر نکلنے کی کوشش کریں تو مذہب کے محافظ مار دیتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے مولانا وحید الدین کی وفات کے ساتھ زندگی سے محبت کے بیانیے کا ایک چراغ بجھ گیا ہے اور ہم مزیداندھیروں کے سوداگروں کے زیر اثر آ گئے ہیں جو حیات، علم اور محنت نہیں بلکہ موت، جہالت اور نفرت بانٹتے ہیں۔ موت، تاریکی اور خرد دشمنی کے لگائے گئے ان پہروں میں حیات، خرد اور ضیاء کی بات کرنا ایک الوہی عمل ہے جسے مولانا وحید الدین نے بخوبی سرانجام دیا۔

مضمون نگار سماجی فلسفے اور افکار کی تاریخ کے قاری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments