کورونا وائرس: کیا پاکستان ملکی ضرورت کے لیے درکار ویکسین کا انتظام کر رہا ہے؟

بینظیر شاہ - صحافی


ویکسین، پاکستان

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والی 35 برس کی مہوش بھٹی کے ذہن میں نجی لیب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کے فیصلے کے لیے کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی کیونکہ ان کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔

’میں انتہائی پریشان تھی اور ویکسین لگوانے کے لیے بے تاب تھی۔ میری عمر رسیدہ والدہ کو ویکسین کی پہلی خوراک مل گئی تھی لیکن کچھ علم نہیں تھا کہ دوسری کب ملے گی یا نہیں، تو میں نے سوچا کہ پھر میرا نمبر تو پتا نہیں کب آئے گا۔ میں نے بس فیصلہ کیا کہ جس قسم کی، جہاں سے بھی ویکسین مل رہی ہے بس لگوا لو۔‘

مہوش بھٹی حال ہی میں بے روزگار ہوئی ہیں اور نجی لیب سے روسی ساختہ سپوتنک وی ویکسین لگوانے کے لیے انھیں 12 ہزار روپے صرف کرنے پڑے۔ انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا: ’مجھے ایک ڈوز ویکسین کی لگی اور ایک ڈوز مالی لگی۔‘

مہوش کا شمار پاکستان میں 60 برس سے کم عمر والے اُن چند خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں ویکسین کی کم از کم ایک خوراک مل چکی ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

کورونا وائرس: کیا انڈیا پاکستان کو اپنے خرچے پر مفت ویکسین فراہم کرے گا؟

کورونا ویکسین پر طبی عملے کے خدشات: ’ڈر ہے کہ حکومت ہم پر تجربہ نہ کر رہی ہو‘

کورونا وائرس کی نئی انڈین قسم: کیا ویکسینز اس کے خلاف مؤثر ہوں گی؟

یاد رہے کہ پاکستان میں نجی طور پر سپوتنک وی ویکسین محدود مقدار میں صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دی گئی جبکہ فروری سے شروع ہونے والے سرکاری ویکسینیشن کے پروگرام میں صرف 60 برس سے بڑی عمر کے افراد کو چینی ساختہ سائنو فارم اور 70 برس سے بڑی عمر کے افراد کو کانسینو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ 21 اپریل سے 50 سے 59 برس کے افراد کے لیے بھی ویکسینیشن کا آغاز ہوا ہے۔

اگر پاکستان کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 21 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اپریل 15 تک وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق تقریباً 15 لاکھ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جس میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ عام شہری جبکہ باقی ہیلتھ ورکرز ہیں۔

یہ پاکستان کی کُل آبادی کا بمشکل ایک فیصد ہے جبکہ اگر پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے تو مارچ کے وسط میں آنے والی تیسری لہر پہلی دونوں لہروں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پاکستان میں کورونا وائرس کے مجموعی طور پر ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ کُل ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے 16 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

پاکلستان

پاکستان نے دو فروری کو چین کی جانب سے امداد کی کی گئی سائنو فارم ویکیسن سے ملک میں ویکسینیشن کا عمل شروع کیا تھا اور پہلے مرحلے میں صرف ہیلتھ ورکرز کو ویکسین دی گئی جبکہ 15 فروری کے بعد سے 60 برس سے زیادہ عمر والے عام شہریوں کے لیے سلسلہ شروع کیا گیا۔

گذشتہ ماہ کے آخر میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور کورونا وائرس سے نمٹنے والے سرکاری نگراں ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ 50 برس سے زیادہ عمر والے شہری بھی ویکسینیشن کے لیے اپنا نام رجسٹر کرا سکتے ہیں اور اپریل میں انھوں نے بتایا کہ عید کے بعد ملک کے تمام شہریوں کے لیے ویکسینیشن شروع کر دی جائے گی۔

اسد عمر متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت کا ہدف ہے کہ وہ ملک میں 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی آبادی کے 70 فیصد کو ویکسین کی خوراکیں دے سکے، جو کہ دس کروڑ سے کچھ زیادہ تعداد بنتی ہے۔

ویکسین

موقر جریدے اکنامسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 سے 70 فیصد بالغ آبادی کو ویکسین لگانے کا عمل سنہ 2023 کے اوائل میں ممکن ہو سکے گا۔

دوسری جانب اسی رپورٹ کے مطابق ایک ارب سے زیادہ آبادی والا ملک انڈیا یہ ہدف سنہ 2022 کے آخر تک جبکہ امریکہ اور یورپ اپنی مجموعی آبادی کے 70 فیصد حصے کو 2021 کے آخر تک ویکسین کی دونوں خوراکیں دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

لیکن ان اعداد و شمار اور اندازوں کو دیکھتے ہوئے جو سب سے اہم سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کیا پاکستان کے پاس آبادی کی ضرورت کے مطابق ویکسین ہے اور ہے تو کتنی ہے؟

اس بظاہر سادہ سے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاملے میں کچھ پیچیدگیاں ضرور ہیں۔

چین کی جانب سے فروری میں دی گئی 12 لاکھ خوراکوں کی مدد سے پاکستان اپنے ویکسینش پروگرام کو شروع کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ 23 مارچ کو وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ پاکستان چین سے سائنو فارم اور کانسینو ویکسین کی مزید ستر لاکھ خوراکیں خریدے گا۔

پاکستان

جب یہی سوال ڈاکٹر فیصل سلطان سے کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ 15 اپریل تک پاکستان کے پاس سائنو فارم کی 22 لاکھ خوراکیں پہنچ چکی ہیں جبکہ آنے والے کچھ دنوں میں لاکھوں مزید خوراکوں کے پہنچنے کا امکان ہے۔

انھوں نے مزید تصدیق کی کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسین فراہمی کے کوویکس پروگرام کے تحت پاکستان کو پہلے مرحلے میں 30 جون تک ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ویکسین کی خوراکیں مل جائیں گی اور یہ ویکسین آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ہو گی۔

گاوی کے منصوبے کے تحت تیسرے مرحلے میں پاکستان کو جون تک فائزر بائیو این ٹیک ویکسین کی ایک لاکھ خوراکیں جون تک موصول ہو جائیں گی۔

ویکسین کی کھیپ کی فراہمی کے حوالے سے جب بی بی سی نے گاوی کوویکس ویکسین الائنس سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ ویکسین اپریل تک پہنچ جانی تھی لیکن ویکسین بنانے کے عمل میں تعطل کے باعث اب یہ مئی تک فراہم کی جا سکے گی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ اسد عمر نے کہا تھا کہ ’ویکسین کے لیے گاوی ہی ہمارا مرکزی سپلائر ہے‘ اور ان کے مطابق پہلی کھیپ مارچ میں ہی متوقع تھی۔

ویکسین

گاوی کے پروگرام پر اتنا انحصار کرنے کے بارے میں اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی اعلی عہدیدار اگاتھے ڈیماریس نے بی بی سی کی نامہ نگار سٹیفانی ہیگارٹی کو بتایا کہ وہ کوویکس کے پروگرام کی کامیابی کے حوالے سے بہت زیادہ پر امید نہیں ہیں۔

’کوویکس پروگرام کے تحت دی جانے والی ویکسین کے شیڈول کا ابھی تک نہیں علم اور اگر وقت پر شروع یہ سلسلہ شروع بھی ہو جائے تو کم از کم اس سال کسی بھی ملک کی آبادی کے صرف 20 سے 27 فیصد حصے کے لیے ویکسین فراہم کر سکتا ہے جو کہ کچھ مدد ضرور کرے گا لیکن مکمل طور پر گیم چینجر ثابت نہیں ہو سکتا۔‘

ان تمام جوابات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان اب تک ویکسین کی صرف دو کروڑ بیس لاکھ کے قریب خوراکیں حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے جبکہ اگر آبادی کے تناسب سے سوچا جائے تو پاکستان کی 11 کروڑ سے زیادہ بالغ آبادی کا 70 فیصد حصہ ساڑھے آٹھ کروڑ بنتا ہے۔

تو پاکستان میں حکام نے اپنی آبادی میں کتنے لوگوں کو ویکسین لگانے کا اہتمام کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ آنے والے مہینوں میں کوشش کی جائے گی کہ پانچ کروڑ سے زیادہ آبادی کو ویکسین کی خوراکیں دی جائیں۔

’یہ بات یاد رکھنا ضروری ہو گی کہ پاکستان کی آبادی میں اب کئی لوگوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مدافعتی صلاحیت آ گئی ہے۔ ہمارا پانچ کروڑ آبادی کا ہدف آنے والے مہینوں کا ہے جبکہ ہماری کوشش ہے کہ اگلے سال ہم تمام بالغوں کو ویکسین لگا دیں۔‘

لیکن پانچ کروڑ آبادی کے لیے بقیہ ویکسین آئے گی کہاں سے؟ اس سوال کا جواب ممکنہ طور پر پاکستان کے صوبوں کے پاس ہے۔

مارچ کے آخر میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا کہ وفاقی حکومت اپنی جانب سے ویکسین حاصل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے لیکن صوبوں کو کھلی اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ویکسین خود سے حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ کسی بھی صوبے پر خود سے ویکسین حاصل کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔

لیکن ڈاکٹر فیصل سلطان کی ٹویٹ کے تین ہفتے گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں اب تک کسی بھی صوبے نے خود سے ویکسین حاصل کرنے کے لیے آرڈر نہیں دیے۔

پاکستان

اگر پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے اور کورونا وائرس کی تیسری لہر میں سب سے متاثرہ صوبے کی بات کریں تو پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے سات اپریل کو اعلان کیا کہ صوبائی حکومت نے دس لاکھ ویکسین حاصل کرنے کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔

لیکن پنجاب کے محکمہ صحت کی ایک اعلی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزیر اعلی کے اعلان کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی بجٹ میں اب تک ویکسینز کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔

’ویکسین حاصل کرنے کے لیے معاملات ابھی تک صرف گفت و شنید تک محدود ہیں۔ اس حوالے سے ایک ٹیکنیکل گروپ ضرور قائم کیا گیا ہے جو اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ کونسی ویکسین پاکستان میں استعمال کے لیے رجسٹرڈ ہے اور کونسی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔‘

پنجاب کی صوبائی حکومت کے مطابق 15 اپریل تک صوبے میں سات لاکھ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جس میں تقریباً پانچ لاکھ عام شہری جبکہ باقی ہیلتھ ورکرز ہیں۔

اسی طرح صوبہ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پچیچو کی ترجمان مہر خورشید نے بتایا کہ سندھ میں ویکسین حاصل کرنے کا سلسلہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

’ہم نے ویکسین خریدنے کے لیے پچاس کروڑ روپے مختص کر دیے ہیں۔ ویکیسن کی قیمتِ خرید پر فیصلہ نہیں ہوا ہے تو اس لیے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ کُل کتنی خوراکیں خریدی جائے گی۔‘

جب ان سے سندھ میں لگائی جانے والی ویکسین کے بارے میں پوچھا گیا تو مہر خورشید نے بتایا کہ 15 اپریل تک صوبے میں اب تک ساڑھے تین لاکھ خوراکیں دی جا چکی ہیں جن میں سے دو لاکھ خوراک ہیلتھ ورکرز اور باقی عام شہریوں کو دی گئی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور جھگڑا نے بتایا ہے کہ فی الوقت ان کی حکومت کا ویکسین خریدنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔

’ایسا اس لیے نہیں کہ ہم خریدنا نہیں چاہتے بلکہ یہ اس لیے ہے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں ویکسین کی قلت ہے تو یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبے انجانے میں ملک میں ہی استعمال ہونے والی ویکسین کے لیے کوششیں کرنے لگ جائیں۔‘

خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب تک صحت کے شعبہ سے منسلک 76 ہزار افراد کو ویکسین دی جا چکی ہیں جبکہ ویکسین لگوانے والے عام شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔

پاکستان

جب بلوچستان کے محکمہ صحت کے ایک اہلکار سے اسی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا صوبہ ابھی تک صرف وفاقی حکومت کی امداد پر انحصار کر رہا ہے۔

’ہم صوبے کے حالات سے مطمئن ہیں اور ہماری ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ ہم نے کوئی مخصوص رقم تو مختص نہیں کی لیکن جب ضرورت پڑے گی تو ایمرجنسی فنڈز استعمال ہو جائیں گے۔‘

صوبائی ویکسینیشن کے اعداد و شمار کے حوالے سے اہلکار کا کہنا تھا کہ 15 اپریل تک مجموعی طور پر 29 ہزار سے زیادہ افراد کو ویکسین دی جا چکی ہے جس میں سے 26 ہزار سے کچھ زیادہ صحت کے شعبے سے منسلک افراد ہیں جبکہ بقیہ عام شہری ہیں۔

صوبے میں ویکسینیشن کے عمل کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ابھی تک ویکسین کی 16 ہزار سے زیادہ اضافی خوراکیں موجود ہیں اور فی الوقت ان کو کمی سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ لوگ ویکسین لگوانے پر آمادگی کا اظہار کریں۔

ایسا ہی کچھ ماضی میں وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی کہا تھا کہ انھیں ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں پاکستان میں ویکسین اضافی مقدار میں موجود ہو اور لگوانے والا کوئی نہ ہو اور اس کے لیے وہ ملک بھر میں آگاہی کی مہم شروع کریں گے تاہم ڈاکٹر فیصل سلطان نے دو ماہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملک بھر میں آگاہی مہم کا آغاز اس وقت ہو گا جب ویکسین پہنچ جائے گی اور اس کی غیر موجودگی میں اس بارے میں شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

پاکستان

لیکن ابھی تک نہ آگاہی کی کوئی مہم قومی سطح پر شروع ہوئی ہے اور نہ ہی 50 برس سے کم عمر کے وہ شہری جو ویکسین لگوانے کے متلاشی ہیں، سرکاری طور پر ویکسین حاصل کرنے کے منصوبوں سے مطمئن ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ جب اُن کی باری آئے گی، تو ملک میں ویکسین نہیں ملے گی۔

مہوش بھٹی نے بھی اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید نہیں کہ ان کی عمر کے افراد کی باری جلد آ سکے گی۔

’جتنی آہستگی سے یہ معاملہ چل رہا ہے، مجھے تو لگ رہا ہے کہ میری عمر کے لوگوں کی اگلے پانچ سال بھی باری نہیں آنی۔ میں تو خوش قسمت تھی کہ میں نے 12 ہزار دے کر نجی طور پر ویکسین لگوا لی لیکن ایک عام شہری، ایک دیہاڑی دار مزدور، وہ تو اتنے پیسے نہیں دے سکتا۔ اس کا کیا ہو گا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp