مصنوعی ذہانت کی مدد سے قدیم تحریر کے راز کا انکشاف


Dead Sea
یہ قدیم مخطوطات بحیرہ مُردار کے قریب غاروں سے ستر برس پہلے برآمد ہوئے تھے۔

محقیقن نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے یہ معلوم کر لیا ہے کہ بحیرہ مردار کے قریب غاروں سے طوماروں (سکرولز) کی صورت میں برآمد ہونے والی پراسرار قدیم دستاویزات میں درج تحریر کو دو کاتبوں نے لکھا تھا۔

محققین نے ان قدیم طوماروں کے مخطوطات میں سے ‘عظیم كتاب أشعيا’ کہلانے والی دستاویز پر تجربات کیے تھے جن سے پتہ چلا کہ شاید دو نامعلوم افراد نے قدیم زمانے میں اُس وقت کی زبان میں ہاتھ سے لکھے گئے الفاظ کی ہُو بہُو نقل تیار کی تھی۔

ان قدیم مخطوطات جو کے طومار کی صورت میں یعنی گول لپٹے ہوئے کاغذات کی صورت میں غاروں میں ملے تھے، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک انجیل کے عہد نامہِ قدیم کا ایک نُسخہ ہے۔ 70 برس پہلے برآمد ہونے والے یہ مخطوطات آج کے لوگوں کے لیے باعثِ حیرت ہیں۔

ان قدیم مخطوطات کا ایک حصہ بحیرہِ مردار کے قریب قمران نامی پہاڑ کے ایک غار سے مقامی بدّوؤں کو ملا تھا۔ اب غرب اردن کے یہ پہاڑ اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔

ان میں زیادہ تر ایسے مسودے ہیں جو عبرانی، آرامی اور یونانی زبان میں لکھے ہوئے ہیں، اور ان کے بارے میں خیال ہے کہ ان کا تیسری صدی قبل مسیح کے دور سے تعلق بنتا ہے۔

كتاب أشعيا ان 950 مختلف مخطوطات میں سے ایک ہے جو ان غاروں سے سنہ چالیس اور سنہ پچاس کی دہائیوں میں ملے تھے۔ یہ مخطوطہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے 54 کالم نصف حالت میں تقسیم کیے گئے ہیں اور یہ ایک ہی انداز سے لکھے گئے ہیں۔

Heatmap of letters from the Great Isaiah Scroll
محققین نے ایک ایک لفظ کو سمجھنے کے لیے ‘ہیٹ میپس’ کا استعمال کیا۔

ہالینڈ میں یونیورسٹی آف گرونینجن کے محققین نے كتاب أشعيا کے جائزے کے لیے مصنوعی ذہانت اس وقت سب سے زیادہ جدید اور نمونوں کو سمجھنے کے طریقے کا استعمال کیا۔ انھوں نے عبرانی ززبان کے ایک حرف ‘الف’ کا تجزیہ کیا جو کہ اس کتاب میں 5000 مرتبہ درج تھا۔

محققین ملادن پوپووچ، معرو ف ضالع اور لمبرٹ شومیکر اپنے ایک تحقیقی مقالے میں کہتے ہیں کہ وہ ‘اس قدیم روشنائی کے نشانات کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ڈیجیٹل امیجز پر ظاہر ہوئے تھے۔’

ان کے مطابق ‘قدیم روشنائی کے نشانات کسی بھی شخص کے بازو اور ہاتھوں کے پٹھوں کی حرکات و سکنات کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ ہر فرد کے اپنے انداز کی مخصوص ہتی ہیں۔ انھوں نے اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ آیا ایک مخطوطے کے لکھنے میں ایک سے زیادہے افراد شامل تھے، اس طریقے کا استعمال کیا۔

‘زیادہ امکان ہے کہ دو کاتبین مل جل کر کام کرتے رہے تا کہ وہ ایک جیسا طرز تحریر برقرار رکھ سکیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی منفرد خصوصیت کو بھی ظاہر کر سکیں۔’

محققین کے مطابق کتابت میں یکسانیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ کاتبین کو کسی ایک مدرسے یا ایک خاندان میں ایک جیسی تربیت دی گئی ہو، مثال کے طور پر دونوں کو ان کے والد نے لکھنے کی تربیت دی ہو۔’

وہ کہتے ہیں کہ کاتبوں کی ایک دوسرے کی نقل کرنے کی صلاحیت اتنی بہترین تھی کہ اب تک کے کئی ماہرین ان دو کاتبوں کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھ سکے تھے۔


بنگلہ دیشی نژاد محقق

محقیقن کی اس ٹیم کے ایک رکن معروف ضالع ہیں جو ہالینڈ کی یونیورسٹی آف گرونینجن آنے سے پہلے بنگلہ دیش کی اسلامک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ‘اس كتاب أشعيا میں کم سے کم پانچ ہزار بار مرتبہ الف، یا ا درج ہے۔ ان سب کا محض آنکھ سے موازنہ کرنا ناممکن ہے۔

‘کمپیوٹر بڑے ڈیٹاسیٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے زیادہ مناسب ہیں، جیسے آپ 5000 مرتبہ ایک حرف A کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ حروف کی مائکرو لیول پر ڈیجیٹل امیجنگ ہر طرح کے کمپیوٹر کے حساب کو ممکن بنا دیتی ہے، جیسے حروف میں خم یا گولائی کی پیمائش (جس کو ٹیکچورل کہا جاتا ہے)، اور ساتھ ہی پورے حرف کی ساخت کو (جس کو آلوگرافک کہتے ہیں) کی بھی پیمائش کی جاتی سکتی ہے۔

اعصابی نیٹ ورک

معروف ضالع نے اس تحقیق کا پہلا تجزیاتی ٹیسٹ کیا۔ ٹیکسٹوریل اور ایلوگرافک خصوصیات کے ان کے تجزیہ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ عظیم كتاب أشعيا کے طومار میں متن کے 54 کالم دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جنہیں تُکّے سے تقسیم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ ان کے جھرمٹ یا کلسٹرڈ منظم انداز میں بنے ہوئے تھے۔

اس تبصرہ کے ساتھ کہ اس طومار کے ایک سے زیادہ کاتب ہو سکتے ہیں، ضالع نے ان اعداد و شمار کو اپنے ساتھی محقق شومیکر کے حوالے کیا، جنھوں نے اب حروف کے ٹکڑوں کے نمونوں کا استعمال کرتے ہوئے کالموں کے مابین مماثلتوں کا جائزہ لیا۔

اس دوسرے تجزیاتی مرحلے نے دو مختلف کاتبوں کے ہونے کی تصدیق کردی۔ شومیکر نے کہا ‘جب ہم نے ڈیٹا میں اضافی کام کیا تو نتیجہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہم یہ ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے کہ دوسرا کاتب اپنی تحریر میں پہلے کاتب کی نسبت زیادہ تغیرات ظاہر کرتا ہے، حالانکہ ان کی تحریر بالکل ایک جیسی لگتی ہے۔’

کتابت کا انداز

تحقیق کے تیسرے مرحلے میں، پوپووِچ، ضالع اور شومیکر نے ایک بصری تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے ‘ہیٹ میپس’ (حرارت کے نقشے) بنائے جو پورے مخطوطے بھر میں ہر حرف کے انداز کی مختلف شکلوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

پھر انہوں نے پہلے 27 کالموں اور آخری 27 کالموں کے لیے حرف کے نمونے کا ایک ایک اوسط ورژن تیار کیا۔ ان دو اوسط حروف کا آنکھوں سے موازنہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مختلف ہیں۔ یہ کمپیوٹرائزڈ اور شماریاتی تجزیہ ڈیٹا کو انسانی تشریح کو قریب سے منسلک کرتا ہے، کیونکہ ہیٹ میپ نہ تو ابتدائی اور ثانوی تجزیوں سے تیار ہوتا ہے اور نہ ان پر انحصار کرتا ہے۔

کتاب کے کچھ پہلوؤں اور متن کی پوزیشن کی وجہ سے کچھ محققین نے رائے قائم کی تھی کہ کالم 27 کے بعد ایک نیا کاتب کام شروع کردیتا ہے، لیکن عام طور پر اس رائے کو قبول نہیں کیا گیا تھا۔

پوپووچ کہتے ہیں کہ ‘اب ہم اس کی تصدیق ہینڈ رائٹنگ (کتابت کے انداز) کے مقداری تجزیہ کے ساتھ ساتھ مضبوط اعدادوشمار کے تجزیوں سے کرسکتے ہیں۔ اندازے لگانے والے شواہد پر فیصلہ دینے کی بجائے، کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت سے ہم یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ دو مختلف کاتبوں کے کام کا فرق کہاں سے شروع ہوتا ہے۔’

نئے مواقع

عظیم کتاب اشعیا کا یہ تجزیہ اور اس مخطوطے کی کتابت میں دوسرے کاتب کی شناخت کرنے میں کامیابی اب یہ قمران سے ملنے والے دوسرے قدیم مخطوطوں کا تجزیہ کرنے کے بھی نئے امکانات کھولتی ہے۔

اب محققین دونوں کاتبوں کے لکھے ہوئے طومار کی تحریروں کے مائکرو لیول تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور احتیاط سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے ان مخطوطات پر کس طرح کام کیا۔

پوپووچ کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت دلچسپ بات ہے کیونکہ اس سے قدیم دنیا کو سمجھنے کا ایک نیا موقع بنتا ہے جو ماہرین اور محققین کے مابین ان کاتبوں کے درمیان بہت زیادہ پیچیدہ روابط کا انکشاف کر سکتی ہے۔

’اس مطالعے میں ہمیں ایک بہت ہی ایک جیسے طرز تحریر کے شواہد ملے ہیں جو عظیم اشعیا کے اسکرول کے مشترکہ دو کاتبوں کی ایک جیسی تربیت یا اصلیت کا پتہ دیتے ہیں۔’

‘ہمارا اگلا مرحلہ دیگر طومار کی تحقیقات کرنا ہے، جہاں ہمیں ان کے مختلف کاتبوں کی ابتدا یا تربیت کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔’

اس طرح سے ہمیں ان معاشروں کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو سکیں گی جنھوں نے بحیرہ مردار کے طومار تیار کیے تھے۔

پوپووچ کہتے ہیں کہ ‘اب ہم مختلف لکھنے والوں کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم ان کے نام کبھی نہیں جان پائیں گے۔ لیکن 70 سال کے مطالعے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بالآخر ہم ان کی لکھاوٹ کے ذریعہ ان سے مصافحہ کر لیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp